Monday, December 28, 2009

لاھور شھر اور اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ

در اصل ھوا یہ کہ میں آیا تھا گاءوں کے اسکول سے اور میری معلومات صفر کے برابر ھوںگی۔ جیسا میں نے پہلے کھا تھا شھر کا اور پھر لاہور جیسے شہر کا مجھ غریب کے لیئے اندازہ لگانا مشکل تھاتو وھی ہوا میں نے پہلے تو کالج کے داخلے کی کوشش میں بھائجان معراج کے ساتھ سایئکل پہ چکّر لگائے۔ گورنمنٹ کالج میں داخلہ نا ہو سکا نان میڈیکل میں تو اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا پھر جیسا پہلے لکھ چکا ہوں فیس داخل کرانے ابھی جانا تھا تو بھائجان کے دوست میرا مذاق اڑانے لگے
تم اور انجینئرنگ کروگے؟ ہتھوڑا اٹھا سکتے ہو؟
اب یہ ہے کہ میرا کیا قصور تھا مین بہت چھوٹا تھا اور ابھی پانچ فٹ تک قد نھیں پہنچا تھا تو وہ بھی حق بجانب تھے۔ خیر انھوں نے اس قسم کی باتین کرتے کرتے مجھے یقین دلادیا کہ یہ لائن میرے لیئے ٹھیک نھیں تو جب فیس داخل کرانے کلرک کے پاس گیا تو اسے کہا میں سبجیکٹ تبدیل کرنا چاہتا ہوں اس نے کہا کوئ بات نھین یہ لو درخواست اور کر دو اور اتنی فیس لگ جائے گی
چلو جی اللہ اللہ خیر سلّا میں میڈیکل سبجیکٹس میں داخل ہوگیا
دو سال اسلامیہ کالج میں گزارے مختصرا" بتاتا ہوں اس وقت ھمارے کالج میں امتیاز احمد اور خان محمد ابھی سٹوڈنٹ تھے اور ان کو میں کرکٹ کی پریکٹس کے وقت دیکھا کرتا تھا۔ امتیاز کی ھٹیں کالج کی بلڈنگ پاس کرکے باھر سڑک تک جاتی تھیں ادھر گورنمنٹ کالج میں محمودالحسن اور وقار حسن تھے چنانچہ انٹرکالجئیٹ پنجاب یونیورٹی کی چیمپِئنشپ میں یہی دو کالج آخری مقابلے میں آتے اور ان کی خوب لگتی تھی کہتے ہین کہ جیسے کیمبرج اور آکسفورڈ کی بوٹ ریس ہوتی تھی ایسا مقابلہ تھا تو جب فائنل ،یں وقار لاسٹ وکٹ تک قائم تھا اور صرف پانچ رن اور چاہیئے تھے جیتنے کو خان محمد کی ہر بال پر لگتا تھا اب آئوٹ ھوا یا اب چوکا لگا کم از کم آدھا کالج وھاں آیا ھوا تھا بک اپ کرنے۔ ھم بھی شامل تھے ان میں اب جو وقار کے بجائے دوسرا کھلاڑی آیا تو سب اپنی مٹھّیاں بھینچے بیٹھے تھے اور وہ وکٹ جب خان کی گیند ہر اڑی ھے تو لڑکے پاگل ہو گئے خان محمد کو اٹھا لیا گیا اور اسی طرح کاندھوں پر اٹھائے ہوے کالج تک لے آئے ایک دن کی چھٹّی مانگی گئی اور مل گئ کیا زمانہ تھا وہ بھی- بہر کیف اسی طرح دو سال گزرے ھاف ٹائم کے وقت درس کا پیرئڈ ہوتا تھا جس میں علّا مہ علائو الدین صدّیقی درس دیا کرتے تھے ان کا ایک اپنا ہی طریقہ اور سٹائل تھا بولنے کا مگر ھم سنتے رھے ایک اور واقعہ سناتا چلوں
ہر کالج کی طرح اردو اور انگریزی کی ڈیبیٹ ہوتی تھیں ایک ڈیبیٹ نھین بھولےگی
ٹاپک تھا "ھند کے شاعرو صورت گرو افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ھے سوار"
اب جناب یہ اس زمانے کی بات ھے جب
بیگم سلمےا تصدّق حسین پنجاب کی منسٹری میں تھین اور بطور جج اس ڈیبِٹ مین مدعو تھین اور سب یہ بھی جانتے تھے کہ مشہور شاعر اختر شیرانی باقاعدہ اپنی معشوق کا نام شعر میں لیتے تھے اور ایسا ہوا کہ ایک لڑکے نے--نا معلوم اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ےا اسے معلوم نھین تھا کہ سلمےا وہاں ہونگی-- انکا وہ شعر بھی سنا دیا جس میں سلمےا نام لیا گیا تھا
بس پھر کیاتھا بیگم تصدّق حسین اٹھین اور پھنپھناتی ہوئ کالج سے باہر یہ جا وہ جا اور ھال پر سنّاٹا چھا گیا اس کو توڑ نے کے لیئے-خدا کا شکر ھے وھان ایک شخصیت موجود تھی وہ محفل کو بحال کرنے میں اچھی ثابت ہوئ اور وہ تھے ھمارے پرنسیپل ڈاکٹر تاثیر- انھون نے چند ہی لمحوں مین محفل کو اپنے مخصوص قہقہوں سے گل وگلزار بنادیا

