Monday, November 30, 2009

ککرالی سکول کی یادیں

مڈل سکول جب تک تھا تو کوئ خاص واقعہ نہیں ہوا- اتنا یاد ہے کہ میں نیا نیا آیا تھا اور پنجابی سمجھ آنے لگی تھی تو گائوں میں کچھ انٹرٹینمنٹ کا پروگرم نہیں تھا دو گانے والے مشہور تھے ایک تھا عنائت کوٹیا اب ممکن ہے اسکا نام کچھ اور ہو اسی نام سے مشہور تھا
دوسرا "آچھ گوچھیا لوہار کہلاتا تھا بعد میں وہ عالم لوہار جانا گیا اور اس نے نام زیادہ
o پیدا کیا یہ سب ایک چمٹا اپنے ہاتھ میں لئے ہوتے اور ایک -جوڑی والا ساتھ ہوتا- جوڑی باںسری کی جوڑی کو کہتے ہیں چنانچہ مجھے پہلے والے کا ایک شعر یاد ہے چمٹا میرا ٹم ٹم کردا جوڑی گھمبر پایا
باھر نکل کے دیکھو یارو عنایت کوٹیا آیا
ہائ ہوا تو ۱۹۴۶ میں پاکستان بننےکا پروگرام شروع ہو گیا اور ہمارے ساتھ جو ھندو اور سکھ لڑکے تھے وہ جانے شروع ہو گئے اور ہم نے نئے ماسٹر صاحب کا انتظار شروع کیا اس دوران میں جو گڑبڑ سارے ملک میں پھیلی تھی وہی ہمارے علاقے میں بھی آ گئ۔ اصل گڑ بڑ اس وقت آئ جب کشمیر کا جھگڑا شروع ہوا یعنی پاکستان بن جانے کے بعد کشمیر کی سرحد بس تین چار میل دور تھی تو ہم عام جہازوں کی بمباری دیکھتے اور سنا کرتے تھے کبھی کبھی ہندوستانی بامبر جہاز پاکستان کی سرحد کے اندر بھی سٹرافنگ کر جاتے تھے
بہر حال کشمیر کے لیے مجاھدین آنے شروع ہوئے تو ہمارے سکول پر بھی اثر پڑا وہ اس لئے کہ پٹھان لوگ سردی سے بچنے اور رات گزارنے کے لئے جگہ ڈھوںڈتے ہوئے ہمارے سکول میں آنکلے ۲۰۰ یا اس سے زیادہ کا گروہ آتا اور چند روز گزارتا ایک گائے یا بھیںس کسی کی لیکر وہ حلال کر لیتے اور آرام سےکھاتے
میری یعنی دسویں کلاس کے لئے کچھ سامان سائنس کا آیا تھا جو ہم نے الماریوں میں بند کر دیا تھا۔ سکول باہر کھیتوں مین لگنے لگا سردی ہو بارش ہو ہماری حالت خراب تھی کئ دن سکول میں کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا جب وقت نکل گیا اور گڑ بڑ کم ہوئ تو ہم واپس سکول میں آئے دیکھا کہ کمرے سب گھاس پھوںس سے بھرے ہوئے تھے اور الماریوں سے سارے سالٹ اور دیگر کیمیکل ضائع کر دیے گئےَ تھے اور فلاسک اور ٹیوب وغیرہ جوڑ توڑ کے ان لوگوں نے حقّے بنا لیے تھے اب جو سائنس کے تجربات ہونے تھے ان کا لیے ہمیں گجرات جا کے کسی اور سکول میں تین دن لگا کے مکمل کیے۔ پڑھائ کا ممکن ہے ہر جگہ اسی طرح ہرج ہوا ہوگا خیر میٹرک کا امتحان ۴۸ میں دیا اور پاس ہو کر اللہ کا شکر ادا کیا

-Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, November 22, 2009

ھمارے میٹرک کے ماسٹر صاحب

ذرا بھاری جسم شلوار قمیص اور کوٹ میں ملبوس ھمارے ناںویں جماعت کے ماسٹر صاحب سال ختم ہو رھا تھا جب ان کا تقرر ہو امجھے اس وقت نطر کی کمزوری شروع ہوئ مگر جب دسویں میں گئے تو پاکستان بن چکا تھا اور ھمارے ہندو سکھ ہم جماعت جا چکے تھے ماسٹر بشیر شاہ کی چند باتیں ظہور میں آ رھی تھیں مثلا" یہ کہ انھوں نے اپنے امام مہدی ہونے کا دعوہ کر رکھا تھا اور اس سلسے میں ایک کتاب بھی لکھی تھی جو ھماری نظر سے نہیں گذری اچھا پڑھاتے تھے مگر باقاعدہ ان کی ایسی عزت نہیں بنی جیسی ہونی چاھئے تھی ایک روز ایسا ہوا کہ آدھی چھٹی کے بعد وہ کلاس میں نہیں آئے پتہ لگا کہ گھر چلے گئے ماسٹر لوگ باتین کر رہے تھے کہ شاھ صاحب نے اپنی عمر کی کوئ پیشین گوئ سنائ تو کسی ماسٹر نے کھا کہ آج کوئ آپ کو قتل کر دے تو پھر؟ چنانچہ انھون نے سمجھا کوئ قتل کی سازش ہے بھاگ گئے دو دن بعد انھیں بڑی مشکل سے راضی کر کے واپس لایا گیا میں نے ان کےمرض کا ذکر انگریزی کے بلاگ میں کیا تھا (schizophrenia )
کچھ لڑکے شرارتی تھے تو کہنے لگے ماسٹر جی ھم نے سنا ہے کہ امام مہدی کی رگوں میں خون نہیں دودھ بہتا ھوگا کیا ھم دیکھ سکتے ھین؟ یعنی کلاس میں لڑکے بھی انہیں چھیڑتے تھے وہ ایک ہی گالی سناتے تھے وہ بھی بغیر غصے کے -- اوئے کتّیا جہیا چپ کر--
اس کے بعد ھم نے اخبار میں انکی خبر پڑھی تھی ۱۹۵۵ میں جب انھوں نے گورنمنٹ کو درخوست بھیجی کہ وہ انگلینڈ جانا چاہتے ہیں مارگریٹ سے شادی کرنی ہے۔ ان کے سادے سے فلسفے کے مطابق چونکہ ۳۴۰ خطوط لکھنے اور ان میں سے ایک کا بھی جواب نا دینے کا مطلب یہ تھا کہ وہ راضی ہے---آپ نے فارسی کی وہ کہاوت سنی ہوگی--الخاموشی نیم رضا-- تو بس ان کے انگلیںڈ پہنچنے کی ھی دیر ہے پھر اس کے بعد میرے ایک ساتھی جو پشاور میں تھے اور وہاں کےمنٹل ھاسپٹل کے انچارج تھے بتانے لگے ایک مریض کا حال تو میں نے کہا اس کا نام بشیر شاہ تو نہیں تو جواب دیا ھاں اس کے بعد میں انگلینڈ میں تھا ۱۹۶۲ میں میرے گاءوں کے لڑکوں نے مجھے بتایا کہ ماسٹر بشیر شاہ بھی انگلینڈ میں آ چکے ہیں لیکن مزید کہانیاں نہ ملیں
میں نے صرف چند باتون کا ذکر کیا ہے کہ انھین ذیابیطس بھی ہو گئی تھی اور باقی سب اس دماغی مرض کی وجہ سے تھا میرے خیال سے وہ نہایت شریف آدمی تھے اور اپنی بیماری کی وجہ سے مجبور تھے اب تو وہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہوںگے اللہ ان کی مغفرت کرے
Please visit my blog in English at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, November 19, 2009

کوٹلہ۴۴ سے ۴۸ تک

ظاہر ہے کہ جب ھندوستان سے آیا تو پنجابی نہیں بول سکتا تھا لیکن دو تین ماھ کے اندر ہی میں سمجھنے لگا تھااوردوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے ساتھ پنجابی بولنی بھی شروع کر دی مگر سکول میں چار سال اردو ھی بولتا رھا کچھ جھجک سی تھی جسے میں دور نہ کر سکا۔ سکول میں سب لوگ مجھے اردو کی ڈکشنری کہتے تھے جس لفظ کا تلفظ معلوم کرنا ہوتا تھا تو ماسٹر لوگ بھی مجھی سے پوچھتے تھے کوٹلہ گاِوں میں جو بچوں کے کھیل ہوتے تھے وہی میں بھی کھیلنے لگا اور کچھ وہاں کر ہی نھیں سکتا تھا دو سال ختم کیے اور آٹھویں کا امتحان دینا تھا یہ ورنیکلر فائنل کہلاتا تھا ساری کلاس لالہ موسی ا گئ امتحان ایک ہفتہ کا رہا وہاں سے واپسی پہ میں دوسرے بچوں کے ساتھ گجرات رات رکا وہاں ایک سکول میں میرے ہم جماعت کا ایک بڑا بھائ تھا اس کے ساتھ رات کو سنیما دیکھا فلم کا نام -گاءوں کی گوری- تھا دوسرے روز کوٹلہ واپس ہونے کا پروگرام بنایا تو معلوم ہوا بسیں نہیں جا رہیں بارش کی وجہ سے دلدل اور نالہ بھنڈر ملکر مشکل پیدا کر رہے تھے تو ہم چار لڑکوں نے ملکر ایک ٹانگہ کیا اور چل پڑے مگر ٹانگہ پیدل چل رہا تھا کیوںکہ ٹانگہ والے کے لیے گھوڑے کو چلانا دوبھر تھا اسے پیدل چلنا اور گھوڑے کو چلانا پڑ رہا تھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی کوٹلہ تین میل تھا اور شام ہو چلی تھی ٹانگے والے کو واپس اپنے گائوں جانا تھا تو وہ ہمیں جواب دے گیا اور کچھ پیسے واپس کر کے چھٹی کی
ہم لوگوں نے ایک گھوڑی کرائے پر لی اور بڑی مشکل سے غروب آفتاب کے وقت تک میں گھر پہںچا
امتحان کا ایک واقعہ سناتا چلوں ھمیں کمزور طلبا کی امداد کے لیے امتحان مین ایک طریقہ سکھایا گیا تھا جس کو ہم نے استعمال بھی کیا۔ وہ یوں کہ مشکل سوال کو ایک چھوٹے سے کاغز پر حل کر کے قلم کے اندر گھسا دیتے اور پھر کمزور لڑکا ہوشیار لڑکے سے امتحان میں قلم-وہ سروٹ کے کانے سے بنی ہوتی تھی- مانگتا اور انوجیلیٹر وہ قلم کمزور لڑکے کو پکڑا دیتا اس طرح کام بن جاتا
ھم سولہ لڑکوں میں سے بارہ پاس ہوے تھے خیر اس کے بعد سکول ھائ ہو گیا تو نویں میں داخل ہو گیے ستمبر اکتوبر میں کلاسیں شروع ہوئں یہ ۱۹۴۶ کی بات ھے پاکستان ھندوستان کا بٹوارہ ہونے والا تھا جس کی تیاریاں چل رہی تھیں میرے ساتھ جو ہندو اور سکھ لڑکے تھے ان میں کوئ گڑ بڑ نہیں تھی مگر افرا تفری بیچینی وغیرہ شروع ہو گئ ایک ماسٹر ھمارے لیے آئے وہ ماشا اللہ ایم اے تھے اور ھمارے ھیڈ ماسٹر بی اے بی ٹی-ماسٹر عبدالعزیز تھے بہت اچھی طبیعت کے تھے ایم اے ریاضی میں کرنا ۱۹۳۳ میں مسلمان کے لیے آسان نہیں تھا مگر ماسٹر بشیر احمد شاہ بڑی خوبیوں کے مالک نکلے دو سال ھم نے ان سے تعلیم حاصل کی ان کا الگ حال لکھوں تو بہتر ہوگا۔ بہر کیف ۴۷ آیا اور ہمیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لمبی کہانی ہے جو میں نے انگریزی کے بلاگ میں لکھی ھے اس کا کلک بعد میں لگائون گا ابھی مجھے سیکھنا ھے ایک اور ماسٹر لطیف سائنس کے لیے آءے چنانچہ دسوین ختم کرتے کرتے عملہ تقریبا" پورا ہو گیا تھا مگر طاہر ھے کہ ہماری پڑھائ میں بہت حرج ہوا تھا بٹوارہ کی گڑبڑ وغیرہ اور پھر کشمیر کی جںگ شروع ہو گئ ۱۹۴۸ میں جب گجرات امتحان دینے گئے تو پھر ہم سولہ لڑکے تھے اور بارہ پاس ہوے اس کے بعد تو مجھے واقعی لاہور جانا تھا زمیندارہ کالج گجرات میں تعلیم ایسی نہیں تھی کہ میرے مستقبل پہ پوری اترتی میٹرک کا نتیجہ نکلا تو میری پوزیشن کلاس میں تیسری تھی مگر سب لڑکے سیکنڈ اور تھرڈ کلاس میں تھے فرسٹ ڈویژن کسی کی بھی نہیں تھی میرے بڑے بھائ نے ایم بی بی ایس کیا تھا ان کے پاس لاہور گیا کالج میں داخلے کے لیے
اب اتنے عرصہ کے بعد میں پھر شھر میں آ رہا تھا سب کچھ نیا تھا اور میرے لیے بڑی کشش رکھتا تھا
لاہور ۴۸ سے ۵۹ تک رہا چنانچہ اس کی داستان الگ لکھوں گا اپنے ماسٹر صاحب کا قصہ پہلے سنالوں اللہ مجھے معاف کرے کیوںکہ اس میں انکی کچھ برائ کا سامان بھی پیدا ہوگا۔

Please visit my Englishblog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, November 15, 2009

ککرالی سکول اور کوٹلہ

یہ ککرالی سکول کی عمارت ھے مگر موجودہ زمانے والی اور اسے گورنمنٹ ہائ سکول لکھا ہے اس وقت یہ ڈی بی مڈل سکول تھا ۱۹۴۴میں جب میں
پنجاب آیاتو میرا اسی سکول میں داخلہ ھوا اور یہاں میں نے دسویں جماعت پاس کی تھی اس وقت یہ سکول مڈل تھا اور میں ساتویں میں داخل ہوا۔ سکول کا گیٹ وہی ہے مگر پرانی عمارت ڈھا دی گئ ہے اور نئ عمارت کھڑی کی گئ ہے میں نے مڈل پاس کیا تو اس کو ہائ بنانے کی تحریک چل رہی تھی اور مجھے سکول لیونگ سرٹیفکِٹ دینے سے انکار کر دیا گیا کہ میں اچھے اور ذہین طلبا میں شمار کیا جاتا تھا تو مجبور تھا گھر والے بھی میری چھوٹی عمر کو دیکھتے ہوے راضی ہو گئے تو اسی سکول میں ناویں جماعت میں داخل ہوا اور یہیں سے میٹرک کا امتحان دیاتھا اس وجہ سے آپ دیکھ سکتے ھیں کہ میں اس سکول کا پہلا میٹریکولیٹ ہوں یعنی۱۹۴۸ کا
میں نے اس کے متعلق پہلے انگریزی بلاگ میں لکھا تھا اس میں تفصیل ملاحظہ فرمایئں یعنی میں نے اسی ایک اسکول سے دو مرتبہ گریجوایٹ کیا
ککرالی میرے گائوں کوٹلہ سے ایک میل دور ھے تو ھم سب بچے روزانہ پیدل جایا کرتے تھے خوب مزا رہتا تھا آنے جانے کا سب کھیلتے ہوے جاتے اور کھیلتے ہوے واپس آتےککرالی اس وقت بڑا گائوں تھا اور بازار بھی بڑا تھا اس لیے لوگ کوٹلہ کو -کوٹلہ ککرالی- بھی کہا کرتے تھے وہاں سے مڈل پاس کرنے کی الگ اور ھائ پاس کرنے کی الگ کہانی ہے فی الحال صرف اتنا ہی لکھوں گا اور کچھ کوٹلے کے متعلق کوٹلہ میں بھی اچھا خاصا بازار تھا اور کسانوں کی ضرورت کی ساری چیزیں دستیاب تھیں کچھ روزانہ کی کھانے پینے کی بھی تھیں جیسے سبزی یا گوشت جو میرے پڑوسی قصائ کیا کرتے تھے بٹوارے کے بعد کوٹلے کی اھمیت میں بھت اضافہ ہوا اور گائوں قصبہ یا شہر میں تبدیل ہو گیاکوٹلہ میں ہمارے گھر کے سامنے ہی ایک چھوٹا سا سکول تھا جو پرائمری تھا اب تو وہاں بڑا سکول بن گیا ھے لیکن اس عمارت میں نہیں کہیں اور ھے۔ ہمارے خاندان کے پنجاب آنے سے پہلے گھر میں میرے بڑے ماموں رہتے تھے کہ وہ اس سکول میں پڑھاتے تھے میں نے اس گھر میں یعنی کوٹلے میں اپنی زندگی کے چار برس گزارے ہیں
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, November 3, 2009

کوٹلہ اربعلیخان، ضلع گجرات، پنجاب


ساگر سے کوٹلہ تک کا سفر بذریعہ ریل گاڑی لاری یعنی بس اور تانگہ وغیرہ

مئ کا مہینہ تھا گرمی شروع ہو چکی تھی میں نے چھٹی جماعت کا امتحان پاس کر لیا تھا میاں جی {میرے والد مرحوم}اور
ککّاجی کے ساتھ ریل گاڑی کا تین دن کا سفر تھا چنانچہ پہلی رات ھم دہلی میں کہیں رکے تھے اور دوسری صبح پھر ریل میں {یاد رھے کہ ھمارے والد مرحوم گاندھی جی کے نقش قدم پر چلتے ھوئے ھمیشہ تیسرے درجہ میں سفر کرتے تھے, مگر اس وقت ھم دس یا گیارہ برس کی عمر میں نئے شہر, نئی جگہ وغیرہ دیکھنے کے لیئے سفر کی ہر صعودت برداشت کر سکتے تھے}سوار ہوئےاور صبح ابھی اندھیرا ہی تھا کہ گجرات کے اسٹیشن پر اتر کر بسوں کے اڈے پہ آئَے وھان ھمیں ایک بڑے سے گلاس میں دودھ یا لسّی پینے کو دی گئِ اتنا بڑا گلاس ہم نے پہلی دفعہ دیکھا تھا سورج نکلنے پر وہ بس چلی اور شہر گجرات سے نکل کر ایک دوگائون گزرنے کے بعرایک برساتی نالے کے کنارے ٹھر گئ جس کا نام بھنڈر ھے اور اسے دواڑا بھی کہتے ھیں نالےمیں پانی تو زیادہ نیں تھا مگر ریت ایسی تھی کہ سواریوں سمیت گاڑی کو اس میں سے بغیر پھںسے نکال لے جانا مشکل تھا تو ساری سواریاں اتار دی گئیں اور ھم نے نالہ پیدل پار کیا دوسری طرف
گاڑی پہںچ چکی تھی ھم پھر بس میں بیٹھے اور بس کوٹلہ پہنچنے پہلے مختلف گاءوں میں سواریاں اتارتی ہوئ چلتی رہی اس وجہ سے یہ ۱۹ میل کا رستہ ایک گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ مین طے ھوتاتھا اس دن بارش کی وجہ سے تین چار گھنٹے کا-اس وقت گجرات میں جی پی ایس رcکوٹلہ کے درمیان "گجرات پنجاب بس سروس" کی چار بسیں آیا جایا کرتی تھیں اس کے علاوہ اور کوءی دوسری سروس کمپنی نہیں تھی۔ کوٹلہ کا نام اسی طرح لکھ جاتا تھا جیسے اوپر لکھا ھے اور ارب علی خاں بھی اس علاقے میں کئ اور کوٹلے بھی تھے اس وجہ سے کوٹلہ کے ساتھ یہ لکھنا لازمی تھا کئ لوگ اس کو -کوٹلہ ککرالی- بھی کہتے تھے ککرالی ایک اور گائوں تھا جو ایک میل دور تھا ۔ اس وقت وھاں زیادہ دوکانیں تھیں، تھانہ بھی تھا اور ایک مڈل سکول تھا چنانچہ ککرالی اس سے بڑا گائوں سمجھا جاتا تھاوقت کے ساتھ اب حیثیت الٹ چکی ھے ککرالی چھوٹا اور کوٹلہ اب بڑا قصبہ بن گیا ھےبلکہ بازار اور بینک وغیرہ دیکھیں تو اسے اب شہر ھی ماننا چاہیے
 بس سے اترنے پر مجھے ابھی تک یاد ہے ذرینہ عمر چھ برس- اڈے پہ آئ اور گود میں اجمل- عمر تین برس- کو اٹھایا ہوا تھا


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/