Please visit my English blog at Saugoree
ہندستان سے جب انگریزوں نے اپنا بوریا بستر سنبھالا تو جو تقسیم کی لکیریں نقشے پہ لگائ گئ تھیں ان سے ایک بارڈر پیدا ہوگیا اور خلقت اس کے آر پار ہونے لگی جس میں خون خرابے کے علاوہ کئ خاندان بکھر گئے کہیں ماں بچون سے الگ ہو کر غائب ہوگئ کہیں بچہ والد سے بچھڑا کئ کہانیوں نے جنم لیا بالکل اسی طرح جیسے یہودیوں کو جب جرمنی سے اور یورپ سے نکالا گیا تو ان کہانیوں نے جنم لیا جس کو بعد میں ہالیووڈ نے فلمایا اور لوگوں کے جزبات کو اس قدر ابھارا کہ امریکہ میں ان ساٹھ لاکھ یہودیوں کا ایک یادگار عجوبہ بنا دیا گیا
اب آجکل جو امریکہ کی سر زمیں پہ ہو رہا ہے جیسے خبروں میں تھا کہ دو ہزار بچوں کہ ان کے خاندانوں سے چھین لیا گیا کہ بارڈر کراس کیا تھا بارڈر کراس کرنا انسانیت کا کوئ جرم نہیں امریکہ کی حکومت کا جرم ہے یہ دو ہزار وہ بچے ہیں جن کے والدین کا کسی کو بھی علم نہیں ان بچوں کو ایک بڑے سے پنجرے میں رکھا جا رہا ہے اس بارڈر پر جانے کتنے پنجرے ہوں گے کیا معلوم کس بہن نے اپنا بھائ کھویا اور کسماں نے اپنا جگرگوشہ کھویا اور آج سے بیس پچیس سال بعد یہ بچے
اگر زندہ رہے تو اپنے والدین کی تلاش میں نکلیں گے اور ایک ایک بچے کی اپنی اپنی کہانی ہو گی جس کو ہالےووڈ اور بالیووڈ فلمائیں گے آپ میں سے کئ ان فلموں کو دیکیں گے اور ایکٹروں ایکٹریسوں کی تعریفیں کریں گے مگر کئ بچے والدین کو ڈھونڈنے میں ناکام رہیں گے وہ شاید ایسی کہانی ہوگی جو پردہ یعنی سکرین پر نہ پہنچ سکے -
کیا انسانیت ترقّی کر چکی ہے؟ کیا ابھی ہلاکو خان اور چنگیز خان کا قانون ختم ہو گیا ہے؟
No comments:
Post a Comment