اس سے پہلے ۲۰۰۹ میں کچھ تاثیر مرحوم یعنی ہمارے اسلامیہ کالج کے پرانے پرنسیپل کے متعلق لکھا تھا
۱۹۴۸ میں اپنے گائوں سے میٹرک پاس کرنے کے بعد میں لاہور آیا تو کالج مں داخلہ لینا مشکل نظر آیا فرسٹ ڈویژن سے کچھ کم نمبر تھے دیکھنے مین میرا قد کوئ پانچ فٹ سے بھی کم تھا داڑھی کے ابھی نکلنے امکان نظر نہیں آ رہا تھا عینک لگ چکی تھی ابھی شلوار سے کام چل رہا تھا یعنی پتلون ابھی پہننی شروع نہیں کی تھی گورنمنٹ کالج کے داخلے سے انکار ہو چکا تھا وہاں میرا انٹرویو پطرس صاحب نے لیا تھا اب بھائجان مجھے لیکر اسلامیہ کالج- یعنی ریلوے روڈ - لے گئے اور انٹرویو ایم ڈی تاثیر لے رہے تھے وہ پرنسپل تھے مجھے ہنس کر کہنے لگے
" یہ تو کرسی کے پیچھے سے مجھے نظر بھی نہیں آرہا"
اس میں تحقیر نہیں بلکہ ظرافت کے پہلو میں تحسین کی جھلک تھی جس سے میں خوش ہو گیا اور داخلہ بھی مل گیا
مزید ڈاکٹر صاحب موصوف سے دو سال میں کئ اور مواقع بھی رہے جس میں آپ کی خوش طبعی کا اثر ہمیشہ ہوا کرتا تھا ان کے متعلق مندرجہ ذیل اقتباس میں دے رہا ہوں خود تو ایسی دلآویز تحریر نہیں لکھ سکتا یہ مولانا عبد المجید سالک مرحوم کی لکھی ہوئ ہے انھوں نے ڈاکٹر تاثیر کی شخصیت کی صحیح عکاسی ہے
"
تاثیر بےحد روشن طبع اور عالی دماغ آدمی تھے۔ ان کی ذہانت و طبّاعی بے مثال تھی - شاعروں میں شاعر ، فلسفیوں میں فلسفی ، ادیبوں میں ادیب ، نقّادوں میں نقاد ، معلّموں میں معلم ، اور صرف یہی نہیں بلکہ رندوں میں رند لم یزل ، مجلس یاراں میں بریشم کی طرح نرم اور لڑائ میں فولاد کی طرح سخت ، معاصرانہ نوک جھونک اور کشمکش و چپقلش کے عاشق ان کی ظرافت محفل آرا تھی اور طنز بے پناہ - شعر و سخن میں پرانے انداز و تخیّل کی خوبیوں کے بھی دلدادہ اور نئے اسالیب فکر اور جدید طریقہ ہائے اظہار کے بھی قدردان ، ادب اور آرٹ کی تنقید میں انھوں نے اردو شاعری کے انشا پردازوں کو نئے راستے دکھائے اور ان کے روابط صرف شاعروں اور ادیبوں تک ہی محدود نہ تھے بلکہ ماہرین تعلیم ، ارباب سیاست ارکان صحافت سبھی سے گہری چھنتی تھی اور سبھی ان کی گوناگوں قابلیتوں اور صلاحیتوں کے شیفتہ تھے'
آپ کا ایک شعر جو بہت مشہور ہے لکھ رہا ہوں -اللہ آپ کا بھلا کرے
' ' داور حشر میرا نامہء اعمال نہ پوچھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
۱۹۴۸ میں اپنے گائوں سے میٹرک پاس کرنے کے بعد میں لاہور آیا تو کالج مں داخلہ لینا مشکل نظر آیا فرسٹ ڈویژن سے کچھ کم نمبر تھے دیکھنے مین میرا قد کوئ پانچ فٹ سے بھی کم تھا داڑھی کے ابھی نکلنے امکان نظر نہیں آ رہا تھا عینک لگ چکی تھی ابھی شلوار سے کام چل رہا تھا یعنی پتلون ابھی پہننی شروع نہیں کی تھی گورنمنٹ کالج کے داخلے سے انکار ہو چکا تھا وہاں میرا انٹرویو پطرس صاحب نے لیا تھا اب بھائجان مجھے لیکر اسلامیہ کالج- یعنی ریلوے روڈ - لے گئے اور انٹرویو ایم ڈی تاثیر لے رہے تھے وہ پرنسپل تھے مجھے ہنس کر کہنے لگے
" یہ تو کرسی کے پیچھے سے مجھے نظر بھی نہیں آرہا"
اس میں تحقیر نہیں بلکہ ظرافت کے پہلو میں تحسین کی جھلک تھی جس سے میں خوش ہو گیا اور داخلہ بھی مل گیا
مزید ڈاکٹر صاحب موصوف سے دو سال میں کئ اور مواقع بھی رہے جس میں آپ کی خوش طبعی کا اثر ہمیشہ ہوا کرتا تھا ان کے متعلق مندرجہ ذیل اقتباس میں دے رہا ہوں خود تو ایسی دلآویز تحریر نہیں لکھ سکتا یہ مولانا عبد المجید سالک مرحوم کی لکھی ہوئ ہے انھوں نے ڈاکٹر تاثیر کی شخصیت کی صحیح عکاسی ہے
"
تاثیر بےحد روشن طبع اور عالی دماغ آدمی تھے۔ ان کی ذہانت و طبّاعی بے مثال تھی - شاعروں میں شاعر ، فلسفیوں میں فلسفی ، ادیبوں میں ادیب ، نقّادوں میں نقاد ، معلّموں میں معلم ، اور صرف یہی نہیں بلکہ رندوں میں رند لم یزل ، مجلس یاراں میں بریشم کی طرح نرم اور لڑائ میں فولاد کی طرح سخت ، معاصرانہ نوک جھونک اور کشمکش و چپقلش کے عاشق ان کی ظرافت محفل آرا تھی اور طنز بے پناہ - شعر و سخن میں پرانے انداز و تخیّل کی خوبیوں کے بھی دلدادہ اور نئے اسالیب فکر اور جدید طریقہ ہائے اظہار کے بھی قدردان ، ادب اور آرٹ کی تنقید میں انھوں نے اردو شاعری کے انشا پردازوں کو نئے راستے دکھائے اور ان کے روابط صرف شاعروں اور ادیبوں تک ہی محدود نہ تھے بلکہ ماہرین تعلیم ، ارباب سیاست ارکان صحافت سبھی سے گہری چھنتی تھی اور سبھی ان کی گوناگوں قابلیتوں اور صلاحیتوں کے شیفتہ تھے'
آپ کا ایک شعر جو بہت مشہور ہے لکھ رہا ہوں -اللہ آپ کا بھلا کرے
' ' داور حشر میرا نامہء اعمال نہ پوچھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/