


آج کا دن ھے جب میں ساگر میں۷۶ برس پہلے پیدا ہوءا تھا
گھر کا کچھ نقشہ آپ کے لیے کھینچا تھا اب کچھ اور لکھوں گا۔
گھر کا کچھ نقشہ آپ کے لیے کھینچا تھا اب کچھ اور لکھوں گا۔
رءیسوں کے گھروں میں ان دنوں مہمان خانہ- ڈیوڑھی- اصطبل- بیٹھک وغیرہ قسم کے کمرے ہوتے تھے اور زنانہ و مردانہ کمرے الگ اور ظاھر ھے کہ ۔ باورچی خانہ غسل خانہ وغیرہ بھی اس طور سے جہاں مناسب جگہ ہوتی بناءے جاتےبیٹھک ایک بڑا سا کمرہ ہوتا تھا جس میں سفید "چاںدنی" کا فرش یعنی بڑی سی چادر بچھا کر بناتے اس کی دیوار کے ساتھ سلیقے سے گاءو تکیے رکھے جاتے اور بھت ہوءا تو بیچ میں قالین بچھا دیا جاتا عین اس کے درمیان فرشی حقہ رکھا جاتا کھانا تناول فرماءیے تو وہیں دسترخوان بچھادیا جاتا اور اس سے پہلے سلفچی لیکر نوکر ھر مہمان کے ھاتھ دھلاتا نوکر کے کاںدھے پہ تولیہ پڑا ھوتا مھمان کے ھاتھ خشک کرنے کو
بچپن میں مجھے ایسی محفل میں کھانےکا اور تمیز سے بیٹھنا سیکھنے کا تجربہ ہوءا ھے جو میں اس وقت یاد کر رھا ہوں اس وقت ابھی میز کرسیاں دیسی لوگوں میں نہیں چلی تھیں اور صوفہ بھی بعد میں آیا جہاں تک مجھے یاد ھے ھندوءوں میں بھی رکھ رکھاءو اسی قسم کا تھا۔ ھمارے گھر کے عین سامنے ایک وکیلوں کا گھر تھا ان کے بچوں سے میں کھیلا کرتا تھا۔ ہندو اپنے باورچی خانے کی صفاءی کا از حد خیال رکھتے ھیں جسے وہ چوکا کہتے ھیں۔ مسلمان ہونے کے لحاظ سے مجھے چوکے مین جانا منع تھا کبھی کھیل کھیل میں اگر میں چوکے میں سے نکل جاتا تو چندوکی اماں مجھے کچھ نہیں کہتی تھین چوکے کی صفاءی کر دیتی تھین ان کے گھر میں باغ بھی تھا جس میں ھمارے سارے گھرانے کی تصویر بھی لی گئ تھی میں اس وقت سات سال کا تھا چنانچہ اس سے صاف ظاھر ھے کہ ھمارے گھرانے کے تعلقات ان سے کیسے تھے میرا دوست چندو جس کا نام چندر موھن تھا ماں باپ کا اکلوتا تھا اس کے چچا وکیل تھے دوسرے وکیل صاحب کےبچے کا نام راجیندر تھا جسے ھم رجّن کہتے تھے رجّن سے چھوٹی سرلا تھی تو ھم سب اکٹھے کھیلتے ان کے مکان کاصدر دروازہ دوسری طرف کھلتا تھا جو سڑک پر تھا مین جب ۲۰۰۶ میں وھاں گیا تو وکیلوں کا گھر کسی اور نے لے لیا تھا اور چندو سے ملاقات نہ ہو سکی ان کے ایک اور رشتہ دار وکیل کبھی کبھی آتے تھے تو میں بہت خوش ہوتا تھا کیوںکہ وہ وکیلن بچوں کے لیے مٹھائ کی گولیاں لاتی تھیں اور ان کے آنے پر باجا بھی بجایا جاتا وہ گراموفون ان دنوں اتنا خوبصورت لگتا تھا کہ کچھ نا پوچھیے اس کی چھوٹی سی سوئ میں بچا کر رکھ لیتا وہ بھی بڑی اچھی لگتی چابی بھرنے کو ھم سب بچّے تیار رہتے تھے چابی بھرنا اچھا خاصا مزیدار کام تھا ایک دو رکارڈ تھے جو بجائے جاتے جیسے-- اک بنگلہ بنے نیارا۔
