Friday, December 30, 2011

ماسٹر جھکّی اور ماسٹر فیروز الدین

 جھکّی کا لفظ دراصل ان لوگوں کے لئے بولا جاتا ہے جو چرس پیتے ہوں یا  اس قسم کی منشیات سے لطف اندوز ہوتے ہوں ممکن ہے اس کا مطلب ہو کہ وہ 'نشے' میں ایسے نظر آتے ہیں
 اب یہ تو کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس قسم کی حرکات کرتے ہوں عمر رسیدہ تھے اور نہ معلوم کیا نام تھا ہم نے صرف یہی نام سنا تھا۔ ممکن ہے کوَ بیماری بھی ہو کیونکہ اس سے اگلے سال ہی وہ ریٹئر ہو گئے تھے اور میں نے انھیں پانی کا جگ ساتھ رکھے دیکھا تھا  میرا اندازہ ہے کہ انھیں ذیابیطس کا مرض لاحق ہو گیا تھا خیر جو بھی ہو ماسٹر جھکی مجھے چاہتے تھے اور میرا لحاط کرتے تھے ممکن ہے میرے والد کے مریض رہے ہوں لیکن ویسے بھی میرے والد ان دنوں میونیسپل کمیٹی کے صدر تھے اور میرا اسکول میونیسپل ہائی اسکول تھا
/ماسٹر جھکّی  درمیانے قد کے مگر بڑے ڈیل والے لگتے تھے دھوتی اور قمیص کوٹ ان کا لباس تھا اور سر پہ 'گاندھی کیپ' ہوتی تھی آپ ہمارے پاںچویں جماعت کے ٹیچر تھے ان کی کرسی دروازے کے قریب ہوتی تھی اور میں جس ڈیسک پر بیٹھتا تھا وہ سب سے پچھلی لائن میں تھا لیکن کنارے پہ --اس سے آگے صرف ایک اور ڈیسک تھا ڈیسک کا دوسرا کنارا دیوار کے ساتھ تھا اسی لئے میں اس تاڑ میں رہتا کہ اگر ماسٹر جی کے کان مروڑنے سے بچنا ہو تو دڈیسک کے نیچے گھس جائوں ان کے چہرے کے اتار چڑھائو سے میں سمجھ لیتا تھا جب وہ میرا سوال سلیٹ پر لکھا دیکھ رہے ہوں جونہی مجھے معلوم ہوا کہ سوال ٹھیک نہیں میں چپکے سے ڈیسک کے نیچے کونے میں چھپ جاتا جب وہ نظر اٹھا کے دیکھتے تو پوچھتے 'کہاں گیا' پھر انھیں معلوم ہو جاتا اور وہ اپنے بید سے مجھے ڈھونڈنے کے لئے بینچ کے نیچے بید ہلاتے مگر میں بچ جاتا۔ وہ اپنی عمے کی وجہ سے زیادہ جھک نہیں سکتے تھے اور میں اس کا فائدہ اٹھ جاتا۔ جب تک وہ واپس اپنی کرسی پہ جاتے ان کے دل سے مجھے سزا دینے کا خیال نکل جاتا نرم طبیعت کے مالک تھے رٹائر ہونے کے بعد پتہ نہیں ان کا کیا بناا
پہلی سے چھٹی جماعت تک میرے ساتھ بیٹھنے والے میرے ہمجماعت دوست تھے  میرے ساتھ شفیع اللہ ان کے بعد حلیم اور کونے میں اسحاق  اور اسی طرح اس سے پہلے جب ٹاٹ پر تھے تو اسی لائن میں یٹھا کرتے یاد رہے کہ سن دو ہزار چھ میں جب میں انڈیا گیا تو اسحاق اور حلیم دونوں سے ملاقات ہوئی تھی شفیع اللہ تو بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے اسحاق ماسٹر رتائر ہوئے اور حلیم وکیل رٹایر ہوئَ ہیں اور آجکل بھوپال میں ہیں اسحاق اسی مکان میں ہیں جس میں انھیں میں نے بچپن میں دیکھا ہے
 تو خیر چھٹی جماعت میں ہمارے ماسٹر صاحب ماسٹر فیروز الدین تھے مسلامنی لباس وہی قمیص پاجامہ اور ٹوپی تھا مگر یہ شیروانی باقاعدگی سے پہنتے تھے وہ بھائجان معراج کے بھی استاد رہے تھے اور ان کی بڑی تعری سن رکی تھی اور کچھ ان کے متعلق یاد نہیں پڑتا اس کے بعد ہم پنجاب منتقل ہو گئے

