Thursday, January 26, 2012

ماسٹر قریشی

 یہ نئے ہیڈ ماسٹر آئے اور آتے ہی اس کوشش میں لگ گئے کہ ککرالی جو ڈسٹرکٹ بورڈ کے تحت تھا اب ہائ سکول ہو جانا چاہئے  ماسٹر یعنی مولوی احمد دین کا فلسفہ لکھ چکا ہوں لیکن ان کی اس بات کو واشگاف طور پر نہیں لکھا تھا کہ وہ سر پہ ٹوپی یا صافہ یا پگڑی پہننے کے حق میں تھے اور یہ ٹنڈ کرانے کے بعد حکم تھا اب ماسٹر قریشی کا سنئے یہ ماسٹر صاحب کوٹ پتلون بلکہ سوٹ پہنتے تھے بغیر ٹائ کے مگر پورےصاحب تھے اور سروں پہ صافہ پگڑی وغیرہ پہننے کے خلاف تھے--یہ کیا سٹیشنوں پہ قلیوں کی طرح صافے باندھے ہیں-- تو ہم لوگ سہونترہ سے سر ڈھاںپے چلتے اور ککرالی آکر اتار دیا کرتے تھے پھر انگریزی کلاسوں میں ننگے سر اور مولوی صاحب کی کلاسوں میں صافے پہن لیتے ماسٹر قریشی کیک پیسٹریوں کے بھی شوقین تھے گائوں کے لڑکے بھلا کیا جانیں یہ انگریزی مٹھایئاں مگر نام سن سن کر ذہن میں کچھ نقشہ بنا لیتے ہوںگے
اور یہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ ماسٹر قریشی کے گھر میں ہی میں نے سب سے پہلے فرینچ ٹوسٹ کھائے تھے ان کی بیگم بناتی تھین۔ ہوا یوں کہ ہوسٹل میں مجھے رہنے کی عادت نہیں تھی اور رات کی بچی دال اور ٹھنڈی روٹی جس سے سب لڑکے ہوسٹل کے ناشتہ کرتے مجھے بھی وہی کھانے کو ملا۔ اب گھر میں پراتھے اور چائے کا رواج تھا میری تو بڑی  سوکھی سی صورت نکل آئ تو گھر والوں نے ماسٹر صاحب کو پیغام بھیج دیا ہمارا لڑکا ہوسٹل نہیں رہے گا اور اسے زیدہ پڑھائ گھر میں ہی دےدی جائگی ماسٹر قریشی بات سمجھ گئے اور کہا کہ میں ان کے گھر میں سویاکروںگا اور ناشتہ وہیں کر لیا کروں۔ اس طرح مین اس گائوں میں فرینچ ٹوسٹ سے ناشتہ کرنے لگا
  ماسٹر قریشی پراپیگنڈا کرنے کہ ماہر تھے اور جلد ہی ایک ہزار روپے کی رقم تیار کرلی جو کہ شرط تھی ہائ سکول بنانے کے لئےچنانچہ جب تک ہم نے آٹھویں کا امتحان پاس کیا سکول ہائ ہوگیا ماسٹر قریشی کے اپنے تین لڑکے تھے ایک لڑکی بھی ان کے ہاں تھی مگر وہ انکے بڑے بھائ غضنفر علی قریشی کی تھی وہ تھانیدار ریٹائر ہوئے تھے اور کسی دوسری جگہ تھے ان کو پنجابی میں "بائو گپھا" کہا جاتا تھا ماسٹر قریشی بھی ان سے ڈرتے تھے ان سے بعد میں لاہور میں ملاقات رہی تھی اور جب تک میں میڈیکل کے چوتھے سال میں ہوا اس وقت پتہ چلا کہ وہ تھانیدار صاحب اپنی تھانیداری کے زمانے میں عیش کر چکے تھے اور ان کی بیماری کا اثر تھا جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھے اور کمپلیٹ ہارٹ بلاک بھی تھا جس سے ان کی  نبض کی رفتار ۳۰ کے قریب تھی جب سکول ہائ ہوگیا تو ماسٹر قریشی کا تبادلہ ہوگیا مگر جانے سے پہلے انھوں نے مجھے سکول لیونگ سرٹیفکیٹ دینے سے صاف انکار کر دیا اور اس طرح میں اس سکول سے گرجوایٹ کر چکنے کے بعد پھر سے وہیں داخل ہوگیا ناںویں کلاس میں ان کا خیال تھا ذہین لڑکے ایسے آسانی سے نہیں ملتے خصوصا' دیہی آبادی میں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

No comments:

Post a Comment