ماسٹر احمد دین خاص مولوی نہیں تھے مگر داڑھی کی وجہ سے مولوی کہلاتے تھے اور ککرالی مڈل سکول کی آٹھویں جماعت جو کہ آخری اور بہت اہم ہوتی ہے کے ماسٹر تھے
آپ سہونترہ کے رہنے والے تھے اور اس گائوں میں ہمارے جدّی گھر کے نزدیک ان کا گھر تھا آبادی کے ساتھ ہی ایک باغ کے مالک تھے اور اس میں ایک کنواں ایک کھلا چبوترہ مسجد کا تھا اور ملحق زمین میں کچھ سبزیاں وغیرہ ہوتی تھیں مسجد والے چبوترے کے سامنے دو تین کمرے کھڑے تھے۔ ککرالی وہاں سے کوئ نصف میل دور تھا اس وقت ابھی دوسری جنگ عظیم ختم ہوئ تھی پنجاب کی اپنی فضا سیاسی سرگرمیوں سے بھرتی جا رہی تھی ادھر ماسٹر نذیر آحمد کا تبادلہ ہوا اور نئے ھیڈ ماسٹر آ گئے- ماسٹر قریشی -اور ان کا پورا نام یاد نہیں ان کا بعد میں لکھوں گا ہماری کلاس میں زیدہ تر مسلمان بچے ہی تھے دو تین سکھ اور چار پانچ ہندو ہوں گے مولوی صاحب دبدبہ کے مالک تھے اور بہت محنت سے پڑھاتے تھے ایک چیز جو مسلمان بچوں کی انھیں پسند نہیں تھی وہ تھی حجامت۔ جس کو ان کی زبان میں "بودے- کا نام دیا گیا تھا ان کا فلسفہ یہ تھا کہ مسلمان بچوں کو -انگریزی قسم کے خط- نہین بنوانے چاہئے بلکہ یا بلکل صاف چندیا ہو-جسے پنجابی میں ٹنڈ کہتے ہیں یا پھر چھتّے بال ہوں یعنی گردن تک لمبے ہوں۔ چنانچہ سب مسلمان بچوں کی ٹنڈ بن گئ سوائے میرے۔ اب یوں تھا کہ میری اماں جان اور بہنیں ٹنڈ کے سخت خلاف تھین کہ بہت بری لگے گی اور سکول میں روز مولوی صاحب میرا رکارڈ لگاتے کہ ایسے -مولوی گھرانے کے فرزند اور ٹنڈ نہیں کرائ انگریزی بودے رکھے ہیں کلاس میں مجھے کھڑا کر کے شرندگی دلاتے کہ
چو کفر از کعبہ برخیزد - کجا ماند مسلمانی
روز روز کی سنتے ہوئے میں نے ایک روز اپنے نائ کو چیلنج کر دیا کہ تم نے ٹنڈ نہ کی تو میں خود بال کاٹ لوں گا وہ میرے گھر والوں سے گھبراتا تھا اس لئے ٹنڈ نہیں کرتا تھا--یہ بتا دوں کہ ابھی وہاں وہ زمانہ تھا جب "سیپی نائ" ہوا کرتے تھے یعنی ان کو سال کے خاص موقعوں پر اجرت اور کپڑے یا غلّہ وغیرہ دیا جاتا تھا
تو خیر اس طرح میری بھی ٹنڈ ہو گئ باوجود اس کے کہ گھر میں میری بہنیں مذاق اڑاتی تھیں مگر کلاس میں ٹھاٹھ سے اپنا سر ننگا کر کے بیٹھنے لگا سردیان آیئن تو پڑھائ زوروں پر شروع ہو گئ کہ سکول کا نتیجہ اچھا نکلے آٹھویں جماعت کے لڑکوں کی لئے سکول کے بعد کلاسیں لگنے لگیں اس کا کوئ الگ معاوضہ نہیں ہوتا تھا فروری ۱۹۴۶ میں امتحان تھا اور دسمبر۴۵ میں ہمارا یہ روٹین بنایا گیا- صبح نو بجے سے شام کے چار بجے تک سکول کی کلاسیں اور چھٹی کے بعد آٹھوین کے لڑکے وہیں الگ انگریزی کی کلاس دہراتے اس کے بعد کھانا وغیرہ کھا کر بورڈنگ ہائوس میں سوتے۔ سونے سے پہلے ایک گھر میں پھر انگریزی کے سبق دہرائے جاتے پھر یا سوتے یا اپنے بستے اٹھ کر سہونترہ جاتے وہاں عشا کی نماز پڑھانے کو مولوی صاحب تیار ہوتے اور اس کے بعد حساب الجبرا وغیرہ کے سبق ہوتے۔ وہ بڑے کمرے جن کا اوپر ذکر کیا ہے وہاں سب بچے سوتے اپنی اپنی رضایئوں میں -سحر کے وقت آٹھایا جاتا ہندو اور سکھ بچے کوئیں کا پانی نکالتے مسلمان بچے وضو کرتے اور فجر مولوی صاحب کے پیچھے پڑھتے انھوں نے ہمیں ذکر اور وظیفہ وغیرہ یاد کرایا یعنی نماز کے علاوہ اور سیدھے واپس ککرالی جاکر ناشتہ کرتے سکول جانے کی تیاری کرتے
کچھ اس قسم کا روٹین چلتا رہا اور امتحان سر پہ آ گیا۔ امتحان جسے ورنیکلر فائنل کہا جاتا تھا دوسرے شہر -لالہ موسےا- میں تھا ہمارے ساتھ ایک اور ماسٹر گئے تھے امتحان کے لئے-- اس وقت تک پاکستان کی بات چل نکلی تھی اور ادھر ماسٹر قریشی صاحب ہمارے سکول کو ہائ کرانے کے پراپیگنڈے میں لگ گئے ہم ماسٹر احمد دین سے ہی دینی باتیں سیکھے اور انھیں نے ہمیں دعائیں وغیرہ یاد کرائیں مولوی صاحب ایک سوٹی بھی رکھتے تھے جس کا صحیح استعمال انھین آتا تھا اور میں ان کے متعلق لکھ چکا ہوں کہ وہ کیسے بشمبر داس-میرے ہمجماعت- کو ڈانٹا کرتے تھے اور بھی ان کے مقولے ہوں مگر یہی یاد رہ گیا
اوئے بشمبر داس تیرا ستّیا ناس
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
آپ سہونترہ کے رہنے والے تھے اور اس گائوں میں ہمارے جدّی گھر کے نزدیک ان کا گھر تھا آبادی کے ساتھ ہی ایک باغ کے مالک تھے اور اس میں ایک کنواں ایک کھلا چبوترہ مسجد کا تھا اور ملحق زمین میں کچھ سبزیاں وغیرہ ہوتی تھیں مسجد والے چبوترے کے سامنے دو تین کمرے کھڑے تھے۔ ککرالی وہاں سے کوئ نصف میل دور تھا اس وقت ابھی دوسری جنگ عظیم ختم ہوئ تھی پنجاب کی اپنی فضا سیاسی سرگرمیوں سے بھرتی جا رہی تھی ادھر ماسٹر نذیر آحمد کا تبادلہ ہوا اور نئے ھیڈ ماسٹر آ گئے- ماسٹر قریشی -اور ان کا پورا نام یاد نہیں ان کا بعد میں لکھوں گا ہماری کلاس میں زیدہ تر مسلمان بچے ہی تھے دو تین سکھ اور چار پانچ ہندو ہوں گے مولوی صاحب دبدبہ کے مالک تھے اور بہت محنت سے پڑھاتے تھے ایک چیز جو مسلمان بچوں کی انھیں پسند نہیں تھی وہ تھی حجامت۔ جس کو ان کی زبان میں "بودے- کا نام دیا گیا تھا ان کا فلسفہ یہ تھا کہ مسلمان بچوں کو -انگریزی قسم کے خط- نہین بنوانے چاہئے بلکہ یا بلکل صاف چندیا ہو-جسے پنجابی میں ٹنڈ کہتے ہیں یا پھر چھتّے بال ہوں یعنی گردن تک لمبے ہوں۔ چنانچہ سب مسلمان بچوں کی ٹنڈ بن گئ سوائے میرے۔ اب یوں تھا کہ میری اماں جان اور بہنیں ٹنڈ کے سخت خلاف تھین کہ بہت بری لگے گی اور سکول میں روز مولوی صاحب میرا رکارڈ لگاتے کہ ایسے -مولوی گھرانے کے فرزند اور ٹنڈ نہیں کرائ انگریزی بودے رکھے ہیں کلاس میں مجھے کھڑا کر کے شرندگی دلاتے کہ
چو کفر از کعبہ برخیزد - کجا ماند مسلمانی
روز روز کی سنتے ہوئے میں نے ایک روز اپنے نائ کو چیلنج کر دیا کہ تم نے ٹنڈ نہ کی تو میں خود بال کاٹ لوں گا وہ میرے گھر والوں سے گھبراتا تھا اس لئے ٹنڈ نہیں کرتا تھا--یہ بتا دوں کہ ابھی وہاں وہ زمانہ تھا جب "سیپی نائ" ہوا کرتے تھے یعنی ان کو سال کے خاص موقعوں پر اجرت اور کپڑے یا غلّہ وغیرہ دیا جاتا تھا
تو خیر اس طرح میری بھی ٹنڈ ہو گئ باوجود اس کے کہ گھر میں میری بہنیں مذاق اڑاتی تھیں مگر کلاس میں ٹھاٹھ سے اپنا سر ننگا کر کے بیٹھنے لگا سردیان آیئن تو پڑھائ زوروں پر شروع ہو گئ کہ سکول کا نتیجہ اچھا نکلے آٹھویں جماعت کے لڑکوں کی لئے سکول کے بعد کلاسیں لگنے لگیں اس کا کوئ الگ معاوضہ نہیں ہوتا تھا فروری ۱۹۴۶ میں امتحان تھا اور دسمبر۴۵ میں ہمارا یہ روٹین بنایا گیا- صبح نو بجے سے شام کے چار بجے تک سکول کی کلاسیں اور چھٹی کے بعد آٹھوین کے لڑکے وہیں الگ انگریزی کی کلاس دہراتے اس کے بعد کھانا وغیرہ کھا کر بورڈنگ ہائوس میں سوتے۔ سونے سے پہلے ایک گھر میں پھر انگریزی کے سبق دہرائے جاتے پھر یا سوتے یا اپنے بستے اٹھ کر سہونترہ جاتے وہاں عشا کی نماز پڑھانے کو مولوی صاحب تیار ہوتے اور اس کے بعد حساب الجبرا وغیرہ کے سبق ہوتے۔ وہ بڑے کمرے جن کا اوپر ذکر کیا ہے وہاں سب بچے سوتے اپنی اپنی رضایئوں میں -سحر کے وقت آٹھایا جاتا ہندو اور سکھ بچے کوئیں کا پانی نکالتے مسلمان بچے وضو کرتے اور فجر مولوی صاحب کے پیچھے پڑھتے انھوں نے ہمیں ذکر اور وظیفہ وغیرہ یاد کرایا یعنی نماز کے علاوہ اور سیدھے واپس ککرالی جاکر ناشتہ کرتے سکول جانے کی تیاری کرتے
کچھ اس قسم کا روٹین چلتا رہا اور امتحان سر پہ آ گیا۔ امتحان جسے ورنیکلر فائنل کہا جاتا تھا دوسرے شہر -لالہ موسےا- میں تھا ہمارے ساتھ ایک اور ماسٹر گئے تھے امتحان کے لئے-- اس وقت تک پاکستان کی بات چل نکلی تھی اور ادھر ماسٹر قریشی صاحب ہمارے سکول کو ہائ کرانے کے پراپیگنڈے میں لگ گئے ہم ماسٹر احمد دین سے ہی دینی باتیں سیکھے اور انھیں نے ہمیں دعائیں وغیرہ یاد کرائیں مولوی صاحب ایک سوٹی بھی رکھتے تھے جس کا صحیح استعمال انھین آتا تھا اور میں ان کے متعلق لکھ چکا ہوں کہ وہ کیسے بشمبر داس-میرے ہمجماعت- کو ڈانٹا کرتے تھے اور بھی ان کے مقولے ہوں مگر یہی یاد رہ گیا
اوئے بشمبر داس تیرا ستّیا ناس
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
No comments:
Post a Comment