Wednesday, December 28, 2011

میرے استاد- ماسٹر رزّاق

  مجھے دوسری اور تیسری جماعت میں انھون پڑھایا
 چوڑا سا چہرہ گرجتی آواز اور قمیص کوٹ پہنتے لیکن بجائے پاجامے کے انھیں ہم نے ہمیشہ دھوتی پھنے ہی دیکھا جی ہاں کئ مسلمان بھی دھوتی پہنتے تھے جیسے کئ ہندو پاجامہ پہن لیں اسے بس ہندوستانی لباس سمجھا گیا ماسٹر رزاق کا وہ 'آر' جو وہ سوال صحیح دیکھ کر سلیٹ پر لکھتے تھے مجھے بہت خوبصورت لگتا تھا اور کچھ ان کے متعلق یاد نہیں رہا۔ ان کا ایک بیٹا جس نے ہندی پڑھی تھی اور اب اردو کی تعلیم لینا چاہتا تھا  اس نے میرے ساتھ چوتھی کا امتحان دیا اور مجھ سے زیادہ نمبر لیئے اگرچہ میں ہی فرسٹ تھا تو مجھے وہ آدمی اچھا نہیں لگا تھا پھر وہ میرا تاریخ کا ٹیچر بنا میری چھٹی کلاس میں تو مجھے تاریخ کے مضمون سے ہی نفرت ہو گئ جو آخر تک مظلب ہے سکول ختم ہونے تک رہی


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, December 17, 2011

جمّن جناب جی

ہمارے پہلے استاد---جیم کے اوپر پیش ہے ا س نام میں۰---
جی ہم انھیں اسی نام سے جانتے ہیں اور کوئ نام نہین بتایا گیا۔ جیسا کہ پہلے لکھا تھا ہمارے 'گھرانے کے استاد' ہیں میرے سب بڑے بھائ بہنوں کو پڑھنا لکھنا آپ  ے ہی شروع کرایا  درمیانہ قد جسم بھاری سا یاد پڑتا ہے آواز مدھم سی مگر  دبدبہ رکھتی تھی جیسا کہ عام رواج تھا پاجامہ قمیص اور کوٹ ان کا لناس رہا- ایسا کوئ سبق یاد نہیں پڑتا لیکن 'گوشمالی یاد ہے جب میرا سوال درست نہ ہو۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ زبانی سوالوں کے جوب میں مجھے الجھن رہتی تھی پریشانی کی حد تک اور مجھے زبانی سوال کبھی پسند نہیں تھے سکول کے میدان  مین لڑکوں کو ذرا فاصلے فاصلے سے کھڑا کیا جاتا اور ماسٹر سوال بولتے ہمیں جواب سلیٹ پر لکھ کر پھر کھڑے ہو جانا ہوتا تھا اور میرے دل میں وسوسے شروع ہو جاتے خصوصا" جب سوال کا ٹھیک ہونا صریحا" معلوم نہ ہو
   تصویر اس کلاس روم کی ہے سامنے میں کھڑا ہوں یہ تصویر  مصافحہ سیکھنے کے ستّر سال بعد لی گئ



یہ تو ظاہر ہے کہ یہ چوتھی جماعت کے تجربات ہیں پہلی میں جو مجھے یاد ہے جمن جناب جی ہمیں مصافحہ کرنا سکھا رہے تھے بڑے کمرے کے سامنے جو برامدہ تھا  اسمیں لڑکے باری باری مختلف دروازوں سے آتے اور مڈھ بھیڑ ہونے پر سلام کرتے اور ہاتھ ملاتے اچھی پریکٹس تھی مگر نہ معلوم مجھے بہت زیادہ جھجک ہوتی تھی سلام کرنے میں اور بڑے ہو کر بھی کافی دیر رہی جمن جناب جی نے جو پریکٹس کرائ تھی اس کا فائدہ بڑی دیر بعد نکلا اللہ انھین کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, December 15, 2011

میرے استادوں کا حال

 زندگی میں انسان اپنی عقل اور سمجھ کے استعمال سے بہت کچھ سیکھتا ہے ویسے تو یہ دنیا ساری ایک درسگاہ ہے اور اس میں ہر جگہ تجرباتی طریقہ سے انسان اپنے علم میں اضافہ کرتا رہتا ہے لیکن میں ان درسگاہوں کی بات کروں گا جہاں پیشہ کے طور پر درس دیا جاتا ہے
 کہتے ہیں کہ انسان کی سب سے پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے جس سے ہمیں پوری طرح اتّفاق ہے  لیکن جو کچھ ہم نے ماں کی گود میں سیکھا وہ ذہن میں نہیں رکھا گیا کہ اس وقت ابھی یادداشت کا کام شروعات میں تھا اس لیئے کچھ نہیں لکھا جاسکتا ہمارے زمانے میں ساگر شہر میں اس وقت ایک پرائمری سکول، تھ اہندی  اور اردو کی الگ الگ عمارتیں تھین دو عدد ہائ سکول تھے ایک میونسپل اور دوسرا گورنمنٹ ۔ کنڈر گارٹن اور اس قسم کے اسکولوں کا رواج نہیں تھا۔ چار سال کی عمر میں ہی ہمیں اسکول میں داخل کرا دیا گیا تھا - ان دنوں وہاں چھوٹی یا بڑی عمر کی کوئ حدود نہیں تھیں گھر میں ہماری امّاں جان کے علاوہ ایک اور ہستی تھیں جنھوں نے شائد  الف بے اور گنتی وغیرہ پڑھائ ہو وہ تھیں ہماری پھوپھی جان یہ تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں نے ہی مجھے نماز سکھائ تھی اور میری بہنوں کو بھی جو مجھ سے بڑی تھیں کیوں کہ جب انہوں نے نماز کی نیت بتائ تو جو کچھ وہ میری بہنوں کو بتا رہی تھیں وہی میں بھی بول رہا تھا
 ' نیت کرتی ہوں میں اس نماز کی----"
 تو میں بھی یہی بولا جس پر سب نے ہنسنا شروع کر دیا
 جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں میرا پہلا سکول 'پڑائو اسکول' کے نام سے جانا جاتا تھا پہلی اور چوتھی جماعتیں ہی٘ ' جمّن جناب جی' نے پڑھائ تھیں اور دوسری اور تیسری ماسٹر رزّاق نے
 چنانچہ ہمارے پہلے استاد کا نام تھا' جمّن جناب جی' اگر ان کا کوئ اور نام تھا تو ہمیں معلوم نہیں ہوا کیوںکہ ہم نے جب ہوش سنبھالا تو اس وقت سے یہی نام سنتے آئے ہیں میری سب بہنیں اور بڑے بھائ سب کے وہ استاد تھے اور ہمارے گھرانے سے ان کا لگائو اس حد تک تھا کہ انہوں نے اپنے لڑکوں کے نام بھی میرے اور بھائجان معراج کے ناموں پر رکھے تھے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, December 4, 2011

دیا

دراصل 'دیا' کے عنوان سے ایک دوست نے بلاگ لکھا ہے جس سے مجھے اپنا دیا یاد آیا
   مندر مین دیا جلانا تو ایک قسم کی پوجا ہے یا پوجا کا ایک حصہ- اس ضمن میں فیض صاحب نے شعر لکھاتھا کہ حسینہ کی یاد میں مندر میں شاعر نے بھی دیا جلایا تھا
  ہماری امّاں جان بجلی کے حق میں نہیں تھیں تو بچپن میں ہم لالٹین کی روشنی میں پڑھا کرتے تھے جب پنجاب میں ایک  گائوں میں آئے تو وہاں بھی بجلی نہیں تھی۔ روشنی کا ذریعہ ایک تو وہ دیا تھا جو مسجد میں جلتا تھا جس میں لوگ آنے دو آنے کا تیل ڈال کر حاتم طائ کی قبر پر لات مارتے تھے تو خیر اس وقت کی بات ہے یہی روشنی کا ذریعہ تھا روئ کی 'بتّی' لگا دی جاتی اور اس کی روشنی ہوتی تھی گھر میں  ایک لالتین تھی دوسرا روشنی کا ذریعہ- اورایک دیا بھی ہمیں ملا تھا رات کو پڑھنے کے لئے- کبھی کبھی لالٹین بھی مل جاتی تھی تو زیادہ روشنی مل جاتی پنجاب کے علاقوں میں جو دئے جلائے جاتے ہیں ان میں سرسوں کا تیل جلتا ہے میرے سکول میں لڑکے سرسوں کا تیل ہی سر پہ بھی لگاتے تھے اور اس کا وہی نقشہ ہوتا تھا جو آپ اس انگریزی فلم میں دیکھ چکے ہیں
 Grease
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/