Thursday, April 29, 2010

موںھ بولی بہنیں

 پیشاور یونیورسٹی ابھی نئ بنی تھی تمام رھائشی بںگلے خوبصورت بنائے گئے تھے اور کشادہ ہوادار قسم کےیعنی بڑی اچھّی پلیننگ کی گئ تھی یہ سارے یونیورسٹی کے سٹاف کے لیئے تھے چنانچہ پی ٹاءپ بنگلے پروفیسروں کے، آر ٹائپ اسسٹنٹ پروفیسروں کے ایس ٹائپ سینیئر لیکچرار اور جے ٹائپ جونئر لیکچرار کے لیئے بنائے گئے تھےچوںکہ
ہمارا درجہ سینئر لیکچرار کا تھا تو ہمارے لیئے نمبر ۲۰ یعنی ایس ٹونٹی بنگلہ الاٹ کیا گیا تھا
ایس ٹونٹی ھمارے کاموں یا کارستانیوں کی وجہ سے اپنا نام پیدا کر گیا۔ اس وقت ھم چار ڈاکٹر منچلے بن بیاہے وھاں رہتے تھے صرف ایک کی شادی ہوئ اور وہ باقاعدہ پشاور صدر میں رھائش کے لیئے چلے گئے ھمارے پڑوس کا بنگلہ نمبر ۲۱ یعنی ایس ٹونٹی ون تھا جہاں اس وقت تین لڑکیاں اور ان کی امّان جان رہتی تھیں آمّاں جان کو دل کی تکلیف تھی اور ان کی دوائوں وغیرہ کا میں نے خیال رکھنا شروع کر دیا تھا۔ بڑی لڑکی کالج میں سینئر لیکچرار تھی اس سے چھوٹی ایم اے انگلش کی طالبہ اور اس سے چھوٹی ہائ سکول میں تھی ان کے ہاں جب کچھ اچھّی چیز پکتی تو ہم سب کو بلایا جاتا اس طرح ہم سب ان لڑکیوں کے موںھ بولے بھائ اور وہ سب ھماری موںھ بولی بہنیں بن کئیں
 ماشا اللہ بڑی طرح دار سمجھدار اور نہائت شائستہ تھین ان کے والد مشرقی پاکستان کی گورنمنٹ میں بڑے عہدے پر فائز تھے ھم سب ان بہنوں کا اسی طرح خیال رکھتے تھے جیسے وہ ہماری اصلی بہنیں ھوں چنانچہ جب بڑی بہن کی شادی ھوئ تو تمام انتظامات ھمارے ہی ہاتھوں میں تھے حتّی ا کہ شادی سے پہلے امّان جان نے ہمیں ہی دولھا میاں کو دیکھنے بھیجا تھا جو ماشا اللہ اس وقت لاء کالج میں وائس پرنسیپل کے عہدے پہ تھے یوں ھم نے ھر طرح کی کوشش رکھی کہ لڑکیاں باپ کی غیر موجودگی نہ محسوس کریں دو سال یا اس سے کچھ اوپر ہم نے اس طرح گزارے تھے اور ان بہنوں کی یاد دل میں رہ گئ ہے
ایک بہن اس وقت امریکہ میں تھی اور اس کے آنے کے بعد ہی شادی مکمّل ہوئ تھی اتنا یاد ہے کہ آنے سے پہلے اس نے امّی کو تار دی تھی کہ اس کے لیئے دال بنا کر تیّار رکّھین ان دنوں دیسی کھانے امریکہ میں بھلا کہاں ملتے ہوںگے ان بہنوں کی دو باتیں  انہیں ممیّز کرتی تھیں ایک یہ کہ سب کی سب لاںبے قدوں کی مالک تھیں اور دوسرے یہ کہ انہیں اچھے رنگوں کے کپڑے پہننے کی تمیز تھی اللہ سے دعا ہے جہاں بھی ھیں انہیں خوش اور آباد رکّھے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, April 1, 2010

سگرٹ، اشتہار اور آپ کی صحت

سر زمین امریکہ میں حکومت امریکہ کے سرجن جنرل نے جب سگرٹ کے اشتہاروں کو ممنوع قرار دیا تو سگرٹ نوشی پہ خاطر خواہ اثر دیکھا گیا تھا لیکن مشرق وسطی ا اور پاکستان بھارت وغیرہ میں اسی طرح اشتہار بازی چلتی رہی اس کے بعدامریکہ میں وہ خبر بھی دیکھی گئ کہ وہ آدمی جو امریکہ میں سگرٹ کے اشتہار میں دیکھا گیا تھا اس کی موت پھیپھڑوں کے سرطان  سے واقع ہوئ خیر جو ہوا سو ھوا مگر پھر مزید سگرٹون کے استعمال میں کمی دکھائ جانے لگی مثال کے طور پر اب جو فلمیں وغیرہ بنائ جاتی ھیں خصوصا" اس ملک میں ان میں ایکٹر اور ایکٹرسیں سگرٹ پیتے نہیں دکھاتے
 ان تمام باتوں کا مجموعی اثر کہاں تک ہئوا ہے اس کا کوئ مکمل تجزیہ ابھی تک میری نظر سے نہیں گزرا ہماری اسلامک میڈیکل اسوسیاشن میں ایک صاحب نے قریبا" بیس سال پہلے ایک سٹیٹسٹیکل تجزیہ پیش کیا تھا اس مین یہ بات خصوصا' قابل تذکرہ ہے کہ انھوں نے پاکستان اور مشرق وسطی ا کے تمام کھیلوں مین سگرٹ کے اشتہار بہت جلی حروف میں دیکھے جاتے تھے اور امریکہ میں جو کمپنیاں مقامی اشتہار نھین نکال سکتی تھین وہ اپنا سارا سرمایہ  ان ملکوں میں کھیلوں پر اشتہار بازی میں لگا رہی تھیں
 اب جو یہ خبر دیکھی کہ پاکستان میں جناب اعجاز جخرانی صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ سگرٹوں کی فروخت پر زیادہ ٹیکس لگایا جائے اور اس آمدنی کو صحت عامّہ  پہ خرچ کیا جائے تو بہت افسوس ہئوا ممکن ہے اس مشورہ کو واپس لیا جائے مگر اس حقیقت سے اغماض نھیں کیا جا سکتا کہ کھیلوں کے تماش بینوں میں سگرٹ کا استعمال واقعی حد سے زیادہ ہے میرے ناقص خیال میں اس طرف توجّہ دینی چاہئے کہ سگرٹ کے بجائے وہ لوگ اور کس چیز کا استعمال کر سکتے ہیں میرے ثہن میں گنڑیریاں آتی ھیں اور مونگ پھلی  وغیرہ بھی۔۔۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہوگا؟

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/