Wednesday, July 23, 2014

میں اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر

اس سے پہلے ۲۰۰۹ میں کچھ تاثیر مرحوم  یعنی ہمارے اسلامیہ کالج کے پرانے پرنسیپل کے متعلق لکھا تھا
 ۱۹۴۸ میں اپنے گائوں سے میٹرک پاس کرنے کے بعد میں لاہور آیا تو کالج مں داخلہ لینا مشکل نظر آیا فرسٹ ڈویژن سے کچھ کم نمبر تھے دیکھنے مین میرا قد کوئ پانچ فٹ سے بھی کم تھا داڑھی کے ابھی نکلنے امکان نظر نہیں آ رہا تھا عینک لگ چکی تھی ابھی شلوار سے کام چل رہا تھا یعنی پتلون ابھی پہننی شروع نہیں کی تھی  گورنمنٹ کالج کے داخلے سے انکار ہو چکا تھا  وہاں میرا انٹرویو پطرس صاحب نے لیا تھا اب بھائجان مجھے لیکر اسلامیہ کالج- یعنی ریلوے روڈ - لے گئے اور انٹرویو ایم ڈی تاثیر لے رہے تھے وہ پرنسپل تھے  مجھے ہنس کر کہنے لگے 
" یہ تو کرسی کے پیچھے سے مجھے نظر بھی نہیں آرہا"
 اس میں تحقیر نہیں بلکہ ظرافت کے پہلو میں تحسین کی جھلک تھی جس سے میں خوش ہو گیا اور داخلہ بھی مل گیا
 مزید ڈاکٹر صاحب موصوف سے دو سال میں کئ اور مواقع بھی رہے جس میں آپ کی خوش طبعی  کا اثر ہمیشہ ہوا کرتا تھا ان کے متعلق مندرجہ ذیل اقتباس میں دے رہا ہوں  خود تو ایسی دلآویز تحریر نہیں لکھ سکتا یہ مولانا عبد المجید سالک مرحوم کی لکھی ہوئ ہے انھوں نے ڈاکٹر تاثیر کی شخصیت کی صحیح عکاسی ہے
  " 
تاثیر بےحد روشن طبع اور عالی دماغ آدمی تھے۔ ان کی ذہانت و طبّاعی بے مثال تھی - شاعروں میں شاعر ، فلسفیوں میں فلسفی ، ادیبوں میں ادیب ، نقّادوں میں نقاد ،  معلّموں میں معلم ، اور صرف یہی نہیں بلکہ رندوں میں رند لم یزل ، مجلس یاراں میں بریشم کی طرح نرم اور لڑائ میں فولاد کی طرح سخت ، معاصرانہ نوک جھونک اور کشمکش و چپقلش کے عاشق ان کی ظرافت محفل آرا تھی اور طنز بے پناہ - شعر و سخن میں پرانے انداز و تخیّل کی خوبیوں کے بھی دلدادہ اور نئے اسالیب فکر اور جدید طریقہ ہائے اظہار کے بھی قدردان ، ادب اور آرٹ کی تنقید میں انھوں نے اردو شاعری کے انشا پردازوں کو نئے راستے دکھائے اور ان کے روابط صرف شاعروں اور ادیبوں تک ہی محدود نہ تھے بلکہ ماہرین تعلیم ، ارباب سیاست ارکان صحافت سبھی سے گہری چھنتی تھی اور سبھی ان کی گوناگوں قابلیتوں اور صلاحیتوں کے شیفتہ تھے'

  آپ کا ایک شعر جو بہت مشہور ہے لکھ رہا ہوں -اللہ آپ کا بھلا کرے
      
          ' '   داور حشر میرا نامہء اعمال نہ پوچھ    
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں 


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Monday, July 21, 2014

کالے خان

سب سے زیادہ جو 'مشہور' نام  ایس ٹونٹی میں رہا ہے وہ ہے
     کالے خان
ویسے وہ ہمارا  نوکر تھا مگر اس کی بےوقوفی کی حد تک باتیں حرکتیں ہمیں خوشدلی کا سامان  مہیا کرتی تھیں -  اسے ہر روز سمجھانا پڑتا تھا کہ ٹوتھ پیسٹ والی ٹیوب اور شیونگ کریم میں کیا فرق ہے اور وہ روزانہ وہی غلطی کر جاتا تھا
شیونگ کریم لانے کا کہو تو ٹوتھ پیسٹ لے آتا اور۔۔۔۔۔
 ایک بار ہم لوگ رات گھر پہیچے تو سیکھا ایک چھوٹا سا تالا لگا ہوا ہے ہم نے ایک اچھا اور بڑا سا تالا خرید کر لگایا تھا وہ غائب تھا۔  اب اندر پہیچ کر 
 کالے خان؟
 آیا جی
 پوچھا گیا کہ وہ بڑا تالا کیا ہوا تو بڑی معصومیت سے یہ جواب ملا
' کوئ لے جاسی نا'
مطلب یہ کہ وہ اچھا تالا کوئ چور لے جائے گا اس لئے اتار کر دوسرا لگا دیا