واہ واہ کیا زمانہ تھا وہ بھی


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, December 22, 2009

شھر لاھور--نئیں ریساں شہر لھور دیاں


پنجاب میں مثل مشہور ھے--جننے لھور نئِں ویکھیا اوہ جمّیائ نئیں---یعنی جس نے لاہور نھیں دیکھا وہ ابھی پیدا ھی نھین ھوا
یہ شہر بڑی خوبیوں کا مالک ھے پاکستان کی پرانی یونیورسٹی تمام بڑے بڑے کالج اس کی سب سے بڑی خوبی ھے مغلیہ خاندان کے بادشاہوں نے اس میں اپنی بہت سی عمارتیں چھوڑی ھیں اور سب کی سب ایک ایک ھسٹری لیئے ھوئے ھین ھم نے گیارہ برسوں میں تقریبا" سب کا دورہ کیاکچھ تو اس وجہ سے کہ ساری پکنکیں یا شالیمارباغ یا جہانگیر کے مقبرے یا اسی قسم کی جگھوں مین ہوا کرتے تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ جب ھمارے دوست فروکی کے بھائ نے اسے ایک نیا کیمرہ بھیجا تو اسے فوٹوگرافی کا عشق چڑھ گیا ایسی جگھوں نور جھان کا مقبرہ یا جہانگیر کا یا بادشاہی مسجد یالاہور کا شاہی قلعہ اور اس کے سارے کمروں میں تصویریں لی گئ ہوںگی مجھے اور میرے دوسرے دوست بھٹّہ کو مشکل یہ آپڑی تھی کہ فروکی کوعمارات اور سینریوں کی تصویروں کے لئے ایک سبجیکٹ کی ضرورت ہوتی اور اس کے لیئے ھمیں سائکلون پر فروکی کے ساتھ جانا پڑتا تھا چنانچہ ایک تصویر اس زمانے کی فروکی نے شاہی مسجد کی لی تھی بہت خوبصورت ھے اور اس کو دلکھ کر اندازہ کرلیں کہ فروکی کایسے وقت اور جگھون کے لئے کتنی محنت سے ایک تصویر لیا کرتا تھا


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, December 19, 2009

میرا پھلا لاہور کا چکّر

میں اپنے انگریزی بلاگ میں پیٹ کے کیڑوں کے متعلق لکھ چکا ھوں اس کے علاج کے لیئے بھائ جان کے ساتھ لاہور گیا تھا۱۹۴۸
میڈیکل کالج کے ھوسٹل بروم میں ان کے ساتھ ٹھرا تھا میکلوڈ روڈ پہ عین ایک سنیما کے سامنے یہ ھوسٹل واقعہ ھے چنانچہ میں بڑے چائو سے سنیما کے پوسٹر اور فلم کے نام دیکھتا رھا مجھے نور جہاں اس وقت دنیا کی خوبصورت ترین عورت دکھائ دی۔ سڑک کی چہل پہل موٹرون کی اور ٹانگے والوں کی آوازین وغیرہ سب میرے لئے نئے تھے ٘ین یہی سوچتا رہا کہ میٹرک پاس کر کے اسی شھر میں آئوںگا تو یہ سب تماشے دیکھوں گا بھائجان کے ساتھ ایک دو فلمیں بھی دیکھیں دونوں یاد ھین
فلم جگنو پر بھائجان کے ایک دوست اپنا تبصرہ کر رہے تھے کہ یہ نیا ھیرو ]دلیپ کمار[ خوب چمکے گا اس کی ایکٹنگ سے بہت امپریس تھے دوسری فلم انگریزی کی تھی
Loves of Carmen ریٹا ہیورتھ
اور ایلن لیڈ کی
ھسپتال سے فارغ ہو کر میں واپس گائوں آ گیا مگر لاہور شہر کی محبّت میں گرفتار ہو چکا تھا بعد مین اس شہر مین اپنی زیندگی کے گیارہ سال گزارے ۴۸ سے ۵۹ تک اب کچھ ان کا حال لکھوں گا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Monday, December 7, 2009

پنجابی اردو

گاءوں میں ماسٹر لوگ جو آخر پنجابی ہی تو تھے جب اردو بولتے تو نہ صرف یہ کہ لہجہ پنجابی ہوتا لفظ کبھی بدل جاتا تھاایک ماسٹرنی نے آسٹریلیا کو آس-ڑیلیا پڑھا ڈالا۔ خیر میرے آنے سے ماسٹرون کو آسانی ہو گئ لفظ کا صحیح اردو تلفّظ مجھ سے پوچھ لیتے۔ چنانچہ جب انسپیکٹر صحب کی آمد کی تیّاری ہوئ تو مجھے ایک نظم اردو کی کتاب سے پڑھنے کا کہا گیا۔ کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ھیں کیا کیا
مرض اس جہاں میں نہیں کوئ ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
میٹرک میں ہوءے تو ایک مجلس اردو ادب کی بناءی گئ کہ اس وقت تک بچّے زیادہ اردو سمجھنے لگے تھے ہائ ہونے پر سکول کی عمارت تو وہی رہی مگر اسمیں خاصی تبدیلیاں پیدا کی گئیں مثلا" دیواروں پہ اچھے اچھے اشعار لکھے گئے اور انگریزی کے بھی بہت سےمشہور فقرے لکھے گئے انگریزی میں اور میرے ساتھ دوسرے لڑکوں نے لکھی حروف بنانے کے ٹمپلیٹ سے بناءے تھے کمروں کے باہر والی دیوار پر سیمنٹ سے بورڈ بنادئے گئے جن پر لکھا جاتا۔ کلاس میں بنچ نہیں تھے اور ٹاٹ بھی نہیں تھے آٹھوین اور پھر دسویں جماعت کا وہی کمرا تھا لڑکے نا صرف اپنا بستہ بلکہ ایک بوری یا ٹاٹ کا ٹکڑا بھی ساتھ لاتے کمروں کی صفائ کے لیئے لڑکوں کی باری لگائ تھی ماسٹر صاحب کے لئے کرسی تھی
ہندوستان میں دو دعائں سکول کے شروع کرنے سے پہلے پڑھی جاتی تھیں پنجاب میں چوںکہ مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی تو ایک ہی {مسلمانوں والی} پڑھی جاتی
ارض و سما میں دیکھی جلوہ نمائ تیری--- تابع ھے تیرے مولا ساری خدائ تیری
نہ کسی ہندو نے نہ کسی سکھ نے کوئ اعتراض کیا تھاوہ ایسا زمانہ تھا جب کیا ھندو کیا مسلمان سب ایک ھی چیز چاہتے تھے
انگریزوں سے آزادی
پھر آزاد ہو کر لوگوں میں وہ بات نہیں رھی تھی میں ھندو سماج سکھوں کی باتوں سے سب سے اچھی طرح واقف ہوں اور پاکستان مسلمانوں کی تھذیب اور اسلام کی روایات کے تحفّظ کے لئے ضروری سمجھتا ہوں مگر کبھی کبھی اور خصوصا" آجکل زیدہ سوچتا ہوں کہ اگر علّا مہ اقبال نے اور قاءد اعظم نے یہ سوال نہ اٹھایا ہوتا تو ھندوستان کی فضا آج کیسی ہوتی در اصل جب انگریزوں نے ہندوستانیوں کو ایک انٹیرم گورنمنٹ بنانے کی اجازت دی تھی تو موتی لال نہرو نے مسلمانوں کو بلکل نظر انداز کرتے پوئے کیبنٹ کی تشکیل دی اور اس وقت یہ مکمّل طور پر ظاھر ھو گیا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمانوں کو کس طرح حکومت سےنکال دیا جائگا اور اسی کے نتیجے میں علّامہ کوئ اور حل سوچ نھیں سکتے تھے حالاںکہ اس سے دس برس پہلے محمّد علی جناح نے جو مشورہ دیا تھا صوبائ حکومےوں جن کی آبادی زیادہ ہو ان کو حکومت کے خاص اختیارات دئے جائیں اس وقت وہ کانگرس کے بڑے لیڈر تھے اور گاںدھی جی کا بس صرف ظہور ہوا تھا لیکن انکے اس بہت پریکٹیکل مشورہ کو بھی بلکل نظر انداز کر دیا گیا
میں اسی لئے کہتا ہوں کہ پاکستان ہندوءوں نے بنایا ھے یا بنوایا ھے
آپ کو مجھ سے اختلاف ہو تو مجھے کوئ اعتراض نہیں ہوگا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, December 3, 2009

