Thursday, May 12, 2016

سرکاری ٹّٹّی اور قانون


پہلے میں ٹائٹل کی وضاحت کر دوں
  االلہ بخشے میری بھابی نہایت مزاح فہمی طبیعت کی مالک تھین
ان کی ملاقات پڑوس والی کئ عورتوں سے ہوتی تھی جو ممکن ہے زیادہ پڑھی لکھی نہ ہوں اور دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتی ہوں تو مجھے ایک بار انھوں نے بتایا کہ فلاں پڑوسن اس فلش سسٹم کو سرکاری ٹّٹی کہ کر پکارتی ہے اس پر مزید بحث نہیں کرتا بلکہ اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ 'قانون' سے کیا تعلق ہے
 یوں کہ لیجئے کہ سرکار کی طرف  سے جو پبلک ٹٹیاں بنائ جاتی ہیں ان کو تو سرکاری ہی کہنا پڑیگا ہماری سٹیٹ میں آجکل بڑی گرم گرم خبریں ان سرکاری ٹٹیوں کے متعلق آ رہی ہیں  عام حالات میں ہر جگہ دو علیحدہ علیحدہ کمرے بنائے جاتے ہیں ایک مردوں کے لئے اور  ایک عورتوں کے لئے مخصوص کر دیا جاتا    ہے اوریہ ٹھیک بھی ہے    
 اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ مرد نہیں عورت ہیں یا عورت نہیں مرد ہیں ایک بہت بڑی مثال میرے انگریزی کے بلاگ میں دیکھیئے جو  میں نے 'ٹرانسجنڈرزم' پہ لکھا ہے مثال  جناب بروس جینر صاحب کی ہے جنھوں نے ساٹھ سال مرد کی نہایت کامیاب زندگی گزارنے کے بعد  اعلان کیا ہے کہ وہ مرد نہیں عورت ہیں اور انھیں بروس نہیں کیٹلن یا کیٹ کہ جائے ان کی اس بہادری پہ بڑے زوروں سے مضامیں اور تصاویر چھاپی  گئی ہیں
 تو اب یہ ہے کہ ان جیسے آدمیوں کا کہنا ہے کہ انھیں عورتوں والے کمرے میں فراغت یا بول کی اجازت دی جانی چاہئے ہماری سٹیٹ کے گورنر صاحب نے قانونی اعلان فرمایا ہے کہ وہی ایسے کمرے میں داخل ہو سکتا  یا ہو سکتی ہے جو اس کی 'پیدائشی جنس' ہو چنانچہ اب ہر جگہ بڑی لے دے ہو رہی ہے  کہ یہ غیر 
                                            قانونی امتیازی طریقہ برداشت نہیں کیا جائگا
میں بھلا کون ہوتا ہوں ایسے قانون یا اس کے پیروئوں پہ تنقید کروں بھلے سے اگر مشکل پڑ گئ ہے تو ایک تیسرا کمرہ بنوادیں سب کی خوشی کے لئے - ایک مجھ ایسا غریب کیا کر سکتا ہے مگر ذرا سوچنے کی بات ہے اس کمرے میں جہاں میری بیوی یا بہن یا گئ ہو میں یہ کیسے برداشت کروں کہ اسی کمرے میں فراغت 
- کے لئے بروس جیسا پہلوان بھی چلا جائے توبہ توبہ ہمجنس پسندی تک تو خیر تھی مگر اب معاملہ بہت آگے بڑھ گیا ہے - اللہ اللہ کیسا زمانہ آ گیا ہے وہ ہندی کا ڈائلاگ یاد آ رہا ہے
   " ھے بھگون پھٹ جائے یہ دھرتی اور سما جائوں میں اس میں"

Please visit my English blog at Saugoree

No comments:

Post a Comment