دنیا کی تاریخ میں اگر آپ غور کریں تو ہمیشہ آپ کو ایسے بڑے لوگوں کے نام ملیں گے جنھوں نے جنگوں میں نمایاں شہرت حاصل کی اس بحث کے قطع نظر کہ آدمیوں کو مارنے میں مہارت حاصل کر کے ہر جرنیل اور سپہ سالار کی خواہش اور ترکیب یہی ہوتی ہے کہ کس طریقے سے دشمن کو زیداہ سے زیادہ نقصان کم سے کم وقت میں پنہچایا جائے اسی میں ان کی ناموری پوشیدہ ہے
مثالیں تو بہت سی ہیں صرف ایک دو لکھ رہا ہوں جنرل آیزنآور دوسری جنگ عظیم کے فاتحان عظیم میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے اپنے ملک مین یعنی امریکہ میں ان کو نہایت عزت اور ہردلعزیزی کا مقام حاصل ہے دیکھا جائے تو ان کا امریکہ کے رئیس الاعظم منتخب ہونے میں اسی 'جرنیلی' قوت کا دخل ہے لیکن جب آپ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی اور انسانیت سوز سفّاکی پہ نظر ڈالیں تو آپ کے دل دہل جاتے ہیں تاریخ یہ بھول جاتی ہے کون اشخاص اس ہولناک تباہی کے ذمہ دار ہیں اسی طرح جنرل پیٹن کا قصہ ہے جو بد تمیزی بدکلامی میں لاثانی ہیں انہیں یاد کیا جاتا ہے میں نے سنا تھا کہ جب ان کے نام پر فلم
بنائی گئ اور اس میں جارج
سی سکاٹ کو ایکٹنگ پر سراہا گیا جو اس نے جنرل پیٹن کے رول میں ادا کی تھی تو اس نے آسکر لینے سے انکار کر دیا
میں اس فلسفے کو نظر انداز کر رہا ہوں جس میں آدمی لڑنے پہ مجبور ہو جاتا ہے لیکن آپ نے دیکھا تھا کہ جب عراقی
افواج شکست سے دو چار ہوِ تھیں تو بھاگتی ہوِ فوج کے تعاقب میں باوجود اس کے کہ شکست تسلیم کی جا چکی تھی
گنرل شوارزکاف نے جان ببوجھ کر اپنے ٹینکوں سے نہتے فوجیوں پر گولے چھوڑے اور ہمیں ٹی وی پر شان سے اکڑ کر بتایا کہ یہ نہایت خونی حملے ہوں گے یہ ایسے جرنیلوں کا طرّہئ امتیاز شمار ہوتا ہے
ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی گِ ہے جس میں عراقی لوگوں کی تباہی جنگ کے علاوہ جو انسانی ظلم دوسری طریقوں سے کئے گئے ہیں جنھین پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ جیسے پرانے زامنے میں بادشاہ اور دوسرے حاکم جانی اور مالی طور پر اپنی رعایا اور مفتوحہ علاقوں کے لوگوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا کرتے تھے اب بھی وہی طریقے انسانی تہذیب میں شامل ہیں اگرچہ موجودہ انسانی تہذیب کو اعلےا اخلاقی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی تک وہی اقدار لئے ہوئے ہےجو قابیل نے ہابیل کے قتل سے شروع کی تھیں
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
مثالیں تو بہت سی ہیں صرف ایک دو لکھ رہا ہوں جنرل آیزنآور دوسری جنگ عظیم کے فاتحان عظیم میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے اپنے ملک مین یعنی امریکہ میں ان کو نہایت عزت اور ہردلعزیزی کا مقام حاصل ہے دیکھا جائے تو ان کا امریکہ کے رئیس الاعظم منتخب ہونے میں اسی 'جرنیلی' قوت کا دخل ہے لیکن جب آپ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی اور انسانیت سوز سفّاکی پہ نظر ڈالیں تو آپ کے دل دہل جاتے ہیں تاریخ یہ بھول جاتی ہے کون اشخاص اس ہولناک تباہی کے ذمہ دار ہیں اسی طرح جنرل پیٹن کا قصہ ہے جو بد تمیزی بدکلامی میں لاثانی ہیں انہیں یاد کیا جاتا ہے میں نے سنا تھا کہ جب ان کے نام پر فلم
بنائی گئ اور اس میں جارج
سی سکاٹ کو ایکٹنگ پر سراہا گیا جو اس نے جنرل پیٹن کے رول میں ادا کی تھی تو اس نے آسکر لینے سے انکار کر دیا
میں اس فلسفے کو نظر انداز کر رہا ہوں جس میں آدمی لڑنے پہ مجبور ہو جاتا ہے لیکن آپ نے دیکھا تھا کہ جب عراقی
افواج شکست سے دو چار ہوِ تھیں تو بھاگتی ہوِ فوج کے تعاقب میں باوجود اس کے کہ شکست تسلیم کی جا چکی تھی
گنرل شوارزکاف نے جان ببوجھ کر اپنے ٹینکوں سے نہتے فوجیوں پر گولے چھوڑے اور ہمیں ٹی وی پر شان سے اکڑ کر بتایا کہ یہ نہایت خونی حملے ہوں گے یہ ایسے جرنیلوں کا طرّہئ امتیاز شمار ہوتا ہے
ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی گِ ہے جس میں عراقی لوگوں کی تباہی جنگ کے علاوہ جو انسانی ظلم دوسری طریقوں سے کئے گئے ہیں جنھین پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ جیسے پرانے زامنے میں بادشاہ اور دوسرے حاکم جانی اور مالی طور پر اپنی رعایا اور مفتوحہ علاقوں کے لوگوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا کرتے تھے اب بھی وہی طریقے انسانی تہذیب میں شامل ہیں اگرچہ موجودہ انسانی تہذیب کو اعلےا اخلاقی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی تک وہی اقدار لئے ہوئے ہےجو قابیل نے ہابیل کے قتل سے شروع کی تھیں
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
No comments:
Post a Comment