ہم نئے نئے انگلستان پہنچے تھے-جی ہاں اپنے لینڈ لیڈی والے گھر سے نکل کرہم نے سوچا لندن کی سیر ہی ہو جاءے تو ٹیوب پکڑی اورکنگز کراس کا ٹکٹ لیکر چل دءے اب ہم کاریں دیکھتے جا رہے تھے یہاں سب کاروں مین باقاعدہ وہ بلنک کرنے والے اشارے لگے تھے یہ یاد رہے کہ لیٹ ففٹیز تک کاروں کے اشارے مختلف ہوا کرتے تھے جیسے سائڈ کھڑکی سے ایک ہاتھ نما ڈنڈا سا نکل آتا تھا اگر دائں طرف والا نکلا تو سمجھو گاڑی دائں طرف مڑنا چاھتی ھے تو یہ بلنکر دیکھ دیکھ کے ہم خوش ہو رہے تھے اب چلتے چلتے سڑک پار کرنے کو کھڑے ہوئے یہاں تو ہر جگہ زیبرا کراسنگ تھی اب جو ٹھرے تو ایک گاڑی ہمارے لیئے رک گئ اندر بیٹھا ہئوا انگریز ہمیں اشارہ کر رھا تھا کہ ہم سڑک پار کریں اب بھلا یہ کرتسی ہم نے کہاں دیکھی تجی پہلے تو ہماری لکھنوی طبیعت کو یہ گوارا نہ ہئوا ہم نے اسے اشارہ کیا کہ نھیں پہلے آپ-بھلا پاکستان میں کون ان باتوں کی پرواہ کرتا ہے اور ہم اسی اندازے کو ذہن میں لیئے ہئوے تھے کہ سڑکوں پہ ہر قسم کے جو نشانات بنے ہوتے ہیں وہ بس خوبصورتی کے لئے ہوتے ھیں- خیر۔ تو اس بچارے نے پھر ہمین اشارہ کیا مگر ہم سمجھے کہ یہ تو انگریز ہے اس نے تو تکلّف کرنا ہی ہے مگر ہم بھی نہائت شائستگی کے مالک ہیں آج اسے بتا کے ہی چھوڑیں گے کون زیادہ شائستہ ہے چنانچہ پھر اسے زرا جھک کے مزید اشارہ کیا کہ چلو اب وہ مجبور تھا یہ زیبرا کراسنگ تھی اور وہ ٹھرا ھئوا تھا اب نہ معلوم کے بار یہ پہلے آپ چلتا رہا ہو گا آخر وہ تنگ آکر چل ہی دیا اور ہم خوش - شائستگی میں ہم نے پہلا میدان مار لیا کیا یاد کرے گا انگریز بھی
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/
Sunday, May 9, 2010
Subscribe to:
Posts (Atom)