سکول کے بچوں کی سرزنش

ککرالی میں پھر بھی گائوں کا ماحول تھاپنجابی گائوں کے بچے ماشا اللہ مضبوط جسم کےمالک ہوتے ھین اس لیے ماسٹر ان کو جسمانی سزائیں بھی سخط دیتے ہیں جو ان کے لیے معمولی ہوتی ہوںگی مگر میں ان سزائوں سے ڈرتا تھا
ڈنڈے کا استعمال برا نہیں سمجھا جاتا تھا سکول میں یہ سنا تھا
چار کتابّاں عرشوں آئیاں پنجواں آیا ڈنڈا--اتنی پنجابی تو آپکو سمجھ آ سکتی ہے
پنجابی میں اس چھوٹے ڈنڈے کو 'سوٹی' کہتے ہیں تو ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب 'سوٹیان' گن کے لگاتے تھے۔ اگر بچے نے ہاتھ پیچھے ہٹا لیا اور وہ 'مس' ہو گئ تو ماسٹر بولے
'چل دو ہور ودھ گیّاں نی' یعنی ایک مس ھوئ تو دو مزید بڑھ گئں
اس طرح ایک لڑکا سکول چھوڑ گیا اس کے سر پہ چوٹ لگائ گئ تھی۔ نہ معلوم اس کا کیا بنا
کان پکڑنے اور دوسری سزاءوں کا انگریزی میں پہلے لکھ چکا ہوں پنجابی سکولوں مین کان پکڑنے کا مطلب 'مرغا بننا' ھے آٹھویں جماعت آخری کلاس سینیئر ہوتی تھی اس کے ماسٹر ہمارے ایک مولوی احمد دین مرحوم ہوتے تھے۔ ایک لڑکا ذرا غیر ذہین سا تھا ماسٹر احمد دین اسے برا بھلا کہنے کے لیے یوں کہتے
اوئے بشمبر داس تیرا ستّیاناس

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Monday, November 30, 2009

ککرالی سکول کی یادیں

مڈل سکول جب تک تھا تو کوئ خاص واقعہ نہیں ہوا- اتنا یاد ہے کہ میں نیا نیا آیا تھا اور پنجابی سمجھ آنے لگی تھی تو گائوں میں کچھ انٹرٹینمنٹ کا پروگرم نہیں تھا دو گانے والے مشہور تھے ایک تھا عنائت کوٹیا اب ممکن ہے اسکا نام کچھ اور ہو اسی نام سے مشہور تھا
دوسرا "آچھ گوچھیا لوہار کہلاتا تھا بعد میں وہ عالم لوہار جانا گیا اور اس نے نام زیادہ
o پیدا کیا یہ سب ایک چمٹا اپنے ہاتھ میں لئے ہوتے اور ایک -جوڑی والا ساتھ ہوتا- جوڑی باںسری کی جوڑی کو کہتے ہیں چنانچہ مجھے پہلے والے کا ایک شعر یاد ہے چمٹا میرا ٹم ٹم کردا جوڑی گھمبر پایا
باھر نکل کے دیکھو یارو عنایت کوٹیا آیا
ہائ ہوا تو ۱۹۴۶ میں پاکستان بننےکا پروگرام شروع ہو گیا اور ہمارے ساتھ جو ھندو اور سکھ لڑکے تھے وہ جانے شروع ہو گئے اور ہم نے نئے ماسٹر صاحب کا انتظار شروع کیا اس دوران میں جو گڑبڑ سارے ملک میں پھیلی تھی وہی ہمارے علاقے میں بھی آ گئ۔ اصل گڑ بڑ اس وقت آئ جب کشمیر کا جھگڑا شروع ہوا یعنی پاکستان بن جانے کے بعد کشمیر کی سرحد بس تین چار میل دور تھی تو ہم عام جہازوں کی بمباری دیکھتے اور سنا کرتے تھے کبھی کبھی ہندوستانی بامبر جہاز پاکستان کی سرحد کے اندر بھی سٹرافنگ کر جاتے تھے
بہر حال کشمیر کے لیے مجاھدین آنے شروع ہوئے تو ہمارے سکول پر بھی اثر پڑا وہ اس لئے کہ پٹھان لوگ سردی سے بچنے اور رات گزارنے کے لئے جگہ ڈھوںڈتے ہوئے ہمارے سکول میں آنکلے ۲۰۰ یا اس سے زیادہ کا گروہ آتا اور چند روز گزارتا ایک گائے یا بھیںس کسی کی لیکر وہ حلال کر لیتے اور آرام سےکھاتے
میری یعنی دسویں کلاس کے لئے کچھ سامان سائنس کا آیا تھا جو ہم نے الماریوں میں بند کر دیا تھا۔ سکول باہر کھیتوں مین لگنے لگا سردی ہو بارش ہو ہماری حالت خراب تھی کئ دن سکول میں کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا جب وقت نکل گیا اور گڑ بڑ کم ہوئ تو ہم واپس سکول میں آئے دیکھا کہ کمرے سب گھاس پھوںس سے بھرے ہوئے تھے اور الماریوں سے سارے سالٹ اور دیگر کیمیکل ضائع کر دیے گئےَ تھے اور فلاسک اور ٹیوب وغیرہ جوڑ توڑ کے ان لوگوں نے حقّے بنا لیے تھے اب جو سائنس کے تجربات ہونے تھے ان کا لیے ہمیں گجرات جا کے کسی اور سکول میں تین دن لگا کے مکمل کیے۔ پڑھائ کا ممکن ہے ہر جگہ اسی طرح ہرج ہوا ہوگا خیر میٹرک کا امتحان ۴۸ میں دیا اور پاس ہو کر اللہ کا شکر ادا کیا

-Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, November 22, 2009

ھمارے میٹرک کے ماسٹر صاحب

ذرا بھاری جسم شلوار قمیص اور کوٹ میں ملبوس ھمارے ناںویں جماعت کے ماسٹر صاحب سال ختم ہو رھا تھا جب ان کا تقرر ہو امجھے اس وقت نطر کی کمزوری شروع ہوئ مگر جب دسویں میں گئے تو پاکستان بن چکا تھا اور ھمارے ہندو سکھ ہم جماعت جا چکے تھے ماسٹر بشیر شاہ کی چند باتیں ظہور میں آ رھی تھیں مثلا" یہ کہ انھوں نے اپنے امام مہدی ہونے کا دعوہ کر رکھا تھا اور اس سلسے میں ایک کتاب بھی لکھی تھی جو ھماری نظر سے نہیں گذری اچھا پڑھاتے تھے مگر باقاعدہ ان کی ایسی عزت نہیں بنی جیسی ہونی چاھئے تھی ایک روز ایسا ہوا کہ آدھی چھٹی کے بعد وہ کلاس میں نہیں آئے پتہ لگا کہ گھر چلے گئے ماسٹر لوگ باتین کر رہے تھے کہ شاھ صاحب نے اپنی عمر کی کوئ پیشین گوئ سنائ تو کسی ماسٹر نے کھا کہ آج کوئ آپ کو قتل کر دے تو پھر؟ چنانچہ انھون نے سمجھا کوئ قتل کی سازش ہے بھاگ گئے دو دن بعد انھیں بڑی مشکل سے راضی کر کے واپس لایا گیا میں نے ان کےمرض کا ذکر انگریزی کے بلاگ میں کیا تھا (schizophrenia )
کچھ لڑکے شرارتی تھے تو کہنے لگے ماسٹر جی ھم نے سنا ہے کہ امام مہدی کی رگوں میں خون نہیں دودھ بہتا ھوگا کیا ھم دیکھ سکتے ھین؟ یعنی کلاس میں لڑکے بھی انہیں چھیڑتے تھے وہ ایک ہی گالی سناتے تھے وہ بھی بغیر غصے کے -- اوئے کتّیا جہیا چپ کر--
اس کے بعد ھم نے اخبار میں انکی خبر پڑھی تھی ۱۹۵۵ میں جب انھوں نے گورنمنٹ کو درخوست بھیجی کہ وہ انگلینڈ جانا چاہتے ہیں مارگریٹ سے شادی کرنی ہے۔ ان کے سادے سے فلسفے کے مطابق چونکہ ۳۴۰ خطوط لکھنے اور ان میں سے ایک کا بھی جواب نا دینے کا مطلب یہ تھا کہ وہ راضی ہے---آپ نے فارسی کی وہ کہاوت سنی ہوگی--الخاموشی نیم رضا-- تو بس ان کے انگلیںڈ پہنچنے کی ھی دیر ہے پھر اس کے بعد میرے ایک ساتھی جو پشاور میں تھے اور وہاں کےمنٹل ھاسپٹل کے انچارج تھے بتانے لگے ایک مریض کا حال تو میں نے کہا اس کا نام بشیر شاہ تو نہیں تو جواب دیا ھاں اس کے بعد میں انگلینڈ میں تھا ۱۹۶۲ میں میرے گاءوں کے لڑکوں نے مجھے بتایا کہ ماسٹر بشیر شاہ بھی انگلینڈ میں آ چکے ہیں لیکن مزید کہانیاں نہ ملیں
میں نے صرف چند باتون کا ذکر کیا ہے کہ انھین ذیابیطس بھی ہو گئی تھی اور باقی سب اس دماغی مرض کی وجہ سے تھا میرے خیال سے وہ نہایت شریف آدمی تھے اور اپنی بیماری کی وجہ سے مجبور تھے اب تو وہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہوںگے اللہ ان کی مغفرت کرے
Please visit my blog in English at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, November 19, 2009