شھر ساگر میں ایک سنیما تھاباوجود اس کے کہ ھمارے ابّا جان اس کے خلاف تھے کچھ فلمیں دیکھنے کی اجازت تھی اور سارے خاندان کو سواءے ابّا جان کے --تو ھمیں ایسی فلموں کا بیچینی سے انتظار رھتا تھا مثال کے طور پہ فلم سکندر اعظم کی اجازت ملی تھی تو جیسے ہی اس کے اشتھار آءے ھم یہ خبر دینے گھر کو دوڑے۔ سنیما حال میں پردے والی عورتوں کا انتظام تھا جس میں مولوی صاحب کا خاندان فلم دیکھنے کو بٹھایا جاتا --وہ بھی کیا دن تھے
اپنے ہندی بلاگ میں اپنے اسکول کا لکھ چکا ہوں تصویر بھی وھاں دیکھ لیجے پہلی سے چھٹی جماعت تک میرے ساتھ بیٹھنے والے چار لڑکے تھےیعنی میرے علاوہ تین اور وہ تھے شفیع اللہ، اسحاق اور حلیم۔ شفیع اللہ تو جلد ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے ۲۰۰۶ میں میری ملاقات رٹائرڈ سکول ماسٹر اسحاق سے ساگر میں ہوئ اور حلیم ساگری رٹاءرڈ وکیل کے ساتھ بھوپال میں ہوئ تھی ھم ۱۹۴۵ میں جدا ہوے تھے کیا ملاقات تھی ان کی تصاویر لگانے کی کوشش کروںگااب اوپر تصویریں سکول والی دو اسحاق کے ساتھ اور ایک حلیم کے ساتھ نیچے والی-- اسحاق اور میں ساگر تالاب کے کنارے کھڑے ھیں اسے لوگ جھیل کہتے ہیں ھماری بچپنے کی زبان میں --تلاءو-- کہا جاتا تھا آجکل پانی خراب ہو چکا ھے تو نہانے کے کیے استعمال نہیں کیا جاتا مگر ھم نے تیرنا اسی تالاب میں سیکھا تھا لوگ صبح صبح نہانے آتے تھے زیادہ تر مرد-چتربھج گھاٹ- پہ نہاتے عورتیں الگ گھاٹ پہ نہاتی تھیں ایک گھاٹ صرف جانوروں کے لیے تھا جس میں گائں بھیںسیں اور ہاتھی وغیرہ لوگ لیکر آتے تھے- نہمعلوم ہاتھی کن صاحبوں نے رکّھے ہوں گے
بچپن میں مجھے ایسی محفل میں کھانےکا اور تمیز سے بیٹھنا سیکھنے کا تجربہ ہوءا ھے جو میں اس وقت یاد کر رھا ہوں اس وقت ابھی میز کرسیاں دیسی لوگوں میں نہیں چلی تھیں اور صوفہ بھی بعد میں آیا جہاں تک مجھے یاد ھے ھندوءوں میں بھی رکھ رکھاءو اسی قسم کا تھا۔ ھمارے گھر کے عین سامنے ایک وکیلوں کا گھر تھا ان کے بچوں سے میں کھیلا کرتا تھا۔ ہندو اپنے باورچی خانے کی صفاءی کا از حد خیال رکھتے ھیں جسے وہ چوکا کہتے ھیں۔ مسلمان ہونے کے لحاظ سے مجھے چوکے مین جانا منع تھا کبھی کھیل کھیل میں اگر میں چوکے میں سے نکل جاتا تو چندوکی اماں مجھے کچھ نہیں کہتی تھین چوکے کی صفاءی کر دیتی تھین ان کے گھر میں باغ بھی تھا جس میں ھمارے سارے گھرانے کی تصویر بھی لی گئ تھی میں اس وقت سات سال کا تھا چنانچہ اس سے صاف ظاھر ھے کہ ھمارے گھرانے کے تعلقات ان سے کیسے تھے میرا دوست چندو جس کا نام چندر موھن تھا ماں باپ کا اکلوتا