میں نے ساگر شہر میں اپنی زندگی کے پہلے دس سال گزارے پھرچار سال گائوں یعنی کوٹلہ ککرالی میں اس کے بعد دس سال لاہور میں۔ پاکستان چھوڑنے سے پہلے تین سال پیشاور میں گزارے
پاکستان کی یادیں اب پرانی ہوچلی ہیں ہندوستان یعنی ساگر کی یادوں کو کچھ لکھ چکا ہوں اور کچھ کوٹلہ ککرالی کی کچھ لاہور کی جو یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وقت گزرا ان کی داستان تھی
آج سوچا کہ پشاور کی یادوں کو تازہ کروں بھت دلگداز اور دلفریب واقعات ہیں اورمیرے دل کو تازگی بخشنے کا ایک مستقل ذریعہ ہیں اوّل تو یہ کہ میڈیکل کالج سے نکل کر یہ پہلی نوکری تھی مگر یہ بھی میڈیکل کالج تھا اور استادوں اور طلباء کے گروپوں سے واسطہ رہا اس لئے محسوس ہی نہ ہوا کہ ہم کالج چھوڑ چکے ہیں سٹوڈنٹ طبقہ میں ہماری ایک عزّت تھی اور جب ہمیں 'سر' کہ کر پکارا جاتا تھا تو دل کو ایک گونہ تسکین سی ملتی تھی سب سے پہلے میں 'ایس ٹونٹی' کے متعلّق لکھنا چاہتا ہوں
یہ ایک یونیورسٹی کی نوکری تھی یعنی ہم پشاور یونیورسٹی کے 'نوکر' تھے میڈیکل کالج --خیبر میڈیکل کالج- نیا بنا تھا مجھےفزیالوجی ڈپارٹمنٹ میں بطور ڈیمانسٹریٹر لیا گیا تھا اور گریڈ 'سینئر لیکچرار کا تھا رہائش کے لئے یونیورٹی میں نئ آبادی بنی تھی جس میں 'بنگلے' تھے 'جےٹائپ' جونئر لیکچرر کے 'ایس ٹائپ' سینئر لیکچرر' کے 'آر ٹائپ' ریڈر یعنی اسسٹنٹ پروفیسر کے اور 'پی ٹاءپ' پروفیسروں کے لئے بنائے گئے تھے مجھے مع تین اور ساتھیوں کے 'ایس ٹونٹی' یعنی بیس نمبر بنگلہ الاٹ ہئوا تھا یہ اسی کی داستاں ہے میرے ساتھی دو اناٹومی کے ایک فزیالوجی اور پھر ایک کی شادی ہونے پر ان کی جگہ ایک پتھالوجی کے ڈیمانسٹریٹر تھے جو ہمارے بنگلے مین آگئے چار کمرے تھے یعنی بیڈروم ایک بیٹھک ایک غسلخانہ ایک باورچی خانہ اور ایک 'سروینٹ کوارٹر' بھی تھا ایک باورچی اور ایک کام کرنے والا نوکر تھا میرے ساتھی سب ایک ہی قسم کی طبیعت رکھتے تھےایک دو سالوں کے فرق مین ڈاکٹر بنے تھے ابھی 'کالج کا الّھڑ پنا' سب میں موجود تھا رات گئے تک گپ شپ رہتی تھی زور زور سے قہقہے لگانا عام تھا آس پاس کے بنگلوں والے شکایت نہیں کرتے تھے کیوںکہ ہم نے سب سے دوستی قائم کر لی تھی میرے بنگالی ہم پیشہ کے جانے کے بعد جب مجھے یہ بنگلہ الاٹ ہئوا تو اس میں سب ہی میری طرح غیر شادی شدہ ڈاکٹررہ رہے تھے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
پاکستان کی یادیں اب پرانی ہوچلی ہیں ہندوستان یعنی ساگر کی یادوں کو کچھ لکھ چکا ہوں اور کچھ کوٹلہ ککرالی کی کچھ لاہور کی جو یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وقت گزرا ان کی داستان تھی
آج سوچا کہ پشاور کی یادوں کو تازہ کروں بھت دلگداز اور دلفریب واقعات ہیں اورمیرے دل کو تازگی بخشنے کا ایک مستقل ذریعہ ہیں اوّل تو یہ کہ میڈیکل کالج سے نکل کر یہ پہلی نوکری تھی مگر یہ بھی میڈیکل کالج تھا اور استادوں اور طلباء کے گروپوں سے واسطہ رہا اس لئے محسوس ہی نہ ہوا کہ ہم کالج چھوڑ چکے ہیں سٹوڈنٹ طبقہ میں ہماری ایک عزّت تھی اور جب ہمیں 'سر' کہ کر پکارا جاتا تھا تو دل کو ایک گونہ تسکین سی ملتی تھی سب سے پہلے میں 'ایس ٹونٹی' کے متعلّق لکھنا چاہتا ہوں
یہ ایک یونیورسٹی کی نوکری تھی یعنی ہم پشاور یونیورسٹی کے 'نوکر' تھے میڈیکل کالج --خیبر میڈیکل کالج- نیا بنا تھا مجھےفزیالوجی ڈپارٹمنٹ میں بطور ڈیمانسٹریٹر لیا گیا تھا اور گریڈ 'سینئر لیکچرار کا تھا رہائش کے لئے یونیورٹی میں نئ آبادی بنی تھی جس میں 'بنگلے' تھے 'جےٹائپ' جونئر لیکچرر کے 'ایس ٹائپ' سینئر لیکچرر' کے 'آر ٹائپ' ریڈر یعنی اسسٹنٹ پروفیسر کے اور 'پی ٹاءپ' پروفیسروں کے لئے بنائے گئے تھے مجھے مع تین اور ساتھیوں کے 'ایس ٹونٹی' یعنی بیس نمبر بنگلہ الاٹ ہئوا تھا یہ اسی کی داستاں ہے میرے ساتھی دو اناٹومی کے ایک فزیالوجی اور پھر ایک کی شادی ہونے پر ان کی جگہ ایک پتھالوجی کے ڈیمانسٹریٹر تھے جو ہمارے بنگلے مین آگئے چار کمرے تھے یعنی بیڈروم ایک بیٹھک ایک غسلخانہ ایک باورچی خانہ اور ایک 'سروینٹ کوارٹر' بھی تھا ایک باورچی اور ایک کام کرنے والا نوکر تھا میرے ساتھی سب ایک ہی قسم کی طبیعت رکھتے تھےایک دو سالوں کے فرق مین ڈاکٹر بنے تھے ابھی 'کالج کا الّھڑ پنا' سب میں موجود تھا رات گئے تک گپ شپ رہتی تھی زور زور سے قہقہے لگانا عام تھا آس پاس کے بنگلوں والے شکایت نہیں کرتے تھے کیوںکہ ہم نے سب سے دوستی قائم کر لی تھی میرے بنگالی ہم پیشہ کے جانے کے بعد جب مجھے یہ بنگلہ الاٹ ہئوا تو اس میں سب ہی میری طرح غیر شادی شدہ ڈاکٹررہ رہے تھے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
No comments:
Post a Comment