مرحوم میرا تقریبا" ہم عمر تھا
ککرالی اسکول ھمارے گائوں سے کوئ میل بھر ہوگا مختلف گائون سے سیکڑوں بچّے میل میل اور دو یا چار میل تک سے پیدل وقت پر اسکول پہںچتے تھے ان بچّوں کا روزانہ کا یہی معمول تھا صبح صبح ٹولیوں مین ہںستے کھیلتے بچّے ککرالی گائوں کی طرف جاتے نظر آتے تھے اسی ایک ٹولی میں میں بھی تھا۔ہمارے گھر کے تقریبا" سامنے بثیر کھوکھر کا گھر تھا اور اس سے ذرا آگے جان یعنی رمضان کھوکھر کا چنانچہ ہم تین اور دوسرا میرا قریبی دوست بشیر-جو بعد میں ڈاکٹر بشیر بھٹّی کہلایا- دوسرے محلّے سے آ ملتا تھا دونوں بشیر اور جان مجھ سے دو سال پیچھے تھے دونوں بشیر ذہین تھے
بشیر کھوکھر کا باپ گجرات پنجاب بس کا ٹکٹ کلکٹر تھا جنھین گجرات یا کہیں بھی جانا ہوتا تھا سب اس پہ ہی بھروسہ رکھتے لوگوں کی بھیڑ میں سے ٹکٹ کٹوانا اتنا آسان نہیں تھا
بشیر سے چھوٹے دو اور لڑکے تھے صابر اور "فیکا" یعنی رفیق۔ بشیر ذرا لنگڑا کے چلتا تھا آٹھوین تک پہںچتے پہںچتے مزید کمزوری کی وجہ سے بلکل چلنے سے معذور ہو گیا میں میٹرک پاس کر کے لاہور چلا گیا جب میں نے ایف ایس سی پاس کی اس وقت تک وہ پلنگ پر پڑگیا
جب تک میں میڈیکل کالج داخل ہئوا وہ اٹھنے بیٹھنے سے بھی رہ گیا ان سب باتوں کے باوجود میں جب اسے ملتا اسے پہلے کی طرح ہی ہںس مکھ پاتا وہ یا سگرٹ یا حقّہ مںہ سے لگاتا اور ہم سب سے اسی طرح باتین کیا کرتا جیسے پہلے کرتا تھا
اس کا باپ جب چلتا تھا تو اس کی خمیدہ کمر ہوتی اور گردن بھی زیادہ نہیں موڑ سکتا تھا جب میں چوتھے سال میں تھا تب میں نے اس بیماری کا پڑھا انگریزی میں اسے پوکر بیک کہا جاتا ہے
Poker Back-- Ankylosing Spondylitis.
باپ کے فوت ہونے کے بعد بشیر کی خدمت اس کی مان کیا کرتی مزید کمزور ہوتا گیا مگر جب بھی میں جاتا اس کے چہرے پہ مسکراہٹ ہی دیکھتا سگرٹ بھی اس کی مان دیا کرتی خود نہیں پی سکتا تھا اس وقت تک چھوٹا فیکو میٹرک چھوڑ کے کہیں باہر چلا گیا چھوٹا تھا تو ہمارے گھر میں آتا تھا میری بہنیں اس سے کام وام کرا لیتی تھین تو ان کی گرویدگی حاصل کر لی صابر ہاتھ پائوں کا ٹھیک تھا مگر ذہن کمزور تھا فیکو ذہن کا تیز تھا بشیر کی طرح مگر پڑھائ سے بھاگ گیا۔
کئ سال بعد میں انگلینڈ سے واپس آیا تو معلوم ہئوا بشیر اور اس کی مان بھی فوت ہو چکے تھر صرف صابر گھر میں تھا فیکو کو میری بڑی بہن نے لاہور میں کہیں پکڑا اس کے پاس ٹویوٹا گاڑی تھی اس نے خاصی آمدنی بنا لی تھی اور غالبا" موٹر سیلز میں تھا
بشیر کے متعلّق میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ جب وہ اس قابل ہوا کہ اپنی زندگی بنالے تو بیماری نے بستر پہ ڈال دیا سوچتا تھا جیسے میرے اپنے خیالات احساسات اور تمنّائیں ہوتی تھیں اس کی بھی ہوتی ہوںگی ان سے کیسے نپٹتا ہوگا اس کے بھی دل میں امنگیں اور ارمان اسی طرح جنم لیتے ہونگے جیسے میرے دل میں اس وقت ہو تے تھے اس کا ٹیڑھا میڑا سا جسم کمزور اور ہڈیوں کا ڈھانچہ سا مگر ذہن صاف تھا اور چہرا اسی طرح ہںستا ہوا
اللہ اسے جنّت میں بھی اسی طرح ہنستا رکھّے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
You made me sad. Ye Zindagi bari zaalim cheez hai. Saali kisi ki nahi hui.....
ReplyDeleteآپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ میں اس کے متعلق لکھنے کا پچھلے ۴۷ سالوں سے سوچ رھا تھا بلاگ نے مجھے یہ موقع دیا ہے
ReplyDelete