Thursday, January 28, 2010

لاہور سے پشاور تک

ھاوئس جاب ختم کر کے سعید انگلینڈ چلاگیا فروکی امریکہ مین اور ظہیر پاکستان میں جاب کے لیئے نکلے۔ ظہیر نے آرمی مین ایپلائ کیا تو میں نے بھی کردیا مگر پشاور میڈیکل کالج نیا کھلا تھا اور وہ گورمنٹ جاب نھیں تھی تو میں نے وہاں بھی درخواست بھیج دی۔ اب خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پشاور والوں نے آرمی والوں سے پہلے بلا لیا تو میں فزیالوجی میں سینئر لیکچرار ہو گیا ظہیر آرمی میں چلا گیا وہ زمانہ خط لکھنے کا تھا تو ھم سب ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے پشاور یونیورسٹی نئ بنی تھی اور امریکن طریقہ  یا ماڈل پر بنائ گئ تھی تمام کالجوں اور یونیورسٹی ڈپارٹمنٹس وغیرہ کی بلڈنگز نئ نئ تھیں رہائش کا پروگرام ٹیچرز کے لیئے یوں تھا کہ بنگلے بنائے گئے تھے  پی ٹائپ پروفیسروں کے -آر ٹائپ ریڈر یا اسسٹنٹ پروفیسروں کے ایس ٹائپ سینئر لیکچرر اور جے ٹائپ جونئر لیکچرر کے 
تو اس طرح ھم پانچ چھڑے ڈاکٹر "ایس ٹونٹی" مین آ اکٹھّے ہوے میں عبدالرحمان خالد اظہر اختر اور بعد مین سلیم حیات آکے ملےایک نوکر کھانا پکانے اور دوسرا اوپر کے کام کرنے کو رکھا  گیا یہ دوسرے والے کا نام تھا   کالے خان اور بڑے مزے کا آدمی تھا۔ مثال کے طور پہ- ایک روز ھم لوگ واپس آئے تو دیکھا کہ چھوٹا تالا لگا ہوا ہے کالے خان نے بڑا تالا پیچھے لگایا تھا یعنی ہمارے کہنے کے بالکل الٹ تو پوچھا سامنے کے دروازے میں بڑا کیوں نہیں لگایا
جواب   "کوئ لے جا سی نا جی" اسے یہ فکر تھا کہ بڑا تالا چوری ہو جائے گا
ہم لوگ دیر سے گھر آئیں تو وہ بیٹھا انتظار کرتا تھا کھانا کھلا کے پھر سوتا تھا
 اسے صبح صبح مشکل پڑتی تھی کیوںکہ وہ ٹوتھ پیسٹ اور شیونگ کریم کی ٹیوبز میں فرق نہیں پہچان سکتا تھا تو آپ جان سکتے ھیں کہ ہم اسے نکال تو نھیں سکتے تھے
پشاور شہر میں دو  ڈھائ سال بڑے اچھّے گزرے تھے جہاں کہیں کوئ موسیقی کا پروگرام ہوتا ھم وھاں مدعو ہوتے کچھ اتّفاقات ایسے بن گئے تھے کہ ھمارا نام ایسی مگفلوں میں عام ہو گیا تھا ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پشاور ائر فورس یعنی پی اے ایف میں ایک صاحب میرے جاننے والے جو خود بھت اچھّا گاتے تھے اور ان کی وجہ سے بھی مجھے بڑی آسانی تھی پی اے ایف میں ھارمونیم اور طبلے والے صاحبان بھی انہیں کی وجہ سے ہمیں خیبر میڈیکل کالج کے موسیقی کے پروگراموں کے لئے مل جاتے تھے
کالج میں یہ احساس ہوا کہ ٹیچنگ کے لئے مزید ڈگریوں کی ضرورت ہوگی مگر ایک خرابی یہ تھی کہ پولیٹیکل اور سفارشی ایپوئٹمنٹس ہوتی تھیں جو ھمارے بس کا روگ نہیں تو ڈھائ سال بعد بھاگ لینا ھی بہتر سمجھا مجھے دو سال موقعہ ملا تھا نیورالوجی یعنی نیوروفزیالوجی پڑھانے کا اور میرا نیورالوجسٹ بننے کا پکّا ہو گیا ادھر مجھے اپنی قوّت سامعہ میں بھی کمی محسوس ہو گئی تھی تو آخر پاسپورٹ بنوانے کا پروگرام بھی بنا لیا یہ کوئ آسان کام نہیں تھا ایک پورا سال لگا بنواتے ہوے وہ بھی قصّہ لمبا ہے مگر صرف اتنا لکھوںگا کہ اس کے بعد میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ کبھی کسی کلرک کو مونہ  نہیں لگاءوںگا اللہ بچاءے ان دفترون سے اور اور ان کے کلرک طبقہ سے اس دوران میں طریقہ یہ بنایا کہ ڈی ٹی ایم ایچ میں داخلہ لیا اس سے کچھ پاءنڈ ملنے کی درک لگی کیونکہ  باہرجانے کا اور کوئ بہانہ نہیں تھا نو ابجیکشن سرٹیفکیٹ کے لئے کراچی میں کئ دن ٹھرنا پڑا خیر وہ سب اب تو بھول چکا ہوں خدایا کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے تھے
چلیئے اب ھم آپ کو انگلستان لے چلتے ھیں۔

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, January 21, 2010

ہاءوس جاب میو ہسپتال لاہور

ایم بی بی ا یس پاس کر کے ایک سال ہاءوس جاب کا لگایا جاتا ہے میں ظہیر فروکی اور سعید مع اور حضرات کے اکٹّھے تھے سعید کا ایک کزن چلڑرن وارڈ میں داخل  ہوا گیارہ سال کا لڑکا بھلا کیا جانتا ھے مگر اس کی باتیں ابھی یاد ھیں اسے لیوکیمیا تھا اور دن گنے جا چکے تھے میں ظہیر اور سعید اور سعید کے انکل سب اس کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے خون کی بوتلیں چڑھائ جاتیں لیکن کب تک اور آخر وہ دن آ گیا۔ ساںسیں اکھڑنے والی تھین ھم اس کے بستر کے گرد بیٹھے تھے اس نے باپ سے کہا سورہ یاسین پڑھیں وہ آںکھوں میں آنسو لیئے پڑھتے جا رہے تھے اور بچّے کی آںکھیں بند ہوتی جا رہی تھیں ھم سب کی آنکھوں میں آںسو تھے اور اس طرح اس نے داعیء اجل کو لبّیک کہا یہ لمحہ مجھے اسی طرح یاد ھے جیسے اس وقت تھا اور صرف اس لیئے اس کو قلمبند کرنا چاھا اور لاہور کے متعلّق بہت کچھ لکھا جاسکتاہے مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Monday, January 18, 2010

کے ای ایم سی ۔ نمبر۲

مزید تصویر پہلے جما لوں پھر لکھوںگا

پٹیالہ بلاک کالج کا دفتر ھے جس کی عمارت کو ھم "کالج" کی عمارت کے طور پر سمجھتے ھیں دوسری تصویرایک چھوٹے سے گراونڈa کی ھے جس میں بائیں طرف ایک پگڈنڈی سی ھے جو پٹیالہ بلاک سے باقی کے بلاکس کو جارہی  ھے کچھ منچلے اس کو "لورز لین" کہ کر اپنا جی خوش کر لیتے ھیں ورنہ اس میں کوئ ایسی خوبی نھیں تھی سامنے بلڈنگ فارماکولوجی کا بلاک ھے ۱۹۶۰ میں بہت سے پروگرام اسی گراونڈ میں ھوے تھے دوسری بلیک اینڈ وہاِٹ تصویر اعجاز احسن کی لی ھوئ ھے--جی اعتزاز احسن کے بھائ ھمارے کلاسفیلو اور نمبر دو بیسٹ گراجوءیٹ -- اس تصویر کا کمال یہ ہے کہ ایک کلاس روم کی ھے جہاں سب "لڑکے" کلاس شروع ہونے سے پہلے خوش گپّیوں میں مصروف ھین اور مجھے دم کے دم میں اس کو دیکھکرپچپن سال پہلے کا وقت سامنے آ کھڑا ہوتا ھے اور ایک ایک 'لڑکا' نظر آ رہا ہےچونکہ میجر جنرل ظہیر سے آپ کا تعارف ہو چکا ھے تو صرف اسکا بتاتا ھوں سب سے پچھلی لائن میں دائِن جانب سے پہلا بیٹھا ھوا  ظھیر ھے اور جو کھڑا ھے وہ اب ریٹایرڈ پروفیسر سعید احمد ھیں سڈنی یا ایڈیلیڈ میں کہیں-پیڈئٹرک یورالوجی کے
 سعید ھمارے بہت عزیز دوستوں میں سے ھے  صرف اتنا کہوںگا کہ ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۱ کو جب میں پہلی بار پاکستان سے انگلینڈ پنہچا تھا تو سیدھا سعید کے پاس ھی گیا تھا ظہیر کے ساتھ بیٹھے ھوے منظوریعنی لفٹننٹ جنرل منظور ھین جو آجکل پاکستان کالج آف پتھالوجی کے بانی-و-صدر ھیں اس گرپ میں اب کئ اگلے جہان کو سدھار چکے ھیں جن کے لئیے ھم نے دعائے مغفرت کی تھی جب ھم ۲۰۰۸ میں اکٹّھے ھوے تھے
حال ہی میں معلوم ہوا کہ ظہیر صاحب امریکہ آ رہے ھین تو زلفی کے ھاں دو تین روز ھماری گپ شپ رہے گی ان کا ایک بیٹا ٹیکساس میں کارڈیالوجسٹ ھے پہلے وہ اس کے پاس جائنگے اب ایسا ہے کہ گو میں امریکہ میں عرصہ سے ہوں مگر زلفی ابھی تک "ڈیڈی" کا رول کر رہا ہے اسکے دو بچّے کنٹکی میں ھین تو وہاں آسانی زیادہ ھے ویسے بھی وہ زرا سینٹرل سی جگہ ھے اور نزدیک ہی سنسناٹی ھے جہاں ایک اور کلاس فیلو رھتے ھین اس لئیے بھی زلفی کا گھر بہتر رہتا ہے۔ اسکو ڈیڈی کا یا پتاجی کا نام جو دیا گیا تھا اس کی وجہ تسمیہ اپنے انگریزی والے بلاگ میں لکھ چکا ھون صرف یہی نہیں کہ زلفی عمر میں ھم سب سے ایک سال بڑا تھا بلکہ اس لیئے بھی کہ ھر ماہ اسے وظیفہ-تقریبا' -۷۵ روپے ملتا تھا یہ ہمارے لئیے بڑی رقم ہوتی تھی اور زلفی اس وقت بھی 'دریادل' اسی طرح تھا
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, January 13, 2010

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج {یونیورسٹی] لاہور

      2004                                                                 1956
ہم دوہزار دس میں داخل ہو چکے ھیں آج سے ایک صدی پہلے لاہور میڈیکل کالج کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا نام دیا گیا تھا اس وقت وہ "سکول" تھا اس سے پچاس برس پہلے اس سکول کی بنیاد رکھی گئ تھی اس پس منظر میں دیکھا جاءے تو یہ سال بڑا اھم ھے یعنی اس کالج کی ایک سو پچاسویں سالگرہ منانے کا پروگرام ہونا چاھئے ھم نے ابھی تک سنا نھیں مگر ھم نےسو سالہ برسی ۱۹۶۰ میں مناِئ تھی بڑے جشن ہوئے تھے چنانچہ میں اسی انتظار میں ہوں کب اطلاع ملے گی ھم نے اس میں ۱۹۵۲ میں قدم رکھا تھا اور ۱۹۵۹ میں اس کو اور لاہور کو خیر باد کہاپھر خیبر میڈیکل کالج سے ۱۹۶۰ میں لاہور کا چکّر لگانا پڑا تھا
پانچ سال تو پڑھائ میں گزرتے ھیں پھر ایک سال ھاءوس جاب کا اس کے بعد دوسری جاب وغیرہ ڈھونڈنےمیں لگے مگر لاہور چھوڑتے ہوءے تکلیف ہوئ تھی خیر ھم جب داخل ہوءے تھے تو ۱۱۰ کی کلاس ہوا کرتی تھی اس میں پانچ فیصدی لڑکیاں ہوتی تھیں دو گروپ یا بیچ بناءے جاتے اے اور بی میرا نام چوںکہ و سے شروع ہوتا ہے تو میں آخری لڑکوں مین تھا اس لیئے میرے ساتھی سارے وہ ھیں جن کے نام ایس سے لیکر زیڈ تک والے ھیں { جن کو آپ یہاں دیکھ رہے ھیں }ھم لارنس گارڈن میں تھَے تو میں نے کہا ھم اس کالج میں پانچ سال اکٹھے رہیں گے         یہ ۱۹۵۲ کی بات ھے تو اس وقت ھم نے اپنی مضبوط یاری کا عہد باندھا وہ اللہ کے فضل سے آج تک قائم ھے ہم سب کام اکٹھے کرتے تھے صرف آصف کا نام پہلے گروپ کا ھےیعنی اے بیچ کا تو وہ ہمارے ساتھیوں میں بعد میں آیاتھا یعنی ھم پانچ میں 
اور اس وجہ سےاسکا نام ھمارے ناموں میں شامل نھیں ہوتااسکو ھم اپنے ساتھ                                                                                              کہ کر رکھتے ھیں     "foreigner"                 
 {لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیں کم پیارا ہےیا اس کا خیال نہیں رکھا جاتامگر
اس تصویر میں ہم پانچ ھیں پہلے میں ھوں پھر فروکی یعنی ڈاکٹر محمد سرور فاروقی پھر شیخ یعنی میجر جنرل ظہیرالدین اسکے بعد زلفی یعنی ڈاکٹر ذوالفقارحیدر اور سب سے بائیں طرف بھٹّہ یعنی ڈاکٹر ظفر اقبال بھٹّہ کھڑے ھیں یہ ۲۰۰۴ کی تصویر ھے اور اس میں آصف شامل نھیں یعنی ڈاکٹر آصف علی چوہدری اس کی وجہ دراصل یہ تھی کہ وہ ہمارے درمیان ۱۹۵۶ والی تصویر میں نھین تھا ورنہ وہ اس وقت ھمارے ساتھ تھا جو دوسری تصویر میں وہی ترتیب آپ دیکھیں گے ھمارے کھڑے  (Starting from myself then Frooki---  from right to left)ہونے کی

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, January 7, 2010

اسلامیہ کالج سے گورنمنٹ کالج تک-لاہور

در اصل ایک اور اسلامیہ کالج تھا جس کی وجہ سے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کہنا ضروری سمجھا جاتا تھایہ کالج انجمن حمایت اسلام لاہور کے زیر اہتمام بنایا گیا تھا
گورنمنٹ کالج میں بی ایس سی میں داخلہ لیا توباٹنی زوآلوجی کے سبجیکٹ تھے اس وقت کا پنجاب یونیورسٹی کا زوالوگی کا میوزیم ایک بڑے سے کمرے میں تھا اور میری رگ تجسّس زوالوجی میں پھڑک اٹھّی چنانچہ اس میوزیم کے سارے سپیسیمن مجھے یاد ہو گئے تھے
خیر دو سال وھان خوب گزرے وقار حسن اور محمودالحسن ابھی وھیں تھے تو اب ان سالوں میں گورنمنٹ کالج نے یونیورسٹی چیمپینشپ جیتی کیونکہ اسلامیہ کالج سے امتیاز اور خان محمد جا چکے تھے کالج کے ڈراموں میں سے ایک یاد ھے
"She stoops to conquer"
مسٹر اسلم اظہر اس وقت ایم اے میں تھے اور ان ڈراموں میں حصہ لیتے تھے بعد مین اسلم اظہر انگلش کے نیوز کاسٹر ہوے اور ماشا اللہ قران مجید کاترجمہ پکتھال صاحب والابھی انھوں نے پڑھا ہے اور اگر آپ کو ملے تو ضرور سنئے بہت خوب پڑھا ہے
اب ایک اردو کی ڈبیٹ کا اور قصہ سن لیں اس کا ٹاپک تو یاد نہیں رہا مگر ایک صاحبہ جو قد میں زیادہ نہیں تھیں اور مائک تک پہنچنے کے لیئے انھیں اپنی ایڑیوں کو اٹھانا پڑ رہا تھا وہ با ر بارصدر کو مخاطب کر کے کہتی جا رہی تھین
صاحب صدر جان کی امان پائوں تو عرض کروں بعد مین ان سے مختصر ملاقات یوں ہوئ کہ انھوں نے کچھ نیںد آور گولیاں زیادہ کھا لی تھیں اور میں اس وقت فائنل ایم بی بی ایس میں تھا --خیر   بی ایس سی کرنے کے بعد ہمیں کنگ ایڈورڈ میڈیکل میں داخلہ ملا اب تو گورنمنٹ کالج اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج بھی دونوں یونیورسٹیاں بن چکے ھیں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/