Wednesday, June 25, 2014

ہماری منھ بولی بہنیں

نام لئے بغیر ہم نے اپنی منھ بولی بہنوں کا تعارف تو کرا دیا ہے بڑی جو وہاں سینئر لیکچرار تھین انھیں ہم آپا کہتے تھے ان سے چھوٹی امریکہ سے واپس آئیں تو 'امّی' کو تار بھیجی کہ  -میرے لئے دال پکا کے رکھیں''  اس کے بعد یوں ہوا کہ آپا کی بات لاء کالج کے وائس پرنسیپل سے چل نکلی امّی گھر میں تو تھین مگر لڑکیوں کے والد ایک اعلےا افسر مشرقی پاکستان میں مقیم تھے ان کے آنے کا امکان نہیں تھا غالبا" دوسری بیگم وہاں تھیں خیر اب ہم نے امّی سے بات کی کہ آخر ہم لوگ ان کے بھائ ہیں تو کیا حرج ہے ہم آپ کی طرف سے پرنسیپل صاحب سے مل آئیں اور آپ بات پکّی کر لیں آپا بھی مان گئیں چنانچہ ہم چاروں نے حق ہمسائگی اور حق برادرانہ احسن طریقے سے نبھایا شادی کی تاریخ مقرر ہوئ تو ساراا نتظام بھی ہم لوگوں نے ہی کیا--دراصل ہمارے سٹوڈنٹ ہمیں بہت چاہتے تھے خصوصا' جن کا لگائو موسیقی سے تھا وہ سب بہت تندہی سے سارے انتظامات کے لئے کام کرتے رہے۔ آپا کو انتظار تھا کہ شائد ان کے والد تشریف لائیں مگر وہ نہ آئے اور آپا بہت روتی رہیں ہم لوگ بھی دل ہی دل میں ان کے والد کو کوستے رہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

ایس ٹونٹی کے پڑوسی

 ہمارے دائیں جانب کے بنگلے میں ایک صاھب اکیلے تھے اور یونیورسٹی میں سینئر لیکچرار تھے جو کہ 'ایس' ٹائپ بنگلوں سے ظاہر ہے وہ اچھے ہٹّے کٹّے مضبوط جسم کے مالک تھے اور جب چلتے تھے تو کچھ ایسا لگتا تھا پہلوانی کر کے آ رہے ہیں آپ کی گردن بھی اچھے سائز کی تھی تو ہم انھیں 'گوریلا" کہتے تھے اگرچہ بات چیت میں وہ شائستہ اور نفیس عادتوں کے مالک تھے
 اسی طرح دوسری طرف کے بنگلے میں کچھ 'عورتیں' رہتی تھین ان میں ایک ابھی اتنی چھوٹی تھی کہ اسے ہم یارڈ میں تتلیوں کے پیچھے بھاگتے دیکھا کرتے تھے اس سے بڑی انگریزی کے ایم اے کی طالبہ تھین اور اس سے بڑی امریکہ گئ ہوئ تھیں ان سے بڑی  امریکہ سے واپس آ چکی تھین اور وہان ایک کالج میں سینئر لیکچرار تھین اور ان کی امّاں جان جو کہ دل کی مریضہ تھین۔
 ان کو ہم اپنی موںھ بولی بہنیں کہتے تھے اس سے اگلے بنگلے میں ایک لیکچرار تھے اب یہ نہیں معلوم کہاں مگر وہ عمر میں زیادہ تھے اور کوٹ ٹائ وغیرہ کے ساتھ شلوار اور پگڑی ہوتی تھی بڑے مزے کی باتیں کیا کرتے تھے اور پرانے   لاہور کے قصے سناتے تھے جب وہاں نئ نئ بجلی آئ تھی ان کے ہاں جاکر چائ وغیرہ پینے کا مزا یوں رہتا تھا کہ وہ فرماتے تھے
"آپ لوگ ائیں تو اس کے ساتھ کھانے کی چیزیں ہمیں بھی مل جاتی ہیں ورنہ تو گھر میں مارشل لاء لگا ہوتا ہے'
 ہماری منھ بولی بہنیں بھی ہمیں کھانے پہ بلایا کرتی تھیں 
ان کے پیچھے آر ٹائپ بنگلے تھے جہاں انگلش کے 'ریڈر' یعنی اسسٹنٹ پروفیسر تھے وہ بھی اسی طرح ملا کرتے ان کی بیگم نہائت سلیقے والی تھین پھر ان کے  پیچھے 'پی ٹائپ' بنگلون کی قطار تھی
یعنی پروفیسروں کے بنگلے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Tuesday, June 3, 2014

