ککرالی میں پھر بھی گائوں کا ماحول تھاپنجابی گائوں کے بچے ماشا اللہ مضبوط جسم کےمالک ہوتے ھین اس لیے ماسٹر ان کو جسمانی سزائیں بھی سخط دیتے ہیں جو ان کے لیے معمولی ہوتی ہوںگی مگر میں ان سزائوں سے ڈرتا تھا
ڈنڈے کا استعمال برا نہیں سمجھا جاتا تھا سکول میں یہ سنا تھا
چار کتابّاں عرشوں آئیاں پنجواں آیا ڈنڈا--اتنی پنجابی تو آپکو سمجھ آ سکتی ہے
پنجابی میں اس چھوٹے ڈنڈے کو 'سوٹی' کہتے ہیں تو ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب 'سوٹیان' گن کے لگاتے تھے۔ اگر بچے نے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا اور وہ 'مس' ہو گئ تو ماسٹر بولے
'چل دو ہور ودھ گیّاں نی' یعنی ایک مس ھوئ تو دو مزید بڑھ گئں
اس طرح ایک لڑکا سکول چھوڑ گیا اس کے سر پہ چوٹ لگائ گئ تھی۔ نہ معلوم اس کا کیا بنا
کان پکڑنے اور دوسری سزاءوں کا انگریزی میں پہلے لکھ چکا ہوں پنجابی سکولوں مین کان پکڑنے کا مطلب 'مرغا بننا' ھے آٹھویں جماعت آخری کلاس سینیئر ہوتی تھی اس کے ماسٹر ہمارے ایک مولوی احمد دین مرحوم ہوتے تھے۔ ایک لڑکا ذرا غیر ذہین سا تھا ماسٹر احمد دین اسے برا بھلا کہنے کے لیے یوں کہتے
اوئے بشمبر داس تیرا ستّیاناس
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
main ne bhi bohatdande khaaye hain
ReplyDelete