Monday, April 22, 2013

مسجد اقصےا اور قبۃ صخرا


اللہ تبارک وتعالےا کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ہمیں تینوں حرم کی زیارت کرائ ھرمیںن شریفین تو پہلے جا چکے تھے اللہ نے اس بار مسجد اقصےا کی زیارت کا بندوبست بھی کر دیا
 مسجید نبوی اور مسجدالحرام دونوں سے اس مسجد اقصےا کا معملہ بہت مختلف ہے سعودی بادشاہ اور ان کی دولت و ثروت کے سہارے ان مسجدوں کی خوبصورتی نمائیش دیکھ بھال وغیرہ آنکھون کو چکا چوند پیدا کرتے ہیں مسجد اقصےا کے لئے ایسی کوئ دولت یا بادشاہوں کی پشت پناہی نہیں ہے یوں کہنے کو تو درست کہ شاہ اردنّ اس مسجد کی دیکھ بھال کرتے ہیں لیکن جب میں نے وہاں مسجد کے صندوق میں  پیسے ڈالے تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا بعد میں یہ احساس ہوا کہ مسجد کی یہ حالت کیوں ہے جمعہ کے روز تو مسجد بھری تھی مگر روزانہ کی جماعتیوں میں اتنے نمازی نہیں ہوتے اور احساس ہوتا ہے کہ اس حرم میں کم مسلمان رہتے ہیں اور ممکن ہے مزید کم ہوتے جا رہے ہوں۳۰ چالیس فیصد نمازی تو باہر سے آنے والے
ہوتے ہیں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سترہ مہینے اس کو قبلہ بنا کے نمازیں پڑھتے رہے اس حرم کے لئے بڑی بات ہے
 قبہ صخرا کی خوبصورتی اور چمک دمک مسجد اقصےا کی شان کو کم کردیتی ہے اور کئ مسلمان اس زرین گنبد کو ہی مسجد اقصےا سمجھ بیٹھتے ہیں مجھے یہ خیال آ رہا تھا کہ اس قسم کی یہ پہلی عمارت تھی جو مسلمانوں نے بناڈالی کہاں سے اس کا نقشہ وغیرہ تیار کرایا گیا ہوگا مزید معلومات اس سلسلے مین نہیں ملیں خلیفہ عبد المالک بن سلیمان کو یہ خیال کیسے آیا
یہ بھی معلوم نہیں مگر اس کی نقاشی اور خونصورتی کی شان ہے کہ یہ عمارت شہر یروشلم کی نمائیندہ عمارت لگتی ہے

مسجد اقصےا کے دروازے سے کھڑے ہو کر یہ تصویر لی گئ عموما" مسجد کو لوگ نہیں پہچانتے مگر ہم 'حرم'  میں تھے
"
پاک ہے وہ ذات جو راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے  مسجد اقصےا تک لے گیا جس کے گرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں تا کہ ہم اپنے بندے کو اپنی چند نشانیاں دکھائیں بیشک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہےحضرت ابراہیم کی اولاد میں   جتنے پیغمبر پیدا ہوئے ان میں سے بنو اسرائیل کا قبلہ بیت المقدس تھا اور اسمعیل کا
کعبہ تھا آںحضرت صل اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالےا نے جس طرح تمام پیغمبروں کے متفرق اوصاف و خصوصیات کا جامع اور برزخ بنایا تھا اسی طرح حضرت اسحاق و اسماعیل دونوں کی برکتوں اور سعادتوں کا گنجینہ بھی ذات محمدی ص  ہی کو قرار دیا یعنی حضرت ابراہیم کی وراثت جو دو بیٹوں میں صدیوں سے چلی آ رہی تھی وہ آںحضرت صلعم کی بعثت سے پھر ایک جگہ جمع ہو گئ اور گویا وہ 'حقیقت ابراہیمیہ' جو خاندانوں اور نسلوں میں منقسم ہو گئ تھی ذات محمدی میں پھر یکجا ہو گئ اور آپ کو دونوں قبلوں کی تولیت تفویض ہوئ اور بنی  القبلتین  کا منصب عطا ہوا یہی نکتہ تھا جس کے سبب آںحضرت صلعم کو کعبہ اور بیت المقدس دونوں طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور اسی لئے معراج میں آپ کو مسجد حرام سے مسجد اقصےا -بیت المقدس- تک لیجایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔"
سیرہ النبی جلد سوم


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/


No comments:

Post a Comment