ایس ٹوینٹی

                                ایس ٹونٹی  
 اس مختصر بنگلے کا تعارف پچھلی تحریر میں کر چکا ہوں اور اس کے مکینوں سے بھی آپ کو باخبر کیا ہے
 اب باقی کا حال سنئے ستمبر کے اواخر میں یہ غریب ہی پہلا مکین ہوا اور جب تک باقی حضرات آتے تقریبا" تمام انتظامات یعنی رہنے سہنے کے مکمّل ہو گئے بنگلے میں کئ چیزوں کی کمی تھی جس کی 'شکایت' کرنے کے بجائے ہم نے کالج کے بڑے 'افسروں' مع پرنسپل کو ایک دعوے بھیجی اور کھانے و موسیقی کا بندوبست کیا موسیقی کی کئ وجوہات تھین اوّل" یہ کہ ہم اس کے بہت شوقین تھے اور مجھےکچھ معمولی سی گانےبجانے کی مہارت سی بھی حاصل تھی عین اس وقت میرے جاننے والوں میں ایک نہایت اچھے گلوکار اور ان کے ہمراہ طبلے اورہارمونیم والے بھی موجود تھے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے چند سٹوڈنٹ بھِی ہمارے ساتھ آ ملے کہ ان میں ایک موسیقی کا شائق اعلےا درجہ کا بانسری نواز بھی تھا تو ہم نے ان سب کا فائدہ یوں اٹھایا کہ میرے جنم دن یا سالگرہ کا بہانہ لیکر پروگرام بنالیا اور اس ملی جلی محفل میں بڑے افسروں کے سامنے بنگلے کی خستہ حالت بھی ظاہر کر دی گئ اور ان کا تعاون ٹھیک کرنے کے لئے حاصل ہوگیا
بس اس کے بعد پشاور میں کوئ ایسی موسیقی محفل نہیں ہوتی تھی جس میں ہمین دعوت نہ بھیجی گئ ہو پاکستان ائر فورس کی ڈرامیٹک کلب سے جہاں وہ میرے جاننے وال موجود تھے ہمارے مضبوط تعلقات قائم ہو گئے
 اس کے بعد میں مزید ایس ٹونٹی کے پڑوسیوں کے متعلق تحریر کروںگا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Monday, June 2, 2014

پیشاور کی یادیں

میں نے ساگر شہر میں اپنی زندگی کے پہلے دس سال گزارے پھرچار سال گائوں یعنی کوٹلہ ککرالی میں اس کے بعد دس سال لاہور میں۔ پاکستان چھوڑنے سے پہلے تین سال پیشاور میں گزارے
 پاکستان کی یادیں اب پرانی ہوچلی ہیں ہندوستان یعنی ساگر کی یادوں کو کچھ لکھ چکا ہوں اور کچھ کوٹلہ ککرالی کی کچھ لاہور کی جو یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وقت گزرا ان کی داستان تھی
 آج سوچا کہ پشاور کی یادوں کو تازہ کروں بھت دلگداز اور دلفریب واقعات ہیں اورمیرے دل کو تازگی بخشنے کا ایک مستقل ذریعہ ہیں اوّل تو یہ کہ میڈیکل کالج سے نکل کر یہ پہلی نوکری تھی مگر یہ بھی میڈیکل کالج تھا اور استادوں اور طلباء کے گروپوں سے واسطہ رہا اس لئے محسوس ہی نہ ہوا کہ ہم کالج چھوڑ چکے ہیں سٹوڈنٹ طبقہ میں ہماری ایک عزّت تھی اور جب ہمیں 'سر' کہ کر پکارا جاتا تھا تو دل کو ایک گونہ تسکین سی ملتی تھی سب سے پہلے میں 'ایس ٹونٹی' کے متعلّق لکھنا چاہتا ہوں
یہ ایک یونیورسٹی کی نوکری تھی یعنی ہم پشاور یونیورسٹی کے 'نوکر' تھے میڈیکل کالج --خیبر میڈیکل کالج- نیا بنا تھا مجھےفزیالوجی ڈپارٹمنٹ میں بطور ڈیمانسٹریٹر لیا گیا تھا اور گریڈ 'سینئر لیکچرار کا تھا رہائش کے لئے یونیورٹی میں نئ آبادی بنی تھی جس میں 'بنگلے' تھے 'جےٹائپ' جونئر لیکچرر کے  'ایس ٹائپ' سینئر لیکچرر' کے 'آر ٹائپ' ریڈر یعنی اسسٹنٹ پروفیسر کے اور 'پی ٹاءپ' پروفیسروں کے لئے بنائے گئے تھے مجھے مع تین اور ساتھیوں کے 'ایس ٹونٹی' یعنی بیس نمبر بنگلہ الاٹ ہئوا تھا یہ اسی کی داستاں ہے میرے ساتھی دو اناٹومی کے ایک فزیالوجی اور پھر ایک کی شادی ہونے پر ان کی جگہ ایک پتھالوجی کے ڈیمانسٹریٹر تھے جو ہمارے بنگلے مین آگئے چار کمرے تھے یعنی بیڈروم ایک بیٹھک ایک غسلخانہ ایک باورچی خانہ اور ایک 'سروینٹ کوارٹر' بھی تھا ایک باورچی اور ایک کام کرنے والا نوکر تھا میرے ساتھی سب ایک ہی قسم کی طبیعت رکھتے تھےایک دو سالوں کے فرق مین ڈاکٹر بنے تھے ابھی 'کالج کا الّھڑ پنا' سب میں موجود تھا رات گئے تک گپ شپ رہتی تھی زور زور سے قہقہے لگانا عام تھا آس پاس کے بنگلوں والے شکایت نہیں کرتے تھے کیوںکہ ہم نے سب سے دوستی قائم کر لی تھی میرے بنگالی ہم پیشہ کے جانے کے بعد جب مجھے یہ بنگلہ الاٹ ہئوا تو اس میں سب ہی میری طرح غیر شادی شدہ ڈاکٹررہ رہے تھے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/