ظاہر ہے کہ جب ھندوستان سے آیا تو پنجابی نہیں بول سکتا تھا لیکن دو تین ماھ کے اندر ہی میں سمجھنے لگا تھااوردوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے ساتھ پنجابی بولنی بھی شروع کر دی مگر سکول میں چار سال اردو ھی بولتا رھا کچھ جھجک سی تھی جسے میں دور نہ کر سکا۔ سکول میں سب لوگ مجھے اردو کی ڈکشنری کہتے تھے جس لفظ کا تلفظ معلوم کرنا ہوتا تھا تو ماسٹر لوگ بھی مجھی سے پوچھتے تھے کوٹلہ گاِوں میں جو بچوں کے کھیل ہوتے تھے وہی میں بھی کھیلنے لگا اور کچھ وہاں کر ہی نھیں سکتا تھا دو سال ختم کیے اور آٹھویں کا امتحان دینا تھا یہ ورنیکلر فائنل کہلاتا تھا ساری کلاس لالہ موسی ا گئ امتحان ایک ہفتہ کا رہا وہاں سے واپسی پہ میں دوسرے بچوں کے ساتھ گجرات رات رکا وہاں ایک سکول میں میرے ہم جماعت کا ایک بڑا بھائ تھا اس کے ساتھ رات کو سنیما دیکھا فلم کا نام -گاءوں کی گوری- تھا دوسرے روز کوٹلہ واپس ہونے کا پروگرام بنایا تو معلوم ہوا بسیں نہیں جا رہیں بارش کی وجہ سے دلدل اور نالہ بھنڈر ملکر مشکل پیدا کر رہے تھے تو ہم چار لڑکوں نے ملکر ایک ٹانگہ کیا اور چل پڑے مگر ٹانگہ پیدل چل رہا تھا کیوںکہ ٹانگہ والے کے لیے گھوڑے کو چلانا دوبھر تھا اسے پیدل چلنا اور گھوڑے کو چلانا پڑ رہا تھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی کوٹلہ تین میل تھا اور شام ہو چلی تھی ٹانگے والے کو واپس اپنے گائوں جانا تھا تو وہ ہمیں جواب دے گیا اور کچھ پیسے واپس کر کے چھٹی کی
ہم لوگوں نے ایک گھوڑی کرائے پر لی اور بڑی مشکل سے غروب آفتاب کے وقت تک میں گھر پہںچا
امتحان کا ایک واقعہ سناتا چلوں ھمیں کمزور طلبا کی امداد کے لیے امتحان مین ایک طریقہ سکھایا گیا تھا جس کو ہم نے استعمال بھی کیا۔ وہ یوں کہ مشکل سوال کو ایک چھوٹے سے کاغز پر حل کر کے قلم کے اندر گھسا دیتے اور پھر کمزور لڑکا ہوشیار لڑکے سے امتحان میں قلم-وہ سروٹ کے کانے سے بنی ہوتی تھی- مانگتا اور انوجیلیٹر وہ قلم کمزور لڑکے کو پکڑا دیتا اس طرح کام بن جاتا
ھم سولہ لڑکوں میں سے بارہ پاس ہوے تھے خیر اس کے بعد سکول ھائ ہو گیا تو نویں میں داخل ہو گیے ستمبر اکتوبر میں کلاسیں شروع ہوئں یہ ۱۹۴۶ کی بات ھے پاکستان ھندوستان کا بٹوارہ ہونے والا تھا جس کی تیاریاں چل رہی تھیں میرے ساتھ جو ہندو اور سکھ لڑکے تھے ان میں کوئ گڑ بڑ نہیں تھی مگر افرا تفری بیچینی وغیرہ شروع ہو گئ ایک ماسٹر ھمارے لیے آئے وہ ماشا اللہ ایم اے تھے اور ھمارے ھیڈ ماسٹر بی اے بی ٹی-ماسٹر عبدالعزیز تھے بہت اچھی طبیعت کے تھے ایم اے ریاضی میں کرنا ۱۹۳۳ میں مسلمان کے لیے آسان نہیں تھا مگر ماسٹر بشیر احمد شاہ بڑی خوبیوں کے مالک نکلے دو سال ھم نے ان سے تعلیم حاصل کی ان کا الگ حال لکھوں تو بہتر ہوگا۔ بہر کیف ۴۷ آیا اور ہمیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لمبی کہانی ہے جو میں نے انگریزی کے بلاگ میں لکھی ھے اس کا کلک بعد میں لگائون گا ابھی مجھے سیکھنا ھے ایک اور ماسٹر لطیف سائنس کے لیے آءے چنانچہ دسوین ختم کرتے کرتے عملہ تقریبا" پورا ہو گیا تھا مگر طاہر ھے کہ ہماری پڑھائ میں بہت حرج ہوا تھا بٹوارہ کی گڑبڑ وغیرہ اور پھر کشمیر کی جںگ شروع ہو گئ ۱۹۴۸ میں جب گجرات امتحان دینے گئے تو پھر ہم سولہ لڑکے تھے اور بارہ پاس ہوے اس کے بعد تو مجھے واقعی لاہور جانا تھا زمیندارہ کالج گجرات میں تعلیم ایسی نہیں تھی کہ میرے مستقبل پہ پوری اترتی میٹرک کا نتیجہ نکلا تو میری پوزیشن کلاس میں تیسری تھی مگر سب لڑکے سیکنڈ اور تھرڈ کلاس میں تھے فرسٹ ڈویژن کسی کی بھی نہیں تھی میرے بڑے بھائ نے ایم بی بی ایس کیا تھا ان کے پاس لاہور گیا کالج میں داخلے کے لیے
اب اتنے عرصہ کے بعد میں پھر شھر میں آ رہا تھا سب کچھ نیا تھا اور میرے لیے بڑی کشش رکھتا تھا
لاہور ۴۸ سے ۵۹ تک رہا چنانچہ اس کی داستان الگ لکھوں گا اپنے ماسٹر صاحب کا قصہ پہلے سنالوں اللہ مجھے معاف کرے کیوںکہ اس میں انکی کچھ برائ کا سامان بھی پیدا ہوگا۔
Please visit my Englishblog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
please keep writing...i m waiting for next
ReplyDelete