ماسٹر ْریشی کے جانے کے بعد اور سکول کے ہائ ہو جانے کے بعد ہمارے جو پہلے ہیڈ ماسٹر آئے وہ گجرات شہر کے رہنے والے ایک کشمیری بی اے بی ٹی تھے اور نہائت رحمدل میٹھی عادتوں کے مالک تھے باوجود اس کے کہ ان کا بھاری اور بڑا جسم اور اچھی پوشاک دیکھ کے بڑا رعب پڑتا تھا شلوار قمیص کوٹ اور کلّھے والی پگڑی پہنتے تھے انگریزی لکھنے اور پڑھنے کا ذوق مجھے ان کی کلاسوں سے ہی ملا ان کی پڑھائ ہوئ انگریزی نظموں میں سے ایک تو وہ یاد آتی ہے
"Into the valley of Death, rode the six hundred"
اور ایک یاد پڑتی ہے جس میں فوج کے تین جوان پل کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں دشمن کی فوج سامنے پل پار کرنے آرہی ہے اور وہ اپنی فوج کو وقت کا وقفہ دینے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ ایسے پیش کرتے ہیں کہ ساری فوج کو روکنے کے لئے اپنے ہتھیار لیکر پل پر ڈٹ جاتے ہیں اور دشمن کے فوجیوں کو مارتے رہتے ہیں حتےا کہ خود وہیں شہید ہو جاتے ہیں اس طرح اپنی فوج کی خدمت سر انجام دیتے ہیں
ایک بار ماسٹر عزیز کا ایک بیٹا آیا جس نے اپنے گلے میں ایک سانپ لٹکایا ہوا تھا- جی ہاں زندہ۔ اسے ساںپ پالنے کا شوق تھا جو مجھے بڑا عجیب لگا تھا
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
"Into the valley of Death, rode the six hundred"
اور ایک یاد پڑتی ہے جس میں فوج کے تین جوان پل کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں دشمن کی فوج سامنے پل پار کرنے آرہی ہے اور وہ اپنی فوج کو وقت کا وقفہ دینے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ ایسے پیش کرتے ہیں کہ ساری فوج کو روکنے کے لئے اپنے ہتھیار لیکر پل پر ڈٹ جاتے ہیں اور دشمن کے فوجیوں کو مارتے رہتے ہیں حتےا کہ خود وہیں شہید ہو جاتے ہیں اس طرح اپنی فوج کی خدمت سر انجام دیتے ہیں
ایک بار ماسٹر عزیز کا ایک بیٹا آیا جس نے اپنے گلے میں ایک سانپ لٹکایا ہوا تھا- جی ہاں زندہ۔ اسے ساںپ پالنے کا شوق تھا جو مجھے بڑا عجیب لگا تھا
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
No comments:
Post a Comment