علّامہ صاحب مرحوم کی شام کی مجلسوں میں کئ بڑے آدمی اور لٹریری ہئوا کرتے تھے ان میں ایک مولانا عبد المجید سالک بھی تھے اور علامہ کے چاہنے والوں میں تھے کسی نے غلطی سے لکھا تھا کہ ڈاکٹر عبد السلام خورشید ان کے صاحبزادے تھے حالاکہ ان کے والد کا نام محمد حسین تھا گو یہ بات الگ ہے کہ مولانا سالک اور ڈاکٹر سلام دونوں احمدی تھے مگر علامہ صاحب کے ساتھ لگائو میں شیعہ سنّی یا احمدی وغیرہ کا کوئ سوال نہیں ہوتا تھا اگرچہ علامہ نے ایک پیمفلٹ اسلام اور احمدیت کے متعلق بھی لکھا تھا اور مرزا بشیرالدین نے اس متعلق اپنے خطبات میں بھی کچھ کہا تھا
خیر جو کچھ بھی ہو وہ کیا دن تھے علامہ زیادہ تر پنجابی میں گفتگو کرتے تھے اور اردو صرف غیر پنجابی دانوں کی لئے بولتے اور یہی طریقہ انگریزی کے ساتھ بھی چلاتے
Please visit my English blog at
Saugoree
چند اور اسعار
مصطفےا اندر حرا خلوت گزید - مدّتے جز خویشتن کس را ندید
نقش مارا در دل او ریختند - ملّتے از خلوتش انگیختند
می توانی منکر یزداں شدن - منکر از شان نبی نتواں شدن
عشق کا گنج گراں مایہ تجھے مل جاتا - تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانہء دل
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے - کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو - کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
ثروت کی پسند
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز- نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود - ہوتی ہے بنداء مومن کی اذاں سے پیدا
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
وہ سجدہ روح زمیں جس سے کاںپ جاتی تھی - اسی کو آج ترستے ہیں منبرو محراب
سنی نہ مصرو فلسطین میں وہ اذاں میں نے - دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہءمسیماب
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے - شمشیرا سناں اوّل طاءوس رباب آخر
گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طاءرک بلند بال دانہ و دام سے گزر
تیرا جوہر ہے نوری پاک ہے تو - دیدہء افلاک ہے تو Farogh e deedah e aflak hay too
تیرے صید زبوں افرشتہ و حور - کہ شاہین شہ لولاک ہے تو
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا - تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
فرنگ سے بہت آگےہے منزل مومن
قدم اٹھا یہ مقام انتہائے راہ نہیں
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی - ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا - پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرہء افتاد
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشّاف
مزید خودی
تا کجا طواف چراغ محفلے- زآتش خود سوز اگر داری دلے
زخاک خویش طلب آتشے کہ پیدا نیست
تجلّیء دیگرے در خور تقاضا نیست
از سوال آشفتہ اجزائے خودی
بے تجلّی نخل سینائے خودی
مختلف اشعار پہلا غالب کا ہے
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوںچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
عشق تو ایک جست میں پہنچا مقام قرب تک
عقل الجھ کے رہ گئ بزم تصوّرات میں
علم ہے ابن الکتاب
عشق ہے امّ الکتاب
علم اشیا علّم آدم الاشیاء ستے
ہم عصا و ہم ید بیضا ستے
وہ
اشعار جن کے مصرعے زیادہ مشہور ہیں
۱ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر - سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اگ رہا ہے درو دیوار پہ سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئ ہے
تاریخ ہزاروں سالوں میں بس اتنی ہی بدلی محسن
تب دور تھا پہلے پتّھر کا ابلوگ ہی پتھر بن گئے ہیں