 ہم لوگ پچھلے صحن میں گپ شپ لگا رہے تھے کالے خان کو پلنگ اٹھا کر سامنے والے برامدے میں لے جانے کو کہا گیا
 اب وہ کھڑا سوچ رہا ہے اور ہم سب انتظار کر رہے ہیں پھر اس سے نہ رہا گیا جب وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا
 " جی کس طرحاں لے کے جاواں'
 اب اسے بتانے کے لئے ہم سب کے سب بول رہے تھے کوِئ کہ رہا تھا یوں کرو کوئ کہتاتھا یوں کرو اور وہ  ہونّق بنا کھڑا سن رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہں آرہا تھا کیا کرے
 پھر جب سب اپنی خوشدلی مکمل کر چکے تو سیدھی بات بتائ گئ
 اس کی سادگی/بیوقوفی کو ہم نے سٹینڈرڈ بنا رکھا تھا جب کسی اور کا ذکر کرنا ہوتا تو  کہتے فلاں دس فیصد یا چالیس فیصد کالے خاں ہے
 اس کے ساتھ ساتھ اسکی کچھ عادتیں عجیب تھین جنہیں محسوس کیا جا سکتا ہے

  ہم لوگ رات کو فلم دیکھ کر کھانے کو دیر سے کھاتے کالے خان ہمیں کھلانے کے بعد خود کھاتا پھر سوتا تھا
 ان چند جھلکیوں سے پتہ چل جاتا ہے کالے خان کیا چیز تھا اور اسے ہم سب کیوں اتنا چاہتے تھے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Monday, July 7, 2014

پشاور کے میڈیکل کالج میں

                                   پیشاور میڈیکل کالج   
  جیسا کہ کسی کالج میں بھی ہوتا ہے سب کچھ ویسا ہی میڈیکل کالج میں بھی ہوتا ہے
 آخر سب نوجوانوں کی وجہ سے ہی ہے 'پروفیسر لوگ' تو  ان کی وجہ سے مزے اٹھاتے ہیں چنانچہ سالانہ پروگرام جیسے کالج کی پکنک یا سالانہ کھیلیں اور ڈرامے وغیرہ سب انھیں کے لئے بنتے ہیں اور وہی اس کے پروگرام تیار کرتے ہیں ہم خود ڈراموں اور میوزک پروگراموں میں بطور سٹاف حصہ لیتے رہے ان کی بڑی اچھی یادیں محفوظ ہیں- یعنی ذہن میں کالج ابھی نیا تھا جب ہم نے وہاں کام شروع کیا تھا ابھی پہلی کلاس نکلنے والی تھی تو ان بچوں کو وہ مشکل درپیش تھی کہ ڈاکٹر تو بن جائیں گے لیکن میڈیکل کونسل نے تسلیم ہی نہ کیا تو کیا کریں گے ان کو   یہ الگ کام شروع کرنا پڑا تاکہ  ریکگنائز ہو جائے
 بہت سے لڑکے اور لڑکیاں جو ہمارے سٹوڈنٹ تھے یاد ہیں کبھی کبھی کسی سے ملاقات ہوتی ہے تو یادیں تازہ ہو جاتی ہیں تمام کا ذکر تو نہیں کیا جا سکتا مگر ایک ڈرامہ کے متعلق ضرور لکھنا چاہتا ہوں
 ایک 'سکٹ' ہم نے سٹاف  کی طرف سے تیا کیا تھا جس میں کچھ مضحکہ خیز کچھ سبق آموز سٹوڈنٹ-سٹاف کی باتیں لکھی گئی تھیں اسے ہم پانچ  لیکچراروں نے بڑی خوبی سے پیش کیا جس کی پرایکٹس ہر شام 'ایس ٹونٹی' میں ہوتی تھی ہم نے اس 'پریکٹس کو بھی اپنے لئے بہت مزیدار پایا ہمارے ایک صاحب داڑھی رکھتے تھے ان کو مریض کا  حصہ دیا گیا تھا اور انھیں کے ڈائیلاگ مضحکہ خیز تھے اور وہ بڑے ماسٹرلی طریقے سے ادا کئے گئے بٰعد میں ہمیں پتہ چلا کہ کچھ لوگ جو ہمیں جانتے نہیں تھے کہ رہے تھے کہ اس مریض کی داڑھی تو بلکل اصلی لگتی تھی
 وہ 'سکٹ' ابھی تک میرے پاس لکھا پڑا ہے اس کے علاوہ میں میوزک ڈاءریکٹر بھی تھا سٹاف کی طرف سے ان بچوں اور بچیوں کو 'میری' سپرویژن' تھی پشاور میں لڑکے اور لڑکیوں کو ابھی ایسی کھلے اجازت نہیں تھی اس لڑکیاں کچھ ہچکھچاہٹ سے آتی تھین کہ بعد میں پروفیسر صاحب کلاس میں 'رکارڈ لگائیں گے
 -----ایک سٹوڈنت یاد آتا ہے جو بہت اچھی باںسری بجاتا تھا جس کمپٹیشن میں بھی وہ گیا پہلا انعام لے کے آیا خصوصا' جب وہ اس کا نام یاد نہیں تھا ایک اور صاحب سے بات ہوئ تو معلوم ہوا اور یاد آیا- اس کا نام اقبال چغتائ تھا  اب نہ معلوم کہاں ہوگا------راگ پہاڑی کی دھن شروع کرتا تھا تو حال پہ سنّاٹا چھا جاتا تھا
پشاور بھی لکھتے ہیں پیشاور بھی لیکن پشتو میں  پخاور لکھتے ہیں یا بولتے ہیں لکھنے میں خ نہیں "خیں' ہوتی ہے اس لئے کہ جنوبی علاقوں میں خین کو شین بلاتے ہیں تو جب میں چمن میں تھا تو اس فرق کا پتہ چلا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/