گزشتہ سے پیوستہ
عربی کا لفظ -مضغہ- بہت پرمعانی ہے چودہ سو برس سے سمجھتے آئے ہیں کہ 'ایسی بوٹی جس پر داںتوں کے نشان ہوں چنانچہ
جب ایک ماہر علم جنین یعنی
Embryologist
کو سمجھایا گیا تو حیرت سے انگشت
بدندان رہ گیا پھر اسے ' لوتھڑا' ایک جونک نما شکل بتائی گئ تھی ان سب کا مطالعہ کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس 'کتاب' میں چودہ سو سال پہلے ایسی باتیں بتائ گئیں تھین ظاہر ہے کہ محمّد-صلّ اللہ علیہ و سلّم- ایسی معلومات کہیں سے لینے کے قابل نہ تھےچنانچہ اس کے ساتھ سارے امبریالوجسٹ جو تھے وہ اس نتیجے پر پہںچے بغیر نہ رہ سکے کہ یہ الفاظ صرف خالق حقیقی ہی بتا سکتا ہے
پھر ایک اور حقیقت کی طرف دھیان دیجئے
قرآن کریم بتا رہا ہے -- اور یہ سورہ نحل والی آیت سے ہے--
تمھین کان دیئے ۔ ۔ ۔ اور آنکھیں دیں ۔ ۔ ۔ اور سوچنے کے لیئے دل دیئے
اس ترتیب میں ایک 'راز' پوشیدہ ہے ہمیں سائنس بتا رہی ہے کہ جب بچّہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی قوّت سامعہ پہلے ہی کام کر رہی ہوتی ہے آنکھیں تقریبا" ایک ماہ کی عمر تک صحیح کام شروع کرتی ہیں اور دل یعنی سمجھ بوجھ سب سے بعد میں کام شروع کرتی ہے
قوت سامعہ کے متعلق دو باتیں غور طلب ہیں ایک تو یہ کہ جیسے ہی یہ اعضا جنین میں بنتے ہیں اور دماغ کے خلئے کام شروع کرتے ہیں تو بچّہ ماں کی آواز سننے لگتا ہے اس وجہ سے جہاں اس کی باتیں اور اس کی زبان سنے گا اسے قرآن کے الفاظ بھی سننے کا موقعہ ہے ا سلئے میرا مشورہ حاملہ عورت کے لئے یہ ہے کہ وہ اس دوران میں قرآن کی تلاوت آواز کے ساتھ کرے
دوسری بات یہ کہ ہمیں کہا گیا ہے کہ پیدائش کے بعد بچّے کے کان میں اذان دی جائے اب اس بات کی حقیقت پتہ لگ رہی ہے کیوں یہ کہا گیا۔ بچّہ سن رہا ہے اس کا دماغ اس آواز کو رکارڈ کر رہا ہے آپ اس کمپیوٹر میں ڈیٹا داخل کر رہے ہیں
اب پھر میں آپ کی توجّہ بطن مادر کی طرف مبذول کر ا رہا ہوں مان کو کیا کھانا پینا ہے کیا پڑھنا ہے کیا دیکھنا ہے کیا سوچنا ہے کیسی پابندی سے نماز اور قرآن کو اپنانا ہے یہ سب کیوں ضروری باتیں ہیں آپ ان مثالوں سے بخوبی سمجھ گئے ہوں گے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/
عربی کا لفظ -مضغہ- بہت پرمعانی ہے چودہ سو برس سے سمجھتے آئے ہیں کہ 'ایسی بوٹی جس پر داںتوں کے نشان ہوں چنانچہ
جب ایک ماہر علم جنین یعنی
Embryologist
کو سمجھایا گیا تو حیرت سے انگشت
بدندان رہ گیا پھر اسے ' لوتھڑا' ایک جونک نما شکل بتائی گئ تھی ان سب کا مطالعہ کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس 'کتاب' میں چودہ سو سال پہلے ایسی باتیں بتائ گئیں تھین ظاہر ہے کہ محمّد-صلّ اللہ علیہ و سلّم- ایسی معلومات کہیں سے لینے کے قابل نہ تھےچنانچہ اس کے ساتھ سارے امبریالوجسٹ جو تھے وہ اس نتیجے پر پہںچے بغیر نہ رہ سکے کہ یہ الفاظ صرف خالق حقیقی ہی بتا سکتا ہے
پھر ایک اور حقیقت کی طرف دھیان دیجئے
قرآن کریم بتا رہا ہے -- اور یہ سورہ نحل والی آیت سے ہے--
تمھین کان دیئے ۔ ۔ ۔ اور آنکھیں دیں ۔ ۔ ۔ اور سوچنے کے لیئے دل دیئے
اس ترتیب میں ایک 'راز' پوشیدہ ہے ہمیں سائنس بتا رہی ہے کہ جب بچّہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی قوّت سامعہ پہلے ہی کام کر رہی ہوتی ہے آنکھیں تقریبا" ایک ماہ کی عمر تک صحیح کام شروع کرتی ہیں اور دل یعنی سمجھ بوجھ سب سے بعد میں کام شروع کرتی ہے
قوت سامعہ کے متعلق دو باتیں غور طلب ہیں ایک تو یہ کہ جیسے ہی یہ اعضا جنین میں بنتے ہیں اور دماغ کے خلئے کام شروع کرتے ہیں تو بچّہ ماں کی آواز سننے لگتا ہے اس وجہ سے جہاں اس کی باتیں اور اس کی زبان سنے گا اسے قرآن کے الفاظ بھی سننے کا موقعہ ہے ا سلئے میرا مشورہ حاملہ عورت کے لئے یہ ہے کہ وہ اس دوران میں قرآن کی تلاوت آواز کے ساتھ کرے
دوسری بات یہ کہ ہمیں کہا گیا ہے کہ پیدائش کے بعد بچّے کے کان میں اذان دی جائے اب اس بات کی حقیقت پتہ لگ رہی ہے کیوں یہ کہا گیا۔ بچّہ سن رہا ہے اس کا دماغ اس آواز کو رکارڈ کر رہا ہے آپ اس کمپیوٹر میں ڈیٹا داخل کر رہے ہیں
اب پھر میں آپ کی توجّہ بطن مادر کی طرف مبذول کر ا رہا ہوں مان کو کیا کھانا پینا ہے کیا پڑھنا ہے کیا دیکھنا ہے کیا سوچنا ہے کیسی پابندی سے نماز اور قرآن کو اپنانا ہے یہ سب کیوں ضروری باتیں ہیں آپ ان مثالوں سے بخوبی سمجھ گئے ہوں گے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/