Thursday, October 22, 2009

ساگر شھر کی مزید یادیں

-معافی چاہتا ہوں تصویر پھر مدّھم ھے لیکن مسجد کو بخوبی ظاھر کر رہی ھے
میری آوٹلائن نظر آ رہی ھےاور یہ پتہ نہیں چل رھا- شائد میرا چہرہ آپ کی طرف ھے یہی سمجھا جائَگا

ساگر کی جامع مسجد بڑی خوبصورت بن گئ ھے میں تصویر میں عین اس کےدروازے کے سامنے کھڑا ھوں اس مسجد کے پوزیشن عین بیچ چوراھے کے ھَے جس سڑک پر میں کھڑا ھوں وہ میرے پرائمری اسکول - پڑائو اسکول-کی طرف جاتی ھے اور بس صرف چند قدم ھی دور ھے میرے دائں جانب اور مسجد کےبائیں پر جو سڑک جا رہی ہے وہ ریلوے سٹیشن جاتی ھے۔ میرے بائین اور مسجد کے دائین جو سڑک جاتی ھے وہ کٹڑہ بازار ھے جس پر میرامیونسپل اسکول ھے جس میں میں نے پاںچویں اور چھٹی پڑھی تھی۔ جو مسجد کے پیچھے سڑک ھےوہ بھی بازار ھے مسجد سیڑھیاں چڑھ کے آتی ھے نچلی منزل پر
سب دوکانیں ھیں جن کے کرائے مسجد کو جاتے ھین اس مسجد میں اپنے والد مرحوم کے ساتھ میں جمعہ پڑھنے جاتا تھاکٹڑہ بازار میں بہت سی یادیں ھیں بکری کے لیے چارہ لینے اور اپنے مڈل سکول سے نکل کر بازار کی سیر کرنے کا یاد ہے جہاں دوکانوں کے سامنے مجمع لگا کر تماشہ دکھانے والے آتے تھے ایک بچھو کے کاٹے کا علاج بتاتا تھا جس سے مجھے ڈر لگتا تھا کیوںکہ مجھے بچھو کے کاٹنے کا تجربہ ھو چکا تھا۔ ایک اور ساںپ اور نیولے کی لڑائ دکھاتا تھا۔
مسجد کی دوسری طرف جو سڑک سٹیشن جاتی ھے اس پر میری چھٹی جماعت کی ٹمپریری کلاسیں لگی تھیں وھاں اب بھی میدان ھے جس پر میرے والد مرحوم نے وہ دھواںدار کلاسیکل تقریر کی تھی ۱۹۴۲ جس نے شہر کے لوگوں کو اتنا اکسا دیا تھا کہ ڈاکخانے کو آگ لگا دی گئ تارین توڑ دیں وغیرہ اور اسی رات انھیں برطانیہ گورنمنٹ نے حراست میں لے لیا تھا-وہ کانگرس کے سی پی و برار کے صدر تھے آجکل وھاں بسیں ٹانگے وغیرہ کھڑے رہتے ھیں
میرے والد حکیم تھے اور اس جیل کاٹنے کے بعد انھوں نے کانگرس سے استعفہ دے دیا تھا جیل سے رھائ ڈیڑھ سال کی قید کے بعد ھوئ اور جنوری '۴۴میں سارا کنبہ پنجاب منتقل ہو گیا صرف میں اور میرے ساتھ ککا جی اور میرے بڑے بھائ --ڈاکٹر سراج --اور ان کے بچے رہ گئے جو بعد میں پنجاب گئے میں اور ککاجی مئ جون میں پنجاب گئے تھے
جب تک والد جیل میں رہے میں اور میری بہن تالاب میں مچھلیوں کو آٹے کی گولیاں چنانے جایا کرتے تھے ان گولیوں پر امّاں جی نے کچھ پڑھا ہوتا تھا
مڈل سکول میں ایک میدان ہے جس میں میں اور حلیم نے ایک دوڑ جیتی تھی سالانہ کھیل ھوںگے جب جلسہ تقسیم انعامات ہوءا تو میرے والد نے ہی انعام دیے تھے وہ شہر کی میونسپل کمیٹی کے بھی صدر تھے اور مجھے یاد ھے کہ انکے ھاتھوں سے انعٰام لیتے ہوئے مجھے کتنی شرم آئ تھی اور وہ پیلی سی بنیان مجھے بہت اچھی لگی تھی
چلیئے اب پنجاب چلیں کوٹلہ ارب علیخاں نام ہے اس گائوں کا جھاں میں زندگی میں دوسری بار آیاتھا پہلی بار بڑی آپا کی شادی پر جب میرے چھوٹے بھائ منہاج کا انتقال بھی ہئوا شادی کچھ دن کے لیئے رکی تھی میں کوئ پاںچ چھ برس کا تھا
ایک اور بات بھول رہا تھا لکھتا چلوں
ساءکل چلانی اسی میونسپل سکول کے میدان میں سیکھی تھی۔ کٹڑہ بازار سے کرایے پر دو پیسے میں آدھے گھنٹے کے لیئے لی تھی اور اتنا مزا آیا تھا کہ ابھی تک یاد ھے بس اس روز کے بعد ہم ساءکل چلانا سیکھ گئے یہ پوسٹ ھم نے نومبر کی تین تاریخ کو مکمل کی اور اب ھم پنجاب چلیں گے

No comments:

Post a Comment