کوٹلہ۴۴ سے ۴۸ تک

ظاہر ہے کہ جب ھندوستان سے آیا تو پنجابی نہیں بول سکتا تھا لیکن دو تین ماھ کے اندر ہی میں سمجھنے لگا تھااوردوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے ساتھ پنجابی بولنی بھی شروع کر دی مگر سکول میں چار سال اردو ھی بولتا رھا کچھ جھجک سی تھی جسے میں دور نہ کر سکا۔ سکول میں سب لوگ مجھے اردو کی ڈکشنری کہتے تھے جس لفظ کا تلفظ معلوم کرنا ہوتا تھا تو ماسٹر لوگ بھی مجھی سے پوچھتے تھے کوٹلہ گاِوں میں جو بچوں کے کھیل ہوتے تھے وہی میں بھی کھیلنے لگا اور کچھ وہاں کر ہی نھیں سکتا تھا دو سال ختم کیے اور آٹھویں کا امتحان دینا تھا یہ ورنیکلر فائنل کہلاتا تھا ساری کلاس لالہ موسی ا گئ امتحان ایک ہفتہ کا رہا وہاں سے واپسی پہ میں دوسرے بچوں کے ساتھ گجرات رات رکا وہاں ایک سکول میں میرے ہم جماعت کا ایک بڑا بھائ تھا اس کے ساتھ رات کو سنیما دیکھا فلم کا نام -گاءوں کی گوری- تھا دوسرے روز کوٹلہ واپس ہونے کا پروگرام بنایا تو معلوم ہوا بسیں نہیں جا رہیں بارش کی وجہ سے دلدل اور نالہ بھنڈر ملکر مشکل پیدا کر رہے تھے تو ہم چار لڑکوں نے ملکر ایک ٹانگہ کیا اور چل پڑے مگر ٹانگہ پیدل چل رہا تھا کیوںکہ ٹانگہ والے کے لیے گھوڑے کو چلانا دوبھر تھا اسے پیدل چلنا اور گھوڑے کو چلانا پڑ رہا تھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی کوٹلہ تین میل تھا اور شام ہو چلی تھی ٹانگے والے کو واپس اپنے گائوں جانا تھا تو وہ ہمیں جواب دے گیا اور کچھ پیسے واپس کر کے چھٹی کی
ہم لوگوں نے ایک گھوڑی کرائے پر لی اور بڑی مشکل سے غروب آفتاب کے وقت تک میں گھر پہںچا
امتحان کا ایک واقعہ سناتا چلوں ھمیں کمزور طلبا کی امداد کے لیے امتحان مین ایک طریقہ سکھایا گیا تھا جس کو ہم نے استعمال بھی کیا۔ وہ یوں کہ مشکل سوال کو ایک چھوٹے سے کاغز پر حل کر کے قلم کے اندر گھسا دیتے اور پھر کمزور لڑکا ہوشیار لڑکے سے امتحان میں قلم-وہ سروٹ کے کانے سے بنی ہوتی تھی- مانگتا اور انوجیلیٹر وہ قلم کمزور لڑکے کو پکڑا دیتا اس طرح کام بن جاتا
ھم سولہ لڑکوں میں سے بارہ پاس ہوے تھے خیر اس کے بعد سکول ھائ ہو گیا تو نویں میں داخل ہو گیے ستمبر اکتوبر میں کلاسیں شروع ہوئں یہ ۱۹۴۶ کی بات ھے پاکستان ھندوستان کا بٹوارہ ہونے والا تھا جس کی تیاریاں چل رہی تھیں میرے ساتھ جو ہندو اور سکھ لڑکے تھے ان میں کوئ گڑ بڑ نہیں تھی مگر افرا تفری بیچینی وغیرہ شروع ہو گئ ایک ماسٹر ھمارے لیے آئے وہ ماشا اللہ ایم اے تھے اور ھمارے ھیڈ ماسٹر بی اے بی ٹی-ماسٹر عبدالعزیز تھے بہت اچھی طبیعت کے تھے ایم اے ریاضی میں کرنا ۱۹۳۳ میں مسلمان کے لیے آسان نہیں تھا مگر ماسٹر بشیر احمد شاہ بڑی خوبیوں کے مالک نکلے دو سال ھم نے ان سے تعلیم حاصل کی ان کا الگ حال لکھوں تو بہتر ہوگا۔ بہر کیف ۴۷ آیا اور ہمیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لمبی کہانی ہے جو میں نے انگریزی کے بلاگ میں لکھی ھے اس کا کلک بعد میں لگائون گا ابھی مجھے سیکھنا ھے ایک اور ماسٹر لطیف سائنس کے لیے آءے چنانچہ دسوین ختم کرتے کرتے عملہ تقریبا" پورا ہو گیا تھا مگر طاہر ھے کہ ہماری پڑھائ میں بہت حرج ہوا تھا بٹوارہ کی گڑبڑ وغیرہ اور پھر کشمیر کی جںگ شروع ہو گئ ۱۹۴۸ میں جب گجرات امتحان دینے گئے تو پھر ہم سولہ لڑکے تھے اور بارہ پاس ہوے اس کے بعد تو مجھے واقعی لاہور جانا تھا زمیندارہ کالج گجرات میں تعلیم ایسی نہیں تھی کہ میرے مستقبل پہ پوری اترتی میٹرک کا نتیجہ نکلا تو میری پوزیشن کلاس میں تیسری تھی مگر سب لڑکے سیکنڈ اور تھرڈ کلاس میں تھے فرسٹ ڈویژن کسی کی بھی نہیں تھی میرے بڑے بھائ نے ایم بی بی ایس کیا تھا ان کے پاس لاہور گیا کالج میں داخلے کے لیے
اب اتنے عرصہ کے بعد میں پھر شھر میں آ رہا تھا سب کچھ نیا تھا اور میرے لیے بڑی کشش رکھتا تھا
لاہور ۴۸ سے ۵۹ تک رہا چنانچہ اس کی داستان الگ لکھوں گا اپنے ماسٹر صاحب کا قصہ پہلے سنالوں اللہ مجھے معاف کرے کیوںکہ اس میں انکی کچھ برائ کا سامان بھی پیدا ہوگا۔

Please visit my Englishblog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, November 15, 2009

