جھکّی کا لفظ دراصل ان لوگوں کے لئے بولا جاتا ہے جو چرس پیتے ہوں یا اس قسم کی منشیات سے لطف اندوز ہوتے ہوں ممکن ہے اس کا مطلب ہو کہ وہ 'نشے' میں ایسے نظر آتے ہیں
اب یہ تو کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس قسم کی حرکات کرتے ہوں عمر رسیدہ تھے اور نہ معلوم کیا نام تھا ہم نے صرف یہی نام سنا تھا۔ ممکن ہے کوَ بیماری بھی ہو کیونکہ اس سے اگلے سال ہی وہ ریٹئر ہو گئے تھے اور میں نے انھیں پانی کا جگ ساتھ رکھے دیکھا تھا میرا اندازہ ہے کہ انھیں ذیابیطس کا مرض لاحق ہو گیا تھا خیر جو بھی ہو ماسٹر جھکی مجھے چاہتے تھے اور میرا لحاط کرتے تھے ممکن ہے میرے والد کے مریض رہے ہوں لیکن ویسے بھی میرے والد ان دنوں میونیسپل کمیٹی کے صدر تھے اور میرا اسکول میونیسپل ہائی اسکول تھا
/ماسٹر جھکّی درمیانے قد کے مگر بڑے ڈیل والے لگتے تھے دھوتی اور قمیص کوٹ ان کا لباس تھا اور سر پہ 'گاندھی کیپ' ہوتی تھی آپ ہمارے پاںچویں جماعت کے ٹیچر تھے ان کی کرسی دروازے کے قریب ہوتی تھی اور میں جس ڈیسک پر بیٹھتا تھا وہ سب سے پچھلی لائن میں تھا لیکن کنارے پہ --اس سے آگے صرف ایک اور ڈیسک تھا ڈیسک کا دوسرا کنارا دیوار کے ساتھ تھا اسی لئے میں اس تاڑ میں رہتا کہ اگر ماسٹر جی کے کان مروڑنے سے بچنا ہو تو دڈیسک کے نیچے گھس جائوں ان کے چہرے کے اتار چڑھائو سے میں سمجھ لیتا تھا جب وہ میرا سوال سلیٹ پر لکھا دیکھ رہے ہوں جونہی مجھے معلوم ہوا کہ سوال ٹھیک نہیں میں چپکے سے ڈیسک کے نیچے کونے میں چھپ جاتا جب وہ نظر اٹھا کے دیکھتے تو پوچھتے 'کہاں گیا' پھر انھیں معلوم ہو جاتا اور وہ اپنے بید سے مجھے ڈھونڈنے کے لئے بینچ کے نیچے بید ہلاتے مگر میں بچ جاتا۔ وہ اپنی عمے کی وجہ سے زیادہ جھک نہیں سکتے تھے اور میں اس کا فائدہ اٹھ جاتا۔ جب تک وہ واپس اپنی کرسی پہ جاتے ان کے دل سے مجھے سزا دینے کا خیال نکل جاتا نرم طبیعت کے مالک تھے رٹائر ہونے کے بعد پتہ نہیں ان کا کیا بناا
پہلی سے چھٹی جماعت تک میرے ساتھ بیٹھنے والے میرے ہمجماعت دوست تھے میرے ساتھ شفیع اللہ ان کے بعد حلیم اور کونے میں اسحاق اور اسی طرح اس سے پہلے جب ٹاٹ پر تھے تو اسی لائن میں یٹھا کرتے یاد رہے کہ سن دو ہزار چھ میں جب میں انڈیا گیا تو اسحاق اور حلیم دونوں سے ملاقات ہوئی تھی شفیع اللہ تو بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے اسحاق ماسٹر رتائر ہوئے اور حلیم وکیل رٹایر ہوئَ ہیں اور آجکل بھوپال میں ہیں اسحاق اسی مکان میں ہیں جس میں انھیں میں نے بچپن میں دیکھا ہے
تو خیر چھٹی جماعت میں ہمارے ماسٹر صاحب ماسٹر فیروز الدین تھے مسلامنی لباس وہی قمیص پاجامہ اور ٹوپی تھا مگر یہ شیروانی باقاعدگی سے پہنتے تھے وہ بھائجان معراج کے بھی استاد رہے تھے اور ان کی بڑی تعری سن رکی تھی اور کچھ ان کے متعلق یاد نہیں پڑتا اس کے بعد ہم پنجاب منتقل ہو گئے
اب یہ تو کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس قسم کی حرکات کرتے ہوں عمر رسیدہ تھے اور نہ معلوم کیا نام تھا ہم نے صرف یہی نام سنا تھا۔ ممکن ہے کوَ بیماری بھی ہو کیونکہ اس سے اگلے سال ہی وہ ریٹئر ہو گئے تھے اور میں نے انھیں پانی کا جگ ساتھ رکھے دیکھا تھا میرا اندازہ ہے کہ انھیں ذیابیطس کا مرض لاحق ہو گیا تھا خیر جو بھی ہو ماسٹر جھکی مجھے چاہتے تھے اور میرا لحاط کرتے تھے ممکن ہے میرے والد کے مریض رہے ہوں لیکن ویسے بھی میرے والد ان دنوں میونیسپل کمیٹی کے صدر تھے اور میرا اسکول میونیسپل ہائی اسکول تھا
/ماسٹر جھکّی درمیانے قد کے مگر بڑے ڈیل والے لگتے تھے دھوتی اور قمیص کوٹ ان کا لباس تھا اور سر پہ 'گاندھی کیپ' ہوتی تھی آپ ہمارے پاںچویں جماعت کے ٹیچر تھے ان کی کرسی دروازے کے قریب ہوتی تھی اور میں جس ڈیسک پر بیٹھتا تھا وہ سب سے پچھلی لائن میں تھا لیکن کنارے پہ --اس سے آگے صرف ایک اور ڈیسک تھا ڈیسک کا دوسرا کنارا دیوار کے ساتھ تھا اسی لئے میں اس تاڑ میں رہتا کہ اگر ماسٹر جی کے کان مروڑنے سے بچنا ہو تو دڈیسک کے نیچے گھس جائوں ان کے چہرے کے اتار چڑھائو سے میں سمجھ لیتا تھا جب وہ میرا سوال سلیٹ پر لکھا دیکھ رہے ہوں جونہی مجھے معلوم ہوا کہ سوال ٹھیک نہیں میں چپکے سے ڈیسک کے نیچے کونے میں چھپ جاتا جب وہ نظر اٹھا کے دیکھتے تو پوچھتے 'کہاں گیا' پھر انھیں معلوم ہو جاتا اور وہ اپنے بید سے مجھے ڈھونڈنے کے لئے بینچ کے نیچے بید ہلاتے مگر میں بچ جاتا۔ وہ اپنی عمے کی وجہ سے زیادہ جھک نہیں سکتے تھے اور میں اس کا فائدہ اٹھ جاتا۔ جب تک وہ واپس اپنی کرسی پہ جاتے ان کے دل سے مجھے سزا دینے کا خیال نکل جاتا نرم طبیعت کے مالک تھے رٹائر ہونے کے بعد پتہ نہیں ان کا کیا بناا
پہلی سے چھٹی جماعت تک میرے ساتھ بیٹھنے والے میرے ہمجماعت دوست تھے میرے ساتھ شفیع اللہ ان کے بعد حلیم اور کونے میں اسحاق اور اسی طرح اس سے پہلے جب ٹاٹ پر تھے تو اسی لائن میں یٹھا کرتے یاد رہے کہ سن دو ہزار چھ میں جب میں انڈیا گیا تو اسحاق اور حلیم دونوں سے ملاقات ہوئی تھی شفیع اللہ تو بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے اسحاق ماسٹر رتائر ہوئے اور حلیم وکیل رٹایر ہوئَ ہیں اور آجکل بھوپال میں ہیں اسحاق اسی مکان میں ہیں جس میں انھیں میں نے بچپن میں دیکھا ہے
تو خیر چھٹی جماعت میں ہمارے ماسٹر صاحب ماسٹر فیروز الدین تھے مسلامنی لباس وہی قمیص پاجامہ اور ٹوپی تھا مگر یہ شیروانی باقاعدگی سے پہنتے تھے وہ بھائجان معراج کے بھی استاد رہے تھے اور ان کی بڑی تعری سن رکی تھی اور کچھ ان کے متعلق یاد نہیں پڑتا اس کے بعد ہم پنجاب منتقل ہو گئے