تھا اس کے چچا وکیل تھے دوسرے وکیل صاحب کےبچے کا نام راجیندر تھا جسے ھم رجّن کہتے تھے رجّن سے چھوٹی سرلا تھی تو ھم سب اکٹھے کھیلتے ان کے مکان کاصدر دروازہ دوسری طرف کھلتا تھا جو سڑک پر تھا مین جب ۲۰۰۶ میں وھاں گیا تو وکیلوں کا گھر کسی اور نے لے لیا تھا اور چندو سے ملاقات نہ ہو سکی ان کے ایک اور رشتہ دار وکیل کبھی کبھی آتے تھے تو میں بہت خوش ہوتا تھا کیوںکہ وہ وکیلن بچوں کے لیے مٹھائ کی گولیاں لاتی تھیں اور ان کے آنے پر باجا بھی بجایا جاتا وہ گراموفون ان دنوں اتنا خوبصورت لگتا تھا کہ کچھ نا پوچھیے اس کی چھوٹی سی سوئ میں بچا کر رکھ لیتا وہ بھی بڑی اچھی لگتی چابی بھرنے کو ھم سب بچّے تیار رہتے تھے چابی بھرنا اچھا خاصا مزیدار کام تھا ایک دو رکارڈ تھے جو بجائے جاتے جیسے-- اک بنگلہ بنے نیارا۔
شھر ساگر میں ایک سنیما تھاباوجود اس کے کہ ھمارے ابّا جان اس کے خلاف تھے کچھ فلمیں دیکھنے کی اجازت تھی اور سارے خاندان کو سواءے ابّا جان کے --تو ھمیں ایسی فلموں کا بیچینی سے انتظار رھتا تھا مثال کے طور پہ فلم سکندر اعظم کی اجازت ملی تھی تو جیسے ہی اس کے اشتھار آءے ھم یہ خبر دینے گھر کو دوڑے۔ سنیما حال میں پردے والی عورتوں کا انتظام تھا جس میں مولوی صاحب کا خاندان فلم دیکھنے کو بٹھایا جاتا --وہ بھی کیا دن تھے
اپنے ہندی بلاگ میں اپنے اسکول کا لکھ چکا ہوں تصویر بھی وھاں دیکھ لیجے پہلی سے چھٹی جماعت تک میرے ساتھ بیٹھنے والے چار لڑکے تھےیعنی میرے علاوہ تین اور وہ تھے شفیع اللہ، اسحاق اور حلیم۔ شفیع اللہ تو جلد ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے ۲۰۰۶ میں میری ملاقات رٹائرڈ سکول ماسٹر اسحاق سے ساگر میں ہوئ اور حلیم ساگری رٹاءرڈ وکیل کے ساتھ بھوپال میں ہوئ تھی ھم ۱۹۴۵ میں جدا ہوے تھے کیا ملاقات تھی ان کی تصاویر لگانے کی کوشش کروںگااب اوپر تصویریں سکول والی دو اسحاق کے ساتھ اور ایک حلیم کے ساتھ نیچے والی-- اسحاق اور میں ساگر تالاب کے کنارے کھڑے ھیں اسے لوگ جھیل کہتے ہیں ھماری بچپنے کی زبان میں --تلاءو-- کہا جاتا تھا آجکل پانی خراب ہو چکا ھے تو نہانے کے کیے استعمال نہیں کیا جاتا مگر ھم نے تیرنا اسی تالاب میں سیکھا تھا لوگ صبح صبح نہانے آتے تھے زیادہ تر مرد-چتربھج گھاٹ- پہ نہاتے عورتیں الگ گھاٹ پہ نہاتی تھیں ایک گھاٹ صرف جانوروں کے لیے تھا جس میں گائں بھیںسیں اور ہاتھی وغیرہ لوگ لیکر آتے تھے- نہمعلوم ہاتھی کن صاحبوں نے رکّھے ہوں گے
Let me tell you, your grandparents will love reading it if someone can translate for them...
ReplyDeleteyou mean grandchildren!
ReplyDelete