Friday, January 20, 2012

پنجاب میں ملک صاحب اور ملک احمد خاں

  ساتویں جماعت ککرالی اسکول میں داخل ہوا سارا خاندان پنجاب منتقل ہو گیا ساتویں کے ماسٹر صاحب "ملک جی " کہلاتے تھے
ان کا نام تو یاد نہیں مگر   ملک ہوریں' خالص پنجابی میں کہا جاتا تھا چنانچہ یہ لفظ میرے لئے ایک خاص دبدبہ کا ہم معنی ہو گیا میں ان کی  وہ خاص  سزا کے متعلق لکھ چکا ہوں جسے پنجابی میں
 کنّ پھڑ لوء -- کہتے ہیں ان کی جب تبدیلی ہوئ تو ان کی جگہ جو ماسٹر صاحب آئے ان کا نام بھی ملک تھا مگر پورا بولتے تھے اس لئے ان کا نام یاد رہ گیا ہے ملک احمد خاں وہ ہمارے گائوں سے تین میل دور  "صبور" کے رہنے والے تھے اور سائِکل پہ آیا کرتے تھے وہ بھی رعب دبدبہ رکھتے تھے کڑی آواز کے مالک تھے  میری اردو کی قابلیت میرے لب و لہجہ کی وجہ سے اسکول میں مشہور ہو چکی تھی اور تمام استاد بھی اردو کے الفاظ کی ادائگی کے لئے مجھ سے ہی مشورہ کرتے تھے کلاس کے لڑکوں کو میں نے ہی بتایا کہ ہںسنا کی پہلی نون در اصل غنّہ ہوتی ہے
 سکول کی انسپیکشن ہونا تھی تو اس کے لئے انسپیکٹر صاحب کے سمنے مجھے تیار کیا گیا ایک نظم پڑھنے کو۔
کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا--مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
میرے لئے کوئ مشکل نہ تھی سکول کا رعب میرے اردو کے لہجے سے بن گیا میرے سکول ختم کر چکنے کے بعد ایک بار ملک احمد خان سے ملاقات ہوئ وہ اس وقت ہمارے گائوں میں ھیڈ ماسٹر تھے بتا رہے تھے کہ جسمانی سزائوں کے دن اب نہں رہے اور بچوں کو  تربیت دینا مشکل ہو گیا ہے ایک اور ان کی بات یاد پڑتی ہے ہمارے گائوں میں جلسہ ہو رہا تھا اور پنجاب کے وزیر اعلےا جناب ممتاز محمد خاں دولتانہ مدعو تھے وہ کرسی صدارت پہ تھے اور ملک صاحب نے اقبال کی وہ نظم بڑے ٹھاٹھ سے پڑھی  اس کا ایک شعر تحریر کر رہا ہوں کہ وہ بہت پرمعنی تھا اور ملک صاحب نے باقاعدہ اشارہ کے ساتھ ادا کیا
      نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ          کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/  


No comments:

Post a Comment