Wednesday, April 13, 2016

پنجابی لوک گیت

میں پارٹیشن سے پہلے کی بات کر رہا ہوں جب میں نیا نیا پنجاب پہنچا تھا اپنے پنڈ یعنی کوٹلہ
        پہلے یہ یاد رکھئیے کہ وہاں اس وقت نہ ریڈیو تھا نہ کہیں گراموفوں نہ سنیما وغیرہ تو ایسے میں لوگ دل بہلاوے کا سامان کہاں سے پیدا کرتے ہیں ظاہر ہے کہ آپس میں کہانیاں کہنا یا گیت وغیرہ سنانا ہی چل سکتا ہے تو ہمارے معاشرے میں جب ہندو مسلمان اور سکھ سب اکٹھے مل جل کے رہتے ہوں اور زیادہ تر سب کھیتی باڑی سے تعلق رکھتے ہوں  تو سارا گیتوں کا یا ویسے ہی موسیقی کا سامان گائوں کی فضا میں ڈھور ڈنگر کھیتی باڑی کے علاوہ انسانی پیار محبت کی کہانیاں اور گیت ہی ملتے ہیں
 ان میں سے چند جن کے متعلق مجھے آگاہی ہوئ وہ یہ تھے
 بارہ ماہی
ماہیا
جگنی ]اب جو بھی اس کا مطلب ہو[
  میلے ٹھیلے کے متعلق گیت اور قصے
بھین بھرا دا قصہ
 اس کے علاوہ پوری داستانیں مثال کے طور پر
ہیر رانجھا
 یوسف زلیخا
سسّی  پنّوں              

                                                                                                        بارہ ماہی ایک نظم سی ہوتی ہے جس میں ہر مہینے کے نام سے ایک شعر کہا جاتا ہے اور وہ سارا مطلب بیان کرتا ہے   گوگل کا اللہ بھلا کرے مجھے سارے نام بتا دِے گائوں میں عام جنوری فروری وغیرہ نام زیادہ تر  دو جماعت پڑھے لوگوں میں چلتے تھے زمیندار لوگ اسی پنجابی ناموں جو غالبا" چاند کے حساب سے لئے گئے ہیں چلتے تھے مجھے دو مہینوں کے شعر لکھنے تھے جو اب بھی یاد ہیں پہلے یہ سن لیں
 چڑھدے وساکھ وساکھی آئ چلّے لوکّی سارے
مینوں درد فراق سجن دا ول ول اکھیاں مارے

 یہ مجھے بیٹے حسن نے آج فیس بک پر نوٹ لکھ کر یاد کرا دیا  بیساکھی یا ویساکھی یا وساکھی ایک قسم کا تہوار بن گیا ہے جو  ایک قسم کا   نیو ییرز ڈے  ہے      پھر دوسرا چیتر کے مہینے کا ہے بس ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ جب میں نیا نیا گائوں کے سکول جانے لگا پنجابی بچوں کو اردو  کا زیادہ پتہ نہیں تھا ویسے بھِ میرا نام وہاج بلکل عجیب تھا تو ایک لڑکے نے میرے نام کی وجہ سے یہ شعر پڑھا مجھے ایک قسم کی چھیڑ کے لئے کہا کرتا تھا
 چڑھدے چیتر چیتا میرا بھلّ گیا دلبر نوں
تیلی لاواں پھوک جلاوان سوہنے باہجوں گھر نوں

 تو اسے "باہجوں ' میں میرا نام ملتا تھا
ی

Please visit my English blog at Saugoree