ککرالی سکول اور کوٹلہ

یہ ککرالی سکول کی عمارت ھے مگر موجودہ زمانے والی اور اسے گورنمنٹ ہائ سکول لکھا ہے اس وقت یہ ڈی بی مڈل سکول تھا ۱۹۴۴میں جب میں
پنجاب آیاتو میرا اسی سکول میں داخلہ ھوا اور یہاں میں نے دسویں جماعت پاس کی تھی اس وقت یہ سکول مڈل تھا اور میں ساتویں میں داخل ہوا۔ سکول کا گیٹ وہی ہے مگر پرانی عمارت ڈھا دی گئ ہے اور نئ عمارت کھڑی کی گئ ہے میں نے مڈل پاس کیا تو اس کو ہائ بنانے کی تحریک چل رہی تھی اور مجھے سکول لیونگ سرٹیفکِٹ دینے سے انکار کر دیا گیا کہ میں اچھے اور ذہین طلبا میں شمار کیا جاتا تھا تو مجبور تھا گھر والے بھی میری چھوٹی عمر کو دیکھتے ہوے راضی ہو گئے تو اسی سکول میں ناویں جماعت میں داخل ہوا اور یہیں سے میٹرک کا امتحان دیاتھا اس وجہ سے آپ دیکھ سکتے ھیں کہ میں اس سکول کا پہلا میٹریکولیٹ ہوں یعنی۱۹۴۸ کا
میں نے اس کے متعلق پہلے انگریزی بلاگ میں لکھا تھا اس میں تفصیل ملاحظہ فرمایئں یعنی میں نے اسی ایک اسکول سے دو مرتبہ گریجوایٹ کیا
ککرالی میرے گائوں کوٹلہ سے ایک میل دور ھے تو ھم سب بچے روزانہ پیدل جایا کرتے تھے خوب مزا رہتا تھا آنے جانے کا سب کھیلتے ہوے جاتے اور کھیلتے ہوے واپس آتےککرالی اس وقت بڑا گائوں تھا اور بازار بھی بڑا تھا اس لیے لوگ کوٹلہ کو -کوٹلہ ککرالی- بھی کہا کرتے تھے وہاں سے مڈل پاس کرنے کی الگ اور ھائ پاس کرنے کی الگ کہانی ہے فی الحال صرف اتنا ہی لکھوں گا اور کچھ کوٹلے کے متعلق کوٹلہ میں بھی اچھا خاصا بازار تھا اور کسانوں کی ضرورت کی ساری چیزیں دستیاب تھیں کچھ روزانہ کی کھانے پینے کی بھی تھیں جیسے سبزی یا گوشت جو میرے پڑوسی قصائ کیا کرتے تھے بٹوارے کے بعد کوٹلے کی اھمیت میں بھت اضافہ ہوا اور گائوں قصبہ یا شہر میں تبدیل ہو گیاکوٹلہ میں ہمارے گھر کے سامنے ہی ایک چھوٹا سا سکول تھا جو پرائمری تھا اب تو وہاں بڑا سکول بن گیا ھے لیکن اس عمارت میں نہیں کہیں اور ھے۔ ہمارے خاندان کے پنجاب آنے سے پہلے گھر میں میرے بڑے ماموں رہتے تھے کہ وہ اس سکول میں پڑھاتے تھے میں نے اس گھر میں یعنی کوٹلے میں اپنی زندگی کے چار برس گزارے ہیں
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, November 3, 2009

کوٹلہ اربعلیخان، ضلع گجرات، پنجاب


ساگر سے کوٹلہ تک کا سفر بذریعہ ریل گاڑی لاری یعنی بس اور تانگہ وغیرہ

مئ کا مہینہ تھا گرمی شروع ہو چکی تھی میں نے چھٹی جماعت کا امتحان پاس کر لیا تھا میاں جی {میرے والد مرحوم}اور
ککّاجی کے ساتھ ریل گاڑی کا تین دن کا سفر تھا چنانچہ پہلی رات ھم دہلی میں کہیں رکے تھے اور دوسری صبح پھر ریل میں {یاد رھے کہ ھمارے والد مرحوم گاندھی جی کے نقش قدم پر چلتے ھوئے ھمیشہ تیسرے درجہ میں سفر کرتے تھے, مگر اس وقت ھم دس یا گیارہ برس کی عمر میں نئے شہر, نئی جگہ وغیرہ دیکھنے کے لیئے سفر کی ہر صعودت برداشت کر سکتے تھے}سوار ہوئےاور صبح ابھی اندھیرا ہی تھا کہ گجرات کے اسٹیشن پر اتر کر بسوں کے اڈے پہ آئَے وھان ھمیں ایک بڑے سے گلاس میں دودھ یا لسّی پینے کو دی گئِ اتنا بڑا گلاس ہم نے پہلی دفعہ دیکھا تھا سورج نکلنے پر وہ بس چلی اور شہر گجرات سے نکل کر ایک دوگائون گزرنے کے بعرایک برساتی نالے کے کنارے ٹھر گئ جس کا نام بھنڈر ھے اور اسے دواڑا بھی کہتے ھیں نالےمیں پانی تو زیادہ نیں تھا مگر ریت ایسی تھی کہ سواریوں سمیت گاڑی کو اس میں سے بغیر پھںسے نکال لے جانا مشکل تھا تو ساری سواریاں اتار دی گئیں اور ھم نے نالہ پیدل پار کیا دوسری طرف
گاڑی پہںچ چکی تھی ھم پھر بس میں بیٹھے اور بس کوٹلہ پہنچنے پہلے مختلف گاءوں میں سواریاں اتارتی ہوئ چلتی رہی اس وجہ سے یہ ۱۹ میل کا رستہ ایک گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ مین طے ھوتاتھا اس دن بارش کی وجہ سے تین چار گھنٹے کا-اس وقت گجرات میں جی پی ایس رcکوٹلہ کے درمیان "گجرات پنجاب بس سروس" کی چار بسیں آیا جایا کرتی تھیں اس کے علاوہ اور کوءی دوسری سروس کمپنی نہیں تھی۔ کوٹلہ کا نام اسی طرح لکھ جاتا تھا جیسے اوپر لکھا ھے اور ارب علی خاں بھی اس علاقے میں کئ اور کوٹلے بھی تھے اس وجہ سے کوٹلہ کے ساتھ یہ لکھنا لازمی تھا کئ لوگ اس کو -کوٹلہ ککرالی- بھی کہتے تھے ککرالی ایک اور گائوں تھا جو ایک میل دور تھا ۔ اس وقت وھاں زیادہ دوکانیں تھیں، تھانہ بھی تھا اور ایک مڈل سکول تھا چنانچہ ککرالی اس سے بڑا گائوں سمجھا جاتا تھاوقت کے ساتھ اب حیثیت الٹ چکی ھے ککرالی چھوٹا اور کوٹلہ اب بڑا قصبہ بن گیا ھےبلکہ بازار اور بینک وغیرہ دیکھیں تو اسے اب شہر ھی ماننا چاہیے
 بس سے اترنے پر مجھے ابھی تک یاد ہے ذرینہ عمر چھ برس- اڈے پہ آئ اور گود میں اجمل- عمر تین برس- کو اٹھایا ہوا تھا


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, October 22, 2009

ساگر شھر کی مزید یادیں

-معافی چاہتا ہوں تصویر پھر مدّھم ھے لیکن مسجد کو بخوبی ظاھر کر رہی ھے
میری آوٹلائن نظر آ رہی ھےاور یہ پتہ نہیں چل رھا- شائد میرا چہرہ آپ کی طرف ھے یہی سمجھا جائَگا

