Wednesday, June 30, 2010

سرفنگ اور دواڑا یا بھنڈر

 ھمارے گاءوں کے مشرق میں ایک برساتی نالہ ہے نالہ کے اس پار میرے والد مرحوم کا گائوں ہےجسے سہوںترا کہا جاتا ہے میرے گائوں کا نام کوٹلہ ارب علی خاں ہے نالہ تک پہنچنے کے لِئے ایک مختصر جنگل میں سے گزرنا پڑتا ہے اس کو وہاں کی زبان میں 'بیلی" کہتے ہیں نالہ کی چوڑائ تقریبا" سو گز ہوگی گرمیوں کے موسم میں جب بارشیں آتی ھیں اور پہاڑوں پر سے برف پگھلتی ہے تو نالے میں پانی آتا ھے اس کا بہائو خاصا تیز ہوتا ہے اور پانی کا شور الگ ہوتا ہےایسا ہی شور میں نے نیاگرہ میں سنا ہے
 نالے کا نام 'بھنڈر' ہے اور اسے 'دواڑا' بھی کہتے ہیں گدلا پانی اور اس کی تیز لہریں بچّوں کے لیئے کھیل کا سامان پیدا کرتی ہیں ان پہ اسی طرح ٹھیلا جاتا ہے جیسے سمندر میں آپ نےجوان لوگوں کو سرفنگ کرتے دیکھا ہے صرف ہمارے پاس تختے نہیں تھے جب زیادہ تیز لہریں ہوں تو صرف بڑے لڑکے ہی جا سکتے ہیں پہر بہی خطرہ رہتا ہے ڈوب جانے کا
  جب اس نالے مین پانی آتا ہے تو اس "طوفانی" پانی کو پنجابی میں "ھاڑ" آنا کہتے تھے اور "کانگ" بہی کہا جاتا تھا یہ وہی نالے ہے جس کے متعلق میں پہلے لکھ چکا ہوں جب گجرات سے آتے ہوے راستے میں آتا ہے وہ ہمارے گائوں سے دس بارہ میل دور ہے دواڑا پھر گجرات سے بھی آگے جاتا ہے اور پھر ایک اور نالہ "بھمبر" سے ملجاتا ہے اب تو ان پر پل بن چکے ہیں
اتنا پانی ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہمارے گھر مِن اوورفلو ہو کے آ جایے ویسے بھی نالہ کوٹلے کی نسبت نشیب میں ہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

2 comments:

  1. It always amaze me how without communication centuries ago - humans learned same sports and same lifestyle....

    ReplyDelete
  2. یہ غالبا" انسان کی فطرت کا اپنا کرشمہ ہے اس کے لئے زبان کی ضرورت نہیں

    ReplyDelete