Wednesday, September 28, 2011

سید شبّیر عالم شہید























آپ کا تعلّق لکھنئو سے تھا مگر پاکستان میں اسلامیہ کالج لاہور میں میرے ہم جماعت تھے سکواڈرن لیڈر ایس ایس عالم صدّیقی شہید پاکستانی ہوائ فوج کے ایک آفیسر تھے
چھ ستمبر ۱۹۶۵ کی جنگ میں آپ کا جہاز ہی سب سے پہلے حملہ میں تھا اور آپ ہی سب سے پہلے شہیدوں میں شامل ہوئے اللہ آپ کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے

ان کے ساتھ چند خوشگوار یادیں وابستہ ہیں جو قارئین کو پیش کرنا چاہتا ہوں ۱۹۴۹ میں جب ہم نے کیمسٹری کے ایکسپیریمنٹ شروع کیئے تووہ میرے ساتھ پارٹنر ہو گئے تھے۔ ہم دونوں دیر تک لبارٹری میں کام کیا کرتے تھے شبّیر کا تجربہ مجھ سے زیادہ تھا آپ کو معلوم ہی ہوگا میرا میٹرک پاس کرنا کیسے ہوا تھا اور ہمیں گاںئوں میں کیسے کیمسٹری پڑھائ گئ تھی
خیر یوں ہماری دوستی شروع ہوئ اور دو سال ایک دوسرے کی مدد کرتے گزر گئے میں چوںکہ اچھی اردو بول سکتا تھا اس لئے بھی ہماری بول چال خوب تھی۔ ایک مرتبہ ہمارے کالج میں ریڈیو پاکستان لاہور سے کچھ لوگ آئے تھے برامدے میں یوںہی لڑکوں سے پوچھ رہے تھے کہ اردو کیسے پڑھتے ہیں میں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا اور وہ میرے تلفظ سے اور میری آواز سے متاثر ہوئے۔ اسی طرح انھوں نے شبّیر کو بھی چنا۔ چنانچہ ہم آٹھ لڑکے اور ایک پروفیسر محمود احمد  ہاشمی صاحب اس پروگرام کے لئے مختص کر دئے گئے ہم سب ریڈیو پاکستان گئے اس روز مزید کلاسیں نہیں اٹینڈ کیں ایک مقالہ مجھے پڑھنے کو دیا گیا اسی طرح سب نے کوئ ڈرامہ یا اسکیچ وغیرہ جو بھی تھا اسکی دوپہر کو مشق کی اور شام کو پرہگرام سے فارغ ہو گئے
 اب طے ہوا کہ جو پیسے دئے گئے ہیں ان کی ایک گروپ فوٹو کچھوالی جائے جو یادگار رہے گی میرے پاس عرصہ تک موجود تھی  یہ سن اڑتالیس کی بات ہےاب نہ جانے کہاں ہوگی بس وہی ایک تصویر ہے جس میں سید شبیر عالم میرے ساتھ ہیں گو وہ کھڑے ہوئے ہیں اور میں بیٹھنے والوں میں تھا
جب ہم میڈیکل کالج میں تھے تو ایک روز مجھے ملنے دو ہوائ فوج کے افسر آئے شبّیر صاحب اس وقت فلائٹ لفٹننٹ تھے دو خوبصورت جوان اپنی سائیکلوں پر آئے تھے مجھے یاد ہے انھوں نے سائکل چلانے کے لئے بھی دستانے پہن رکّھے تھے میں بہت خوش ہوا تھا ان سے ملکر اس وقت مجھے جو یاد پڑتا ہے دونوں آفیسر جزبہ پاکستان سے بھرے ہوئے تھے اور میں اس حسین پاکستانی افسر میں قومی وقار اور ملکی جزبہ کی جھلک دیکھ رہا تھا
 یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی میں اس وقت انگلینڈ میں تھا جب '۶۵ کی جنگ ہوئ اوراس کے بعد اب یہ وڈیو دیکھی۔ ان کی شادی کی داستان بھی اخبار میں پڑھی تھی وہ ان دنوں کی ہی بات ہے جب جنگ کے بعد ملک کے ہیرو اخبار کی زینت بنا کرتے تھے۔ وڈیو میں ہی اس بھابی کو بھی دیکھا جو مجھے نہیں جانتیں مگر میں نے ان کے ساتھ آنسو بہائے پروگرام دیکھ کر ہندوستانی ٹی وی اور گورنمنٹ سےامپریس ہوا ہوں کہ انھوں نے اس بیوہ کی کیسے مدد کی
جب موقع ملا تو اس وڈیو کا لنک بنادوں گا یہ کام ابھی نہیں سیکھا
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
آج یہ تصویر مل گئ تو حاضر خدمت ہے لیکن اوپر لکھا ہے میں بیٹھا ہوں اور شبیر کھڑے ہیں یہ غلط نکلا سید شبیر عالم میرے
بائیں بیٹھے ہیں میری عینک مجھے ظاہر کرتی ہے

Friday, September 16, 2011

امریکہ میں مسلمان بچوں کی پرورش-۳

  میری اس ساری تحریر کا مقصد یہ تھا کہ بچہ کا ماحول کب شروع ہوتا ہے - جیسے ہی بچہ پیدا ہوتا ہے سنّت ہے کہ اس کے کان میں اذان دی جائے- آج کے کمپیوٹر زمانے میں اس کا سمجھنا آسان ہے کہ بچے کو پہلا لفظ اللہ کا سنایا جارہا ہے جو سیدھا اس کہ دماغ میں مقفّل ہو جاتا ہے بلکل ایک کمپیوٹر میں ڈیٹا ڈالنے کے طریقہ کی مثل ہے-
پیداءش کے بعد ماں اور باپ کے سامنے مسئلہ اس کی نشوونما اور پرورش کا آتا ہے جس کے لئے مجھے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں صرف ماں کی گود کا ضرور لکھوں گا
    ٘ماں کی گود میں بچے کو ماں کی خوشبو اور گرمی ایک محفوظ اور سلامتی والی جگہ میں ہونے کی تسکین پیدا کرتی ہے وہیں اسے خوراک بھی ملتی ہے اس وجہ سے چاہیئے کہ اگر اوپر کا دودھ پلایا جانا ہے تو ماں یا باپ اپنی گود میں لیکر پلائیں
 بچے کو ایک ماہ تک صاف نظر آنا شروع ہوتا ہےپہلے صرف دھندلی تصویر اس کی ماں کی اور پھر باپ کی  ہوتی ہے پھر اور لوگوں کی بھی جو گھر میں ہوں تو اس طرح بچہ اپنے رشتے استوار کرنا شروع کرتا ہے اور اس کا ماحول سے ٹکرائو اس کی عادتوں اور طبیعت پر اثر انداز ہوتا ہے وہی کچھ سیکھتا ہے جو اس کے ارد گرد ہوتا ہے اور جو اسے سکھایا جاتا ہے تو یہ ایک والدین پر بہت بھاری ذمّہ داری ہوتی ہے بچہ ہر چیز کے لئے والدین پہ انحصار کرتا ہے اور جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے دوسرے لوگوں اور پھر اپنے آپ پہ اور اپنی کوششوں پہ انحصار کرنا شروع کر دیتا ہے چنانچہ پہلے تین سال میں ہی ماں اور باپ کے لئے موقعہ ہے بچے کی شخصیت کو جیسا بنانا چاہتے ہیں بنا لیں اور جو کام اس کی پیدائش سے پہلے شروع کیا تھا اسکی تقریبا" تکمیل انہی تین یا چار سالوں میں کرنی ہے پھر جب دوسرے بچوں اور سکول کے ماحول مین جائے گا تو اس وقت ماں باپ کا اثر تھوڑا ہو جائے گا اب یہ سکول اور کالج میں بچے نے ان اقدار کو اپنانا ہے ان خیالات  اور ماحول کو اپناناہے جو اسکو پسند آئیں گے اگر ہم نے اس کی پسند اور ناپسند والی ترازو صحیح اسلامی بنائی ہے تو وہ ایسی ہی اقدار کو اپنائےگا جو اس پہ صحیح اتریں گی
 ان تمام باتوں اور احتیاط کے باوجود غیر اسلامی ماحول میں بچے کا اسلامی ڈگر سے اتر جانا نہ تو ناممکن ہے اور نا ہی ایسا مشکل ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ آپ نے بطور ماں یا باپ اپنی ذمہ داری پوری کرلی ہے اور اس کے بعد ماں اور باپ کے لئے دعائیں رہ جاتی ہیں وہ بھی ایسی ہی ضروری ہیں۔ میں نے صرف اصول بیان کِئے ہیں امّید ہے کہ آپ کے لیے مفید ثابت ہوں گے



Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/