ساگر کی جامع مسجد بڑی خوبصورت بن گئ ھے میں تصویر میں عین اس کےدروازے کے سامنے کھڑا ھوں اس مسجد کے پوزیشن عین بیچ چوراھے کے ھَے جس سڑک پر میں کھڑا ھوں وہ میرے پرائمری اسکول - پڑائو اسکول-کی طرف جاتی ھے اور بس صرف چند قدم ھی دور ھے میرے دائں جانب اور مسجد کےبائیں پر جو سڑک جا رہی ہے وہ ریلوے سٹیشن جاتی ھے۔ میرے بائین اور مسجد کے دائین جو سڑک جاتی ھے وہ کٹڑہ بازار ھے جس پر میرامیونسپل اسکول ھے جس میں میں نے پاںچویں اور چھٹی پڑھی تھی۔ جو مسجد کے پیچھے سڑک ھےوہ بھی بازار ھے مسجد سیڑھیاں چڑھ کے آتی ھے نچلی منزل پر
سب دوکانیں ھیں جن کے کرائے مسجد کو جاتے ھین اس مسجد میں اپنے والد مرحوم کے ساتھ میں جمعہ پڑھنے جاتا تھاکٹڑہ بازار میں بہت سی یادیں ھیں بکری کے لیے چارہ لینے اور اپنے مڈل سکول سے نکل کر بازار کی سیر کرنے کا یاد ہے جہاں دوکانوں کے سامنے مجمع لگا کر تماشہ دکھانے والے آتے تھے ایک بچھو کے کاٹے کا علاج بتاتا تھا جس سے مجھے ڈر لگتا تھا کیوںکہ مجھے بچھو کے کاٹنے کا تجربہ ھو چکا تھا۔ ایک اور ساںپ اور نیولے کی لڑائ دکھاتا تھا۔
مسجد کی دوسری طرف جو سڑک سٹیشن جاتی ھے اس پر میری چھٹی جماعت کی ٹمپریری کلاسیں لگی تھیں وھاں اب بھی میدان ھے جس پر میرے والد مرحوم نے وہ دھواںدار کلاسیکل تقریر کی تھی ۱۹۴۲ جس نے شہر کے لوگوں کو اتنا اکسا دیا تھا کہ ڈاکخانے کو آگ لگا دی گئ تارین توڑ دیں وغیرہ اور اسی رات انھیں برطانیہ گورنمنٹ نے حراست میں لے لیا تھا-وہ کانگرس کے سی پی و برار کے صدر تھے آجکل وھاں بسیں ٹانگے وغیرہ کھڑے رہتے ھیں
میرے والد حکیم تھے اور اس جیل کاٹنے کے بعد انھوں نے کانگرس سے استعفہ دے دیا تھا جیل سے رھائ ڈیڑھ سال کی قید کے بعد ھوئ اور جنوری '۴۴میں سارا کنبہ پنجاب منتقل ہو گیا صرف میں اور میرے ساتھ ککا جی اور میرے بڑے بھائ --ڈاکٹر سراج --اور ان کے بچے رہ گئے جو بعد میں پنجاب گئے میں اور ککاجی مئ جون میں پنجاب گئے تھے
جب تک والد جیل میں رہے میں اور میری بہن تالاب میں مچھلیوں کو آٹے کی گولیاں چنانے جایا کرتے تھے ان گولیوں پر امّاں جی نے کچھ پڑھا ہوتا تھا
مڈل سکول میں ایک میدان ہے جس میں میں اور حلیم نے ایک دوڑ جیتی تھی سالانہ کھیل ھوںگے جب جلسہ تقسیم انعامات ہوءا تو میرے والد نے ہی انعام دیے تھے وہ شہر کی میونسپل کمیٹی کے بھی صدر تھے اور مجھے یاد ھے کہ انکے ھاتھوں سے انعٰام لیتے ہوئے مجھے کتنی شرم آئ تھی اور وہ پیلی سی بنیان مجھے بہت اچھی لگی تھی
چلیئے اب پنجاب چلیں کوٹلہ ارب علیخاں نام ہے اس گائوں کا جھاں میں زندگی میں دوسری بار آیاتھا پہلی بار بڑی آپا کی شادی پر جب میرے چھوٹے بھائ منہاج کا انتقال بھی ہئوا شادی کچھ دن کے لیئے رکی تھی میں کوئ پاںچ چھ برس کا تھا
ایک اور بات بھول رہا تھا لکھتا چلوں
ساءکل چلانی اسی میونسپل سکول کے میدان میں سیکھی تھی۔ کٹڑہ بازار سے کرایے پر دو پیسے میں آدھے گھنٹے کے لیئے لی تھی اور اتنا مزا آیا تھا کہ ابھی تک یاد ھے بس اس روز کے بعد ہم ساءکل چلانا سیکھ گئے یہ پوسٹ ھم نے نومبر کی تین تاریخ کو مکمل کی اور اب ھم پنجاب چلیں گے

Sunday, October 11, 2009

میری پیداءش-۲











آج کا دن ھے جب میں ساگر میں۷۶ برس پہلے پیدا ہوءا تھا

گھر کا کچھ نقشہ آپ کے لیے کھینچا تھا اب کچھ اور لکھوں گا۔
رءیسوں کے گھروں میں ان دنوں مہمان خانہ- ڈیوڑھی- اصطبل- بیٹھک وغیرہ قسم کے کمرے ہوتے تھے اور زنانہ و مردانہ کمرے الگ اور ظاھر ھے کہ ۔ باورچی خانہ غسل خانہ وغیرہ بھی اس طور سے جہاں مناسب جگہ ہوتی بناءے جاتےبیٹھک ایک بڑا سا کمرہ ہوتا تھا جس میں سفید "چاںدنی" کا فرش یعنی بڑی سی چادر بچھا کر بناتے اس کی دیوار کے ساتھ سلیقے سے گاءو تکیے رکھے جاتے اور بھت ہوءا تو بیچ میں قالین بچھا دیا جاتا عین اس کے درمیان فرشی حقہ رکھا جاتا کھانا تناول فرماءیے تو وہیں دسترخوان بچھادیا جاتا اور اس سے پہلے سلفچی لیکر نوکر ھر مہمان کے ھاتھ دھلاتا نوکر کے کاںدھے پہ تولیہ پڑا ھوتا مھمان کے ھاتھ خشک کرنے کو

