Thursday, October 9, 2014

خوشتر آں باشد کہ - - - - -

       خوشتر آں باشد کہ سرِّ دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں

  " بہتر یہ ہے کہ دلپسند لوگوں کے راز کو کسی دوسرے کی تمثیل میں کہا جائے
مختصرا" یہی مطلب بیان کر سکتا ہوں مقصد اس شعر کا یہ ہے کہ جن لوگوں کو آپ پسند کرتے ہوں جن کی آپ بہت عزّت کرتے ہوں اگر ان کی کوئ بات  جو مونھ پر کہتے ہوئے اچھی نہ لگتی ہو اس کے بیان کے لئے کوئ ایسا بیان ہو جس سے بات سمجھائ بھی جائے اور کسی تیسرے شخص کے نام پر بیان کی جائے
اس کی ایک مثال پرانے زمانے کی یوں دی گئ ہے
          ایک بار کہیں وضو کرتے ہوئے حسن اور حسین رضی اللہ عنہ جب وہ چھوٹے تھے کسی بڑے آدمی کو دیکھا جو کچھ غلطی کر رہا تھا تو ان دونوں نے اسے صحیح طریقہ بتانے کے لئے یوں کیا کہ اس کے پاس جاکر کہا ہم دونوں وضو کے صحیح طریقے پہ جھگڑ رہے ہیں آپ فیصلہ کریں میں اس طریقہ سے کرتا ہوں اور میرا یہ بھائ اس غلط طریقے سے کر رہا ہے اور ایک نے اس آدمی والا غلط طریقہ کیا اور دوسرے نے صحیح طریقہ کیا وہ آدمی سمجھ گیا اور صحیح طریقہ بتایا اس طرح اس کو خود بھی معلوم ہو گیا صحیح طریقہ کیا ہے
 اس مثال سے بات آپ کی سمجھ میں آگئ ہوگی ایک اور  مثال ہی سمجھ لیں مگر یہ بات  الگ ہے اردو زبان اور اس کی تہذیب میں کچھ فقرے یا الفاظ یا کلمات تہذیب کو زیادہ ظاہر کرتے ہیں جیسے اردو زبان میں تو یا تم یا آپ تین مختلف الفاظ ہیں یا کہا جاتا ہے 'آپ کے دشمنوں کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟' پوچھنے والا مخاطب کی عزت اور حیثیت دیکھ کر خراب طبیعت کو مخاطب کے بجائے اس کے'دشمن' کا نام لے رہا ہے یہ بات ہمارے امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے اور ابھی حال میں ہی مجھے اس کا سامنا کرنا پڑا تھا اس بچے کو دشمن کا ریفرینس بلکل سمجھ نہیں آیا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/