حدیث میں ھے کہ مومن کو مومن سے تین دن سے زائد ناراض نہیں رہنا چاھئے
یہ درست ھے کہ ساتھ رہتے ہوئے دو انسانوں میں کبھی اوںچی نیچی بات ہو ہی جاتی ھے دوستی رفاقت اور ملنا جلنا مسلمانوں میں اتفاق اور یکجہتی کا سبب ہوتا ہے
یہی چیز خاندان کے اندر اور بھی مظبوط ہونی چاہئے تو اس کے لئے اللہ نے قطع رحمی کو حرام قرار دے دیا۔ مگر عام دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ لوگ دوستوں سے تو پھر بھی کچھ تعلق قائم کر لیتے ہیں بات آئ گئ ہو جاتی ہے معاف کر دیا جاتا ہے لیکن اپنے رشتہ داروں میں جب ایسی بات ہو جائے تو عمر بھر کا طعنہ بن کے رہ جاتی ہے اور کوئ فریق دوسرے فریق کو معاف کرنے پہ آمادہ نہیں ہوتا
اللہ تعالی ا نے اس رشتے کی قوت بڑھانے کے لئے سو بہانے اور طریقے رکھے ہیں مگر اکثر گھرانوں میں {میرے اپنے گھرانے سمیت -ان کا اثر نظر نہیں آتا میرے دیکھنے میں ایک اور بات یہ بھی آئ ھے کہ ناراض شدہ کے بچوں میں یہی ناراضگی بغیر وجہ جانے چلتی رہتی ہے اور خواہ مخواہ دوری کا سبب بن جاتی ہے عام نکاح خواں ایک آیت ضرور پڑھتے ہیں سورہ نساء کی پہلی والی جس میں اللہ نے رحم کے رشتہ جوڑنے کا ذکر کیا ہے اس سے مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم کہنے کو تو کہ لیتے ہیں کہ ھاں میں مسلم ہوں مگر اپنی خواھشات کو اللہ کے حکم پر ترجیح دئے جاتے ھیں تو پھر کیا ہم نے واقعی اپنی خواھشات کو اللہ کے حکم کے تابع کر دیا ہے؟ --
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment