Monday, December 28, 2009

لاھور شھر اور اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ

در اصل ھوا یہ کہ میں آیا تھا گاءوں کے اسکول سے اور میری معلومات صفر کے برابر ھوںگی۔ جیسا میں نے پہلے کھا تھا شھر کا اور پھر لاہور جیسے شہر کا مجھ غریب کے لیئے اندازہ لگانا مشکل تھاتو وھی ہوا میں نے پہلے تو کالج کے داخلے کی کوشش میں بھائجان معراج کے ساتھ سایئکل پہ چکّر لگائے۔ گورنمنٹ کالج میں داخلہ نا ہو سکا نان میڈیکل میں تو اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا پھر جیسا پہلے لکھ چکا ہوں فیس داخل کرانے ابھی جانا تھا تو بھائجان کے دوست میرا مذاق اڑانے لگے
تم اور انجینئرنگ کروگے؟ ہتھوڑا اٹھا سکتے ہو؟
اب یہ ہے کہ میرا کیا قصور تھا مین بہت چھوٹا تھا اور ابھی پانچ فٹ تک قد نھیں پہنچا تھا تو وہ بھی حق بجانب تھے۔ خیر انھوں نے اس قسم کی باتین کرتے کرتے مجھے یقین دلادیا کہ یہ لائن میرے لیئے ٹھیک نھیں تو جب فیس داخل کرانے کلرک کے پاس گیا تو اسے کہا میں سبجیکٹ تبدیل کرنا چاہتا ہوں اس نے کہا کوئ بات نھین یہ لو درخواست اور کر دو اور اتنی فیس لگ جائے گی
چلو جی اللہ اللہ خیر سلّا میں میڈیکل سبجیکٹس میں داخل ہوگیا
دو سال اسلامیہ کالج میں گزارے مختصرا" بتاتا ہوں اس وقت ھمارے کالج میں امتیاز احمد اور خان محمد ابھی سٹوڈنٹ تھے اور ان کو میں کرکٹ کی پریکٹس کے وقت دیکھا کرتا تھا۔ امتیاز کی ھٹیں کالج کی بلڈنگ پاس کرکے باھر سڑک تک جاتی تھیں ادھر گورنمنٹ کالج میں محمودالحسن اور وقار حسن تھے چنانچہ انٹرکالجئیٹ پنجاب یونیورٹی کی چیمپِئنشپ میں یہی دو کالج آخری مقابلے میں آتے اور ان کی خوب لگتی تھی کہتے ہین کہ جیسے کیمبرج اور آکسفورڈ کی بوٹ ریس ہوتی تھی ایسا مقابلہ تھا تو جب فائنل ،یں وقار لاسٹ وکٹ تک قائم تھا اور صرف پانچ رن اور چاہیئے تھے جیتنے کو خان محمد کی ہر بال پر لگتا تھا اب آئوٹ ھوا یا اب چوکا لگا کم از کم آدھا کالج وھاں آیا ھوا تھا بک اپ کرنے۔ ھم بھی شامل تھے ان میں اب جو وقار کے بجائے دوسرا کھلاڑی آیا تو سب اپنی مٹھّیاں بھینچے بیٹھے تھے اور وہ وکٹ جب خان کی گیند ہر اڑی ھے تو لڑکے پاگل ہو گئے خان محمد کو اٹھا لیا گیا اور اسی طرح کاندھوں پر اٹھائے ہوے کالج تک لے آئے ایک دن کی چھٹّی مانگی گئی اور مل گئ کیا زمانہ تھا وہ بھی- بہر کیف اسی طرح دو سال گزرے ھاف ٹائم کے وقت درس کا پیرئڈ ہوتا تھا جس میں علّا مہ علائو الدین صدّیقی درس دیا کرتے تھے ان کا ایک اپنا ہی طریقہ اور سٹائل تھا بولنے کا مگر ھم سنتے رھے ایک اور واقعہ سناتا چلوں
ہر کالج کی طرح اردو اور انگریزی کی ڈیبیٹ ہوتی تھیں ایک ڈیبیٹ نھین بھولےگی
ٹاپک تھا "ھند کے شاعرو صورت گرو افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ھے سوار"
اب جناب یہ اس زمانے کی بات ھے جب
بیگم سلمےا تصدّق حسین پنجاب کی منسٹری میں تھین اور بطور جج اس ڈیبِٹ مین مدعو تھین اور سب یہ بھی جانتے تھے کہ مشہور شاعر اختر شیرانی باقاعدہ اپنی معشوق کا نام شعر میں لیتے تھے اور ایسا ہوا کہ ایک لڑکے نے--نا معلوم اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ےا اسے معلوم نھین تھا کہ سلمےا وہاں ہونگی-- انکا وہ شعر بھی سنا دیا جس میں سلمےا نام لیا گیا تھا
بس پھر کیاتھا بیگم تصدّق حسین اٹھین اور پھنپھناتی ہوئ کالج سے باہر یہ جا وہ جا اور ھال پر سنّاٹا چھا گیا اس کو توڑ نے کے لیئے-خدا کا شکر ھے وھان ایک شخصیت موجود تھی وہ محفل کو بحال کرنے میں اچھی ثابت ہوئ اور وہ تھے ھمارے پرنسیپل ڈاکٹر تاثیر- انھون نے چند ہی لمحوں مین محفل کو اپنے مخصوص قہقہوں سے گل وگلزار بنادیا

واہ واہ کیا زمانہ تھا وہ بھی


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

1 comment:

  1. Very interesting. What a reminder of Khan Mohammad and Imtiaz Ahmad,,,,,,

    Very very sweet memories

    ReplyDelete