جب شروع میں پاکستانی سیلاب کی خبریں آئیں تو میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ اب لٹیروں کی عیش ہے لوگ لٹے پٹے گھروں کو چھوڑ کر نکلیں گے اور یہ بدمعاش ان گھروں میں گھس کر سامان لوٹیں گے پہلی بار سیلاب کی خبریں ۱۹۴۸ میں سنی تھیں جب لاھور میں یہی دیکھا تھا اس وقت یہ سن کر میں بہت حیران ہوا تھا کہ لوگ اتنے بے شرم اور شیطان کے چیلے بھی ہو سکتے ہیں اس کے بعد جب بھی سیلاب آئے ہیں یہی خبریں سننے میں آئ ہیں یہ پتھر دل اور شقی القلب لوگ سوائے مال کی حوس کے اور کچھ نہیں جانتے اپنوں سے بات ہوئی تو معلوم ہئوا کہ لوگ کرائے کی کشتیاں لیکر لوٹنے جاتے ہیں اور مال اکٹھا کرتے ہیں لیکن سندھ میں تو حد ہی ہوگئ ہے وہ ان قافلوں پہ باقاعدہ ڈاکہ ڈالتے ہیں اور بندوقوں وغیرہ کے زور پر پیدل لوگوں سے مویشی بھی چھین لیتے ہیں اور جو ٹرکوں یا دوسری گاڑیوں میں جا رہے ہوتے ہیں ان سے بھی زیور اور نقدی لوٹتے ہیں
یہ کیسے مسلمان ہیں اور کیسے بے درد انسان ہیں ادھر لوگ سیلاب کی آفت سے مجبور ہو کر نکلتے ہیں گھر ویسے برباد ہئوا ہے اور اب سامان بھی گیا نقدی بھی گئ غریبوں کے مویشی بھی گئے ان شیطان کے چیلوں نے اپنا ظلم شروع کر رکھا ہے وہ جو اللہ تعالےا نے سورہ والتّین میں کہا ہے یہ اسفل سافلین' لوگ ہیں
انسان کس حد تک گر جاتا ہے سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment