Saturday, January 21, 2012

ماسٹر نذیر احمد

 میں ساتویں جماعت میں پنجاب آیا تو ایک مڈل سکول میں داخل ہوا ڈی بی مڈل سکول ککرالی
ھیڈ ماسٹر اس وقت ماسٹر نذیر احمد تھے وہ انگریزی پڑھاتے تھے گائوں کے پنجابی لڑکوں کو انگریزی کی گریمر سمجھانی جوئے شیر لانے کے برابر ہے انھوں نے ایک ایسی گردان بنائ تھی جس سے انگریزی کے فعل اور اس کے صحیح استعمال کو سیکھا جا سکے لفظ  'گو' لیا گیا تھا بمعنی جانا
 اب سنئے--گردان آئ گو- آی ڈو ناٹ گو- ڈو آئ گو- وھائ ڈو آئ گو
 اس سے ان بچوں کو ورب بنانے میں آسانی ھو جاتی ہے ورنہ وہ بھلا کیسے بول پاتے یا سمجھ پاتے کہ "ڈو" کیس لئے لگانا پڑتا ہے بہر کیف مجھے آسانی تھی کیوںکہ جسقدر محنت سے ان کو انگریزی سکھائ جاتی تھی مجھے کلاس کے علاوہ کچھ اور نہیں کرنا پڑتا تھا اور میری انگریزی ان سب بچوں سے اچھی تھی ماسٹر نذیر نے مجھے ایک روز اپنے دفتر میں بلایا اور پوچھا
"نماز آتی ہے؟
  جواب دیا- جی ہاں-تو اس پر ماسٹر صاحب نے کہا' بھول جائو' اب میں پریشان ہو کر ان کا مونھ دیکھنے لگا مجھے مذبذب پایا تو فرمانے لگے
"اگر نہیں بھولنا چاہتے تو پڑھا کرو
  اور مجھ پر جیسے گھڑوں پانی پڑگیا ایک اور بات سناتا چلوں جو پنجاب کے گائوں کی خاص تہذیب سے تعلق رکھتی ہے اس روز کچھ ٹھنڈا موسم تھا ماسٹر نذیر کو مولیاں کھانے کا شوق تھا تو ایک لڑکے سے کہا
"اوئے فلانے- یہ لے دو پیسے اور میرے لئے مولی لا
ابھی وہ لڑکا اپنا بستہ باندھ رہا تھا کہ کتابیں ٹھیک سے رکھ کر جائے تو ماسٹر جی نے ذرا تیز آواز میں کہا- خالص پنجابی
اوئے آگیا ایں؟
میں یہ سن کر بہت پریشان ہوا بھلا یہ کیا بات ہوئ ابھی وہ جانے کی تیاری کررہا ہے اور اسے کہا جا رہا ہے 'کیاتم واپس آگئے؟
/ پھر مجھے سمجھ آیا کہ یہ طریقہ ہے اس بات کو کہنے کا کہ جلد جا ابھی تک یہ کیا کر راہا ہے

No comments:

Post a Comment