بچپن میں مجھے ایسی محفل میں کھانےکا اور تمیز سے بیٹھنا سیکھنے کا تجربہ ہوءا ھے جو میں اس وقت یاد کر رھا ہوں اس وقت ابھی میز کرسیاں دیسی لوگوں میں نہیں چلی تھیں اور صوفہ بھی بعد میں آیا جہاں تک مجھے یاد ھے ھندوءوں میں بھی رکھ رکھاءو اسی قسم کا تھا۔ ھمارے گھر کے عین سامنے ایک وکیلوں کا گھر تھا ان کے بچوں سے میں کھیلا کرتا تھا۔ ہندو اپنے باورچی خانے کی صفاءی کا از حد خیال رکھتے ھیں جسے وہ چوکا کہتے ھیں۔ مسلمان ہونے کے لحاظ سے مجھے چوکے مین جانا منع تھا کبھی کھیل کھیل میں اگر میں چوکے میں سے نکل جاتا تو چندوکی اماں مجھے کچھ نہیں کہتی تھین چوکے کی صفاءی کر دیتی تھین ان کے گھر میں باغ بھی تھا جس میں ھمارے سارے گھرانے کی تصویر بھی لی گئ تھی میں اس وقت سات سال کا تھا چنانچہ اس سے صاف ظاھر ھے کہ ھمارے گھرانے کے تعلقات ان سے کیسے تھے میرا دوست چندو جس کا نام چندر موھن تھا ماں باپ کا اکلوتا تھا اس کے چچا وکیل تھے دوسرے وکیل صاحب کےبچے کا نام راجیندر تھا جسے ھم رجّن کہتے تھے رجّن سے چھوٹی سرلا تھی تو ھم سب اکٹھے کھیلتے ان کے مکان کاصدر دروازہ دوسری طرف کھلتا تھا جو سڑک پر تھا مین جب ۲۰۰۶ میں وھاں گیا تو وکیلوں کا گھر کسی اور نے لے لیا تھا اور چندو سے ملاقات نہ ہو سکی ان کے ایک اور رشتہ دار وکیل کبھی کبھی آتے تھے تو میں بہت خوش ہوتا تھا کیوںکہ وہ وکیلن بچوں کے لیے مٹھائ کی گولیاں لاتی تھیں اور ان کے آنے پر باجا بھی بجایا جاتا وہ گراموفون ان دنوں اتنا خوبصورت لگتا تھا کہ کچھ نا پوچھیے اس کی چھوٹی سی سوئ میں بچا کر رکھ لیتا وہ بھی بڑی اچھی لگتی چابی بھرنے کو ھم سب بچّے تیار رہتے تھے چابی بھرنا اچھا خاصا مزیدار کام تھا ایک دو رکارڈ تھے جو بجائے جاتے جیسے-- اک بنگلہ بنے نیارا۔
شھر ساگر میں ایک سنیما تھاباوجود اس کے کہ ھمارے ابّا جان اس کے خلاف تھے کچھ فلمیں دیکھنے کی اجازت تھی اور سارے خاندان کو سواءے ابّا جان کے --تو ھمیں ایسی فلموں کا بیچینی سے انتظار رھتا تھا مثال کے طور پہ فلم سکندر اعظم کی اجازت ملی تھی تو جیسے ہی اس کے اشتھار آءے ھم یہ خبر دینے گھر کو دوڑے۔ سنیما حال میں پردے والی عورتوں کا انتظام تھا جس میں مولوی صاحب کا خاندان فلم دیکھنے کو بٹھایا جاتا --وہ بھی کیا دن تھے
اپنے ہندی بلاگ میں اپنے اسکول کا لکھ چکا ہوں تصویر بھی وھاں دیکھ لیجے پہلی سے چھٹی جماعت تک میرے ساتھ بیٹھنے والے چار لڑکے تھےیعنی میرے علاوہ تین اور وہ تھے شفیع اللہ، اسحاق اور حلیم۔ شفیع اللہ تو جلد ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے ۲۰۰۶ میں میری ملاقات رٹائرڈ سکول ماسٹر اسحاق سے ساگر میں ہوئ اور حلیم ساگری رٹاءرڈ وکیل کے ساتھ بھوپال میں ہوئ تھی ھم ۱۹۴۵ میں جدا ہوے تھے کیا ملاقات تھی ان کی تصاویر لگانے کی کوشش کروںگااب اوپر تصویریں سکول والی دو اسحاق کے ساتھ اور ایک حلیم کے ساتھ نیچے والی-- اسحاق اور میں ساگر تالاب کے کنارے کھڑے ھیں اسے لوگ جھیل کہتے ہیں ھماری بچپنے کی زبان میں --تلاءو-- کہا جاتا تھا آجکل پانی خراب ہو چکا ھے تو نہانے کے کیے استعمال نہیں کیا جاتا مگر ھم نے تیرنا اسی تالاب میں سیکھا تھا لوگ صبح صبح نہانے آتے تھے زیادہ تر مرد-چتربھج گھاٹ- پہ نہاتے عورتیں الگ گھاٹ پہ نہاتی تھیں ایک گھاٹ صرف جانوروں کے لیے تھا جس میں گائں بھیںسیں اور ہاتھی وغیرہ لوگ لیکر آتے تھے- نہمعلوم ہاتھی کن صاحبوں نے رکّھے ہوں گے

Wednesday, October 7, 2009

میری پیدائش

میں یہاں پیدا ہوا تھا
یہ شہر ساگر کے ایک محلہ پرکوٹہ کا مکان ھے
ایک تصویر میں آپ مجھے اس کے دروازے
کے عین سامنے کھڑا دیکھ رہے ھیں
دوسری تصویر میں اس مکان کے موجودہ کرائے دار نظر آ رھے ھیں اور میں ان کے آگے ہوں
مکان کی پوری دیوار ھے جس کو دکھانا مقصود ھے۔ میرے بچپن کے دوست اور ھم جماعت اسحاق صاحب سفید کپڑون میں ملبوس کھڑے ھین
تصویریں بہت ھی معمولی کیمرے سے لی تھیں اس لیئے ایسی ھیں معافی چاہتا ہوں مکان کا دروزہ وہی ہے اور اس کے ساتھ والا بڑا چوکور سا دروازہ در اصل میرے والد مرحوم کا مطب کا دروازہ تھا گھر میں آنے جاںے کا دروازہ وہی ھے جس کے سامنے میں کھڑا ہوں باءیں والی تصