Wednesday, February 29, 2012

انتیس فروری

 ایسی تاریخ چونکہ چار برس کے بعد آتی ہے اس لئے کچھ لکھنا چاہیئے وقت زیادہ نہیں مگر اتنا ہے کہ صبح سفر پہ نکلنے سے پہلے کچھ کہتا چلوں ابھی تو بچوں کے پاس جائیں گے لیکن ارادہ عمرہ پہ جانے کا ہے تو مارچ کے وسط مین واپسی ہوگی کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں ٹیکے لگوائو ویزا لگوائو اور پھر ہوٹلوں کا چکّر اتنے مہنگے ہو چکے ہیں کہ لگتا ہے سعودی گورنمنٹ غریب آدمیوں کو حج سے محروم کرنے کا پورا انتظام کر رہی ہے اللہ سے دعا کرنی ہے کہ مسلمانوں کو عقل دے اور اپنے خاندان اور دوستوں کے لئے تو کرنی ہی ہیں بہت سی دعائِن بس اپنے لئے تو یہی کافی ہو گا کہ اللہ تبارک و تعالےا ہماری عبادتیں اور عمرے قبول کر لے اور ہمارا خاتمہ صالحین کے ساتھ کرے آمین

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Friday, February 17, 2012

ستّرہ فروری

 نہ معلوم کیوں یہ تاریخ مجھے یاد آتی ہے۔ بھایجان معراج اور بھابی نسیم کی شادی آج کے روز سیالکوٹ میں ہوئ تھی ساٹھ سال پہلے- --یہ ایسا روز تھا جب مجھے زندگی میں پہلی بار اپنا سوٹ- یعنی کوٹ پتلون والا- ملا جو خاص اس روز کے لئے بنوایا گیا تھا ہماری زندگی میں مشرقی اطوار کم ہو رہے تھے اور مغربی طریقے آتے جا رہے تھے یعنی ہمارے گھرانے میں یہ تبدیلیاں آ رہی تھیں اسی وجہ سے جب بھایجان معراج نے نیا گھر سٹلائٹ ٹاون میں بنوایا اور جب اس میں صوفہ سیٹ رکھا گیا تو وہ بھی مجھے یاد ہے کیوںکہ یہ ہمارے گھرانے کا پہلا صوفہ تھا- اللہ سے دعا ہے کہ وہ بھایجان معراج اور بھابی نسیم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Tuesday, February 14, 2012

محمد رفی یا رفیع



 نہیں نہیں یہ میرےماسٹر نہیں اب میرے ٹیچروں ماسٹروں کا حال ختم ہو چکا یہ وہی مشہور گانے والے ہیں

 انگریزی کے بلاگ میں وھٹنی ہیوسٹن کی ناگہانی فوتگی پر کچھ لکھا ہے خصوصا' اس بات پر کہ بمشکل ۴۸ سال کی
تھی اور غالبا" اس کی موت شراب اور دیگر منشیات کی وجہ سے ہوئ یا ان کا خاصا دخل ہے اس پہ مجھے جناب رفی صاحب یاد آ گئے
میرے ایک دوست سن بہتّر میں حج کرتے ہوئے پاکستان سے امریکہ آئے تو انھوں نے بتایا کہ رفی صاحب ان کے ساتھ حج پہ تھے اور یہ کہ بلند آواز سے قران کی تلاوت کرتے تھے تو منےا میں انکے خیمہ کہ پاس لوگ کھڑے سنا کرتے ان کو کون ہندوستان پاکستان وغیرہ میں نہیں جانتا ان کی زندگی کا پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ نہ شراب پیتے تھے نہ زیادہ پارٹیوں میں جاتے اور سٹوڈیو سے گھر-گھر سے سٹو ڈیو والا ان کا معمول تھا اللہ انھیں جنّت میں جگہ عطافرمائے 
 مگر استاد نصرت فتح علی خاں کا معاملہ دوسرا ہے وہ ذیابیطس کے مریض ہونے کی وجہ سے پچاس برس کی چھوٹی عمر میں ہم سے جدا ہو گئے ہندوستانی گانے والوں میں کے ایل سہگل تھے جو شراب کی وجہ سے چھوٹی عمر میں چل بسے مگر اللہ نے انھیں کیا آواز عطا کی تھی اور کس عمدگی سے گایا کرتے تھے ہندوستان پاکستان میں بھی اب شراب اور منشیات کا اثر بڑے ایکٹروں اور گویوں میں ہے لیکن شائد اتنا زیدہ نہیں جتنا ہم مغربی ملکوں میں دیکھتے ہیں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Wednesday, February 8, 2012

ماسٹر لطیف صاحب

 یہ سب سے آخری ماسٹر ہیں جن کے متعلق لکھ رہا ہوں پاکستان بننے والا تھا ہمارا سکولسن چھیالیس میں ہائ ہو گیا تو نویں کلاس  میں بھرتی ہوگیا لیکن ابھی بہت ساے ماسٹر وغیرہ آنے تھے اور ماسٹر لطیف سب سے بعد میں آئے سن سینتالیس شروع ہر رہا تھا اور پاکستان ہندوستان والا بٹوارہ ہونے والا تھا۔ ہم نے سائنس پڑھنی تھی اس لئے بڑی مشکل تھی ۶ ماہ بعد ماسٹر صاحب آئے ابھی انگریزی میں کتاب پڑھنی تھی جس میں بنیادی فزکس اور کیمسٹری تھی میں پہلی دفعہ سائنس شروع کر رہا تھا ماسٹر لطیف ایک اچھے ماسٹر تھے اور تمام مجبوریوں کے باوجود ینھوں نے بڑے دھیان سے ہمیں سائنس پڑھائ وہ اکثر دیوار کے بورڈ پر لکھتے اور پھر اسی دیوار پہ اپنا ایک پائوں لگا کے کھڑے رہتے یعنی گھٹنے کو سامنے رکھتے یہی عادت تھی ان کی رہی ہے ان کی مشکلات کا مختصر یوں لکھوں کہ انھیں ڈیڑھ سال میں دو سال کا کورس ختم کرنا تھا اور جب دسویں میں پہنچے تو پاکستان بنا اور کشمیر کا جھگڑا شروع ہو گیا دسمبر  اور جنوری یعنی ۴۷ اور ۴۸ کے دن ہمارے سکول پر مجاہدین کشمیر کا قبضہ رہا تو جب تک ہمارے میٹرک کے امتحان نزدیک آتے نہ ہمارے پاس کوئ کیمیکلز تھے جو ان مجاھدین نے پھینک دئے اور فلاسک ٹیسٹ ٹیوبیں وغیرہ توڑ پھوڑ کے حقّے بنا لیئے تو ماسٹر لطیف نے امتحان سے پہلے ایک ویک ایند  سوموار ملا کر تین دنوں میں سارے کیمسٹری اور فزکس کے اکسپیریمنٹ کرا دئے جس کے لئے ہمیں گجرات ایک سکول میں جانا پڑا تھا ان کی لیب ادھار لے لی تھی الل ماسٹر لطیف کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے جنھوں نے مجھے سائنس سے انٹرو ڈیوس کرایا


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Tuesday, February 7, 2012

ماسٹر عبد العزیز صاحب

ماسٹر ْریشی کے جانے کے بعد اور سکول کے ہائ ہو جانے کے بعد ہمارے جو پہلے ہیڈ ماسٹر آئے وہ گجرات شہر کے رہنے والے ایک کشمیری بی اے بی ٹی تھے اور نہائت رحمدل میٹھی عادتوں کے مالک تھے باوجود اس کے کہ ان کا بھاری اور بڑا جسم اور اچھی پوشاک دیکھ کے بڑا رعب پڑتا تھا شلوار قمیص کوٹ اور کلّھے والی پگڑی پہنتے تھے انگریزی لکھنے  اور پڑھنے کا ذوق مجھے ان کی کلاسوں سے ہی ملا ان کی پڑھائ ہوئ انگریزی نظموں میں سے ایک تو وہ یاد آتی ہے
"Into the valley of Death, rode the six hundred" 
 اور ایک یاد پڑتی ہے جس میں فوج کے تین جوان پل کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں دشمن کی فوج سامنے پل پار کرنے آرہی ہے اور وہ اپنی فوج کو وقت کا وقفہ دینے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ ایسے پیش کرتے ہیں کہ ساری فوج کو روکنے کے لئے اپنے ہتھیار لیکر پل پر ڈٹ جاتے ہیں اور دشمن کے فوجیوں کو مارتے رہتے ہیں حتےا کہ خود وہیں شہید ہو جاتے ہیں اس طرح اپنی فوج کی خدمت سر انجام دیتے ہیں
 ایک بار ماسٹر عزیز کا ایک بیٹا آیا جس نے اپنے گلے میں ایک سانپ لٹکایا ہوا تھا- جی ہاں زندہ۔ اسے ساںپ پالنے کا شوق تھا جو مجھے بڑا عجیب لگا تھا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

ماسٹر بشیر احمد

  ہم لوگ نانویں جماعت کے چھ سات ماہ گزار چکے تھےجب ہمارے ماسٹر صاحب تشریف لائے بہت کچھ کہانیاں سنی تھین ماسٹر بشیر کے متعلق جو سب کی سب درست نکلیں آپ سن ۳۳ کے زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور سے میتھمیٹکس میں ماسٹرز پاس کر چکے تھے اور ہمارے سکول کے 'سیکنڈ ماسٹر' بن کر آرہے تھے بہت سادگی پسند تھے جسم فربہی مائل تھا اور شلوار قمیص کے ساتھ کوٹ پہنتے تھے سر پہ ٹوپی تھی بات چیت میں فضول گوئ سے پرہیز کرتے مدھم آواز سے بولتے ڈاںٹنے میں الفظ بہت احتیاط سے استعمال کرتے زیدہ تر یہی کہتے
"اوئے کتّیا جیھیا "
  آپ نے ایک کتاب بھی لکھی تھِی جس میں انھوں نے اپنے  امام مہدی ہونے کا دعوہ کیا تھا اس سلسلے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں ڈیڑھ سال ہمارے ٹیچر رہے اور ہمیں میٹرک کی تیاری آپ نے ہی کرائ شرارتی کڑکے ان سے سوال کر بیٹھتے
"٘ماسٹر جی ہم نے سنا ہے امام مہدی کی رگوں میں خون نہیں دودھ دوڑتا ہے کیا ہم دیکھ سکتے ہیں" اور وہ جھڑک دیتے ان تمام باتوں کا پول بعد میں کھلا چند واقعات یر خبریں بتاتا ہوں پر آپ اندازہ لگا لیں ایک مرتبہ آدھی چھٹی کے بعد وہ کلاس میں نہ آئے تو معلوم ہوا گھر چلے گئے کیوں؟
پتہ چلا کہ   ان کی بات ہو رہی ہوگی امام مہدی ہونے کے ناطے وہ کتنے برس کی زندگی لے کے آئے ہیں تو انھوں نے پیشین گوئ بتائ اس پر کسی ماسٹر نے  کہا اگر آپ کو کوئ آج ہی راستے مین مار دے تو پھر؟ اس کا انھون نے یہ مطلب نکالا کہ سکول کے ماسٹروں میں کوئ سازش چل رہی ہے انھیں قتل کرنے کی اس لئے وہ گھر بھاگ گئے
 دوسرے روز بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کر واپس لایا گیا ان باتوں سے آپ سمجھ ہی گئے ہوںگے کہ انھیں دماغی عارضہ تھا جسے شائزوفرانیا  یا امریکی زبان میں سکزوفرانیا کا نام دیا جاتا ہے اور پھر ہم نے ان کے متعلق بعد میں جو کچھ سنا وہ بھی اس کی تایئد کرتا ہے میں جب فورتھ ائر میڈیکل کالج میں تھا تو اخبار میں پڑھا کہ ایک سکول ماسٹر نے درخواست دی ہے اسے پاسپورٹ دیا جائے کہ اسے انگلاتان جا کر شہزادی مارگریٹ سے شادی کرنی ہے یہ نتیجہ اسنے نکالا کہ شہزادی شادی پہ راضی ہے کیوںکہ اس نے تین سو چالیس خط لکھے ہیں جس میں سے ایک کا جواب بھی نہیں دیا گیا چنانچہ بقول- الخاموشی نیم رضا- کے اس کے وہاں جانے کی دیر ہے اور وہ بلکل راضی ہو جائےگی
 پھر جب میں پشاور میں تھا تو وہاں کے مینٹل ہاسپٹال کے انچارج ڈاکٹر نے ایک ماسٹر صاحب کی اطلاع دی ان کے مریض تھے اور وہ حلیہ ہمارے ماسٹر صاحب کا ہی تھا اب تو فوت ہو چکے ہوں گے اللہ انھیں جنت میں جگہ عطافرمائے




Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/