آپ کا تعلّق لکھنئو سے تھا مگر پاکستان میں اسلامیہ کالج لاہور میں میرے ہم جماعت تھے سکواڈرن لیڈر ایس ایس عالم صدّیقی شہید پاکستانی ہوائ فوج کے ایک آفیسر تھے
چھ ستمبر ۱۹۶۵ کی جنگ میں آپ کا جہاز ہی سب سے پہلے حملہ میں تھا اور آپ ہی سب سے پہلے شہیدوں میں شامل ہوئے اللہ آپ کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے
ان کے ساتھ چند خوشگوار یادیں وابستہ ہیں جو قارئین کو پیش کرنا چاہتا ہوں ۱۹۴۹ میں جب ہم نے کیمسٹری کے ایکسپیریمنٹ شروع کیئے تووہ میرے ساتھ پارٹنر ہو گئے تھے۔ ہم دونوں دیر تک لبارٹری میں کام کیا کرتے تھے شبّیر کا تجربہ مجھ سے زیادہ تھا آپ کو معلوم ہی ہوگا میرا میٹرک پاس کرنا کیسے ہوا تھا اور ہمیں گاںئوں میں کیسے کیمسٹری پڑھائ گئ تھی
خیر یوں ہماری دوستی شروع ہوئ اور دو سال ایک دوسرے کی مدد کرتے گزر گئے میں چوںکہ اچھی اردو بول سکتا تھا اس لئے بھی ہماری بول چال خوب تھی۔ ایک مرتبہ ہمارے کالج میں ریڈیو پاکستان لاہور سے کچھ لوگ آئے تھے برامدے میں یوںہی لڑکوں سے پوچھ رہے تھے کہ اردو کیسے پڑھتے ہیں میں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا اور وہ میرے تلفظ سے اور میری آواز سے متاثر ہوئے۔ اسی طرح انھوں نے شبّیر کو بھی چنا۔ چنانچہ ہم آٹھ لڑکے اور ایک پروفیسر محمود احمد ہاشمی صاحب اس پروگرام کے لئے مختص کر دئے گئے ہم سب ریڈیو پاکستان گئے اس روز مزید کلاسیں نہیں اٹینڈ کیں ایک مقالہ مجھے پڑھنے کو دیا گیا اسی طرح سب نے کوئ ڈرامہ یا اسکیچ وغیرہ جو بھی تھا اسکی دوپہر کو مشق کی اور شام کو پرہگرام سے فارغ ہو گئے
اب طے ہوا کہ جو پیسے دئے گئے ہیں ان کی ایک گروپ فوٹو کچھوالی جائے جو یادگار رہے گی میرے پاس عرصہ تک موجود تھی یہ سن اڑتالیس کی بات ہےاب نہ جانے کہاں ہوگی بس وہی ایک تصویر ہے جس میں سید شبیر عالم میرے ساتھ ہیں گو وہ کھڑے ہوئے ہیں اور میں بیٹھنے والوں میں تھا
جب ہم میڈیکل کالج میں تھے تو ایک روز مجھے ملنے دو ہوائ فوج کے افسر آئے شبّیر صاحب اس وقت فلائٹ لفٹننٹ تھے دو خوبصورت جوان اپنی سائیکلوں پر آئے تھے مجھے یاد ہے انھوں نے سائکل چلانے کے لئے بھی دستانے پہن رکّھے تھے میں بہت خوش ہوا تھا ان سے ملکر اس وقت مجھے جو یاد پڑتا ہے دونوں آفیسر جزبہ پاکستان سے بھرے ہوئے تھے اور میں اس حسین پاکستانی افسر میں قومی وقار اور ملکی جزبہ کی جھلک دیکھ رہا تھا
یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی میں اس وقت انگلینڈ میں تھا جب '۶۵ کی جنگ ہوئ اوراس کے بعد اب یہ وڈیو دیکھی۔ ان کی شادی کی داستان بھی اخبار میں پڑھی تھی وہ ان دنوں کی ہی بات ہے جب جنگ کے بعد ملک کے ہیرو اخبار کی زینت بنا کرتے تھے۔ وڈیو میں ہی اس بھابی کو بھی دیکھا جو مجھے نہیں جانتیں مگر میں نے ان کے ساتھ آنسو بہائے پروگرام دیکھ کر ہندوستانی ٹی وی اور گورنمنٹ سےامپریس ہوا ہوں کہ انھوں نے اس بیوہ کی کیسے مدد کی
جب موقع ملا تو اس وڈیو کا لنک بنادوں گا یہ کام ابھی نہیں سیکھا
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
آج یہ تصویر مل گئ تو حاضر خدمت ہے لیکن اوپر لکھا ہے میں بیٹھا ہوں اور شبیر کھڑے ہیں یہ غلط نکلا سید شبیر عالم میرے
بائیں بیٹھے ہیں میری عینک مجھے ظاہر کرتی ہے