Monday, February 28, 2011

ظالم سماج

 ہم نے کئ قسم کے ناول اپنی زندگی میں پڑھ رکھّے ہیں جاسوسی ناول زیدہ پسند تھے ہند-و-پاک تہذیب میں ایک لفظ سماج کا عام استعمال ہوتا ہے  زیدہ تر اس کا ستعمال رومانی قسم کی کہانیوں اول ناولوں میں دیکھا ہے
"ظالم سماج" خصوصا" ایسی ہی جگھوں پر دیکھا ہے
 ، اپنے میڈیکل وارڈ میں ہمارے داخلے والے دن ایک نہ ایک  پوِاءزننگ کیس ضرور آ جاتا تھا  نیلا تھوتھا،  ایسپرین -
افیم، وغیرہ زیادہ کیس آتے تھے ایک روز ایک کیس آیا ٹیں ایجر لڑکی تھی اور ایسپریں کی گولیاں کھا لی تھیں، نہ معلوم کتنی اب یاد نہیں بیہوش نہیں تھی-تو ہم نے ہسٹری لینی شروع کی
 نام وغیرہ پوچھنے کے بعد جب ایسپرین کا ذکر چھیڑا تو اس نے باقاعدہ ہمیں  'اس ظالم سماج' پہ لیکچر دینا شروع کر دیا کہ میں نے کوئ غلط کام نہیں کیا محبّت کی ہے اور سماج کو پسند نہیں
 وغیرہ وغیرہ
 اورمیں اس لڑکی کو بغور دیکھنے لگا دیکھنے میں کسی ہیروئن کی طرح نہیں لگ رہی تھی عام سا چہرہ تھا ممکن ہے 'خوبصورت' کا لفظ مجھے اس کے لئے زیادہ لگا ہو چلیئے قبول صورت کہ لیتے ہیں بھلا اس عمر میں ایسے خیالات اور اس قدر پختگی تھی اس کے ارادوں میں مجھے واقعی کسی فلم یا کہانی کا پلاٹ سا محسوس ہونے لگا تھا
 بعد میں کیا ہوئا اب ذہن سے اتر گیا ہے لیکن جیسا کہ کبھی کبھی ہوتا ہے ایک لفظ کے سامنے آنے سے پرانی یادوں کے کسی کمرے کی کھڑکی سی کھل جاتی ہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, February 19, 2011

شراب اور اس کا اثر

 بچپن میں ہم شراب اور شرابیوں سے بہت ڈرتے تھے ظاہر ہے کہ یہ اتنی عام چیز نہیں تھی۔
 اس وقت کا ذکر ہے جب ابھی پاکستان نہیں بنا تھا میرے گائوں میں ایک مکان پر جئوا اور شراب کا گڑھ تھا کچھ ہندو جئوا کھیلتے تھے اور ان کے ساتھ کچھ مسلمان بھی شامل تھے دوسرے گائوں سے لوگ آ کر یہاں جئوا کھیلتے مگر شراب پینے میں مسلمان زیادہ مشہور تھے ان میں سے ایک صاحب میرے سکول والے گائوں سے آتے تھے کبھی کبھی ہمارا ان کا سامنا ہو جاتا تھا کہ جب ہم سکول سے گھر آ رہے ہوتے وہ اپنے گھر جا رہے ہوتے ہم بچّے راستہ چھوڑ کر الگ ہو جاتے وہ صاحب نشے میں دھتّ ہوتے تو ہمیں ڈر لگتا تھا۔ ایک روز راستے میں ملے تو مجھے انھوں نے پکڑ لیا اور نام وغیرہ پوچھنا شروع کیا ڈر کے مارے ہمارے منہ سے بات ہی بڑی مشکل سے ہو رہی تھی لیکن وہ اچھّے موڈ میں تھے اور غالبا پیسے جیتے ہوں گے تو مجھے انعام میں ایک روپیہ دیا ہم نے ڈر کے مارے لے لیا بھلا انکار کیسے کرتے پھر وہ اپنے راستے پہ ہو لئے اور ہم گھر کو بھاگے
                      دوسرے دن یار لوگ میرے پیچھے
'مٹھائ ہونی چاھئے' خیر ان دنوں ایک روپیہ بڑی چیز ہوتی تھی سو ہم نے سب کے ساتھ ملکر برفی کھائ کیوںکہ صرف یہی مٹھائ ان دنوں ملتی تھی
 افسوس ہے کہ ان صاحب کا انتقال پلنگ پر پڑے پڑے آگ لگ جانے سے ہوا ممکن ہے سگرٹ ہاتھ میں ہو اور زیادہ نشے میں ہوں اللہ انھیں مغفرت فرمائے اور ان کے گناہوں سے معافی عطا کرے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, February 9, 2011

تازہ سبزی

 ہم اس ملک میں رہتے ہوئے تازہ چیزوں کا صحیح مطلب نہیں سمجھ سکتے سوچا آپ کو صحیح تازہ سبزی دکھادوں
یہ نارووال کے راستے میں ہمیں نطر آئ تو سوچا خرید لیں- اگر آپ پاکستان گئے ہیں تو ضرور معلوم ہو جائے گا کہ وہاں کی گاجر کیسی سرخ ہوتی ہے یہ سبزی سڑک کے کنارے سر عام بک رہی تھی اور یہ ھے تازہ سبزی
 جو اسی روز بکتی ہے جس روز اسے کھیت سے توڑ کر نکالا جاتا ہے اور کئ گھروں مین اسی روز پک بھی جاتی ہے
 تازگی کا پتہ اس کے ذائقہ سے چل جاتا ہے۔ یہاں بھی ہم
farmers market
سے لیکر آتے ہیں جو ایسی تازہ تو نہیں ہوتی مگر اس کا ذائقہ یقینا" عام بازار یعنی گروسری سٹور سے لائ گئ سبزی سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/