Wednesday, December 31, 2014

نیا سال مباراک

 تمام قارئین کرام کی خدمت میں میری طرف سے سب کو نیا سال مبارک ہو
 اللہ کرے نئے سال میں آپ کی تمام خواہشات پوری ہوں تمام دکھ ختم ہوں اپنی جاب میں ترقّی ملے گھر والے سب خوش رہیں تمام بیماریاں ختم  ہوں
اس موقعہ پر فیض مرحوم کی ایک نظم جو بعد مں موصول ہوئ نقل کر رہا ہوں جناب اروق سلود سے شکریہ کے ساتھ
اے نئے سال بتا تجھ میں نیاپن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے رہ اک بات وہی

آسماں بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمیں 
ایک ہندسے کا بدلنا کوئجدّت تو نہیں

اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسکو معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے

جنوری فروری اور مارچ میں ہوگی سردی
ور اپریل مئ جون میں ہوگی گرمی

تو نیا ہے تو دکھا صبح نئ شام نئ
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئ

بےسبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارکبادیں
کیا سبھی بھول گئےوقت کی کڑوی یادیں

تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی

Please visit my English blog at Saugoree

Tuesday, December 23, 2014

محبّت اور مذھب کا اختلاف

Please visit my English blog at Saugoree

میرے ایک عزیز دوست جگ بیتی او آپ بیتی  'کہانیاں' لکھتے ہیں   میں اکثر ان سے متاثّر ہوتا ہوں کبھی کبھی مجھے بھی ایسا لکھنے کا خیال آتا ہے
   عرصہ ہوا میں اس وقت انگلستان میں کام کر رہا تھا اس وقت وہاں ہسپتالوں کی گروپینگ اور قسم کی تھی خیر ہمارے گرپ کے تمام ہندوستانی اور پاکستانی کسی اتوار کو اکٹّے ہو جاتے اور خوب محفل جمتی چنانچہ اس طرح ہم سب ایک دوسرے سے واقف ہوجاتے تھے اسی زمانے کا ذکر ہے ہمارے گروپ میں ایک نئ ہندوساتی ہائوس فزیشن آئ بڑی سیدھی سادی لڑکی تھی ہمارے سینئر لڑکوں میں ایک صاحب جو مسلمان تھے انھیں وہ لڑکی پسند آئ۔ وہ بھی سیدھے سادھے مسلمان پاکستانی تھے لڑکی کی ایک بات یاد ہے کہ اس کے وارڈ میں ایک سٹروک کا مریض داخل ہوا بچاری پریشان تھی کیا کرے کس طرح اس کی مدد کرے ساری رات اس کے سرہانے بیٹھی سوچتی رہی اور جو اس کی ضروریات تھی نرس کی طرح کرتی رہی  - اب ممکن ہے اس میں کچھ  'ذیب داستاں کے لئے کچھ بڑھا' بھی دیا گیا ہو مگر قارئین کو اس کی سادگی سمجھ آگئ ہو گی  ہوتے ہوتے ان دونوں میں - یعنی جن پاکستانی صاحب کا ذکر کیا ہے ان میں باقاعدہ محبت ہوگئ شادی کی بات چلی  دہلی میں اس کے گھر والے نہ مانے اور پاکستان میں ان کے گھر والے تیار نہ ہوئے اب یہ مجھے یاد نہیں کہ لڑکی نے ہندو سے مسلمان ہونے کا ذکر کیا تھا یا نہیں
 ممکن ہے اور بھی ایسے وقعات ہوتے رہتے ہیں ان میں کچھ اور اسباب ہوتے ہوں لیکن اکثر ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ محبت کو قربان کر دیا جاتا ہے میں یہ ان مغربی ممالک کی بات کر رہا ہوں اور پڑھے لکھے ہوشمند انسانوں کا لکھ رہا ہوں پاکستان میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا ذکر نہیں کر رہا ہوں

Saturday, December 6, 2014

داڑھی کا فیشن یا رواج

جب ہم کالج میں تھے تو کلین شیو کا رواج تھا
لڑکے شیو 'چھوڑ' دیتے جب امتحان سر پہ آتا یا جب ظاہر کرنا ہو کہ  'ڈیپریشن' ہے یا محبت ہو گئ ہے اور یہ فلموں سے ہماری تہژیب  میں داخل ہوتی ہے چنانچہ ہماری جوانی کے زمانے ہیرو کلین شیو ہوتا تھا اور داڑھی تب بڑھاتا تھا جب ہیروئن سے ناراضگی ہو یا کوئ اور مشکل آ پڑی ہو جب 'فراق' کے گانے کا موقعہ ہو وغیرہ وغیرہ اب آجکل یہ زمانہ آیا ہے کہ ہیرو کی شیو نہیں کی ہوتی اور جب 'مشکل' آئ ہو تو تھوڑا سا مزید داڑھی کو بڑھا دیا جاتا ہے یعنی اب ہیروئن جب کیس کرتی ہے تو ہیرو کی شیو نہیں ہوئ ہوتی یہ رواج اب ایسا ہو گیا ہے کہ جوان لوگ باقاعدہ دارھی ایسی بناتے ہیں جیسے شیو نہیں کی ہوئ
وقت وقت کی بات ہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/