Monday, July 11, 2011

کوٹلہ - بھمبر کی فتح

گائوں میں بہت سےگھروں میں بھیںس اور دوسرے جانور تھے اور دودھ  دہی مکھّن وغیرہ کی کمی نہیں تھی مگر ہمارے گھر میں بھیںس کبھی ہوتی اور کبھی نہیں ہوتی تھی تو جب نہ ہو تو مجھے کسی دوسرے 'زمیندار' کے گھر سے دودھ لینے جانا پڑتا تھا ہمارے گائوں سے ملحق ایک اور چھوٹا گائوں تھا جس کا نام  پہاڑہ تھا
 صبح صبح سورج نکلتے ہی میں پہاڑے جاتا اور اس گھر سے دودھ لاتا۔ ایک پیتل کی چھوٹی سی بالٹی میرے ہاتھ میں ہوتی۔ یہی کوئ فرلانگ بھر کا فاصلہ تھا
 پاکستان بن چکا تھا اور کشمیر کی 'جنگ' شروع ہو چکی تھی مجاہدین دھڑا دھڑ آ جا رہے تھے اور چوںکہ ہندوستانی ہوائ جہاز کبھی کبھی پاکستان کی سرحد کے اندر بھی کشمیر کے بارڈر کے نزدیک بمباری کر دیا کرتے تھے اس لئے پاکستان کی فوج نے باقاعدہ ہمارے گائوں میں اپنا اڈّا جما لیا کوٹلہ اور پہاڑہ کے درمیانی حصّے میں ایک پرانی عمارت تھی جسے ہم 'سرائے' کہتے تھے اور وہ تھی بھی سرائے جو پہلے تو مغلوں نے بنائی ہوگی مگر  انگریزوں نے اپنے آرام کے لئے تمام صاحبوں والے چوںچلوں کے لئے اسے مکمل کیا تھا۔ انگریزوں کے جانے کے بعد وہ خالی تھی اس میں باقاعدہ پاکستانی فوج نے اپنا قبضہ جما لیا
 میں فوج کے آنے سے پہلے کا واقعہ بتانے لگا ہوں
 کشمیر کی جنگ میں بہت سے لوگ حصہ لیتے تھے کچھ ان میں ریٹاءرڈ فوجی ہوتے کچھ پاکستانی فوج کے 'چھٹّی' پہ آئے ہوئے ہوتے کچھ دیہاتی ویسے ہی برچھا کلھاڑی یا گنڈاسا لیکر  اللہ اکبر کے نعرے لگاتے 'جہاد' میں شامل ہوجاتے کہ شائد کچھ مال مل جائے باقی سرحد سے آئے ہوئے پٹھان ہوتے
 بھمبر ایک تحصیل تھی جس کا فاصلہ 'شہر کوٹلہ' سے آٹھ نو میل ہی تھا ڈوگرہ فوج تحصیل میں تھی اور اس پر حملہ کرنا یا فتح کر نا ایسا آسان نہیں تھا
 خیر سرائے میں پروگرام طے ہوئا کیسے حملہ کیا جائے ظاہر ہے کہ کام فوجیوں کا تھا اور انھوں نے سختی سے ان تمام غیر فوجیوں کو منع کیا کہ جب تحصیل سے باہر سحر کے وقت ڈوگرے سپاہی پی ٹی کر رہے ہوں ان پہ اچانک جا پڑیں مگر کوئی نعرہ اللہ اکبر کا نہ لگائے
 اب یہ کوئی دو سو یا کچھ اوپر  لوگ چلے حملہ کرنے جونہی ان کو ڈوگرہ فوجی پی ٹی کرتے نظر آئے انھوں نے ہلّہ بول دیا اور نعرہ لگا کر انھیں خبردار کردیا بس پھر بھلا کیسے وہ شہر فتح ہو سکتا تھا شام تک کئی زخمی آئے جو کوٹلے کے 'ہسپتال' میں علاج کے لئے آ رہے تھے میں یہ سارے 'تماشے' دیکھا کرتا اور ان کی یاد میرے دل میں قائم ہے
دوسرے روز بھی گزرنے پر کچھ نہ ہوسکا۔ تیسرے روز کا ذکر  ہے کہ میں صبح سویرے حسب معنمول دودھ لینے پہاڑہ گیا سڑک وہی تھی جو بھمبر کو جاتی ہے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پاکستانی ٹینک بھمبر والی سڑک پر بھمبر کی طرف سے آرہا ہے اس کے پیچھے ککر یعنی ببول کے درخت سے کاٹی ہوئی شاخین لگی تھیں جو ٹینک کے نشانات کو مٹاتی آ رہی تھین میں دودھ لیکر گھر آیا تو تفتیش میں نکلا کیا معاملہ ہے۔ معلوم ہوا اس روز بھمبر تحصیل یعنی بھمبر فتح ہو گیا اور جلد ہی مجاہدین میر پور اور سرینگر کے راستے پر تھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پلان ٹینک والی ہمارے  ایک بھائی  نے بنائی تھی وہ میرے بہنوئی کے بڑے بھائی تھے میرے بہنوئی اس وقت بھمبر میں ہی تھے لیکن اس حملہ سے ایک روز پہلے پیدل ہی نکل گئے اور بس ایک اٹیچی کیس  لیکر نکلے تھے میری بہن بچوں سمیت پہلے ہی کوٹلہ آ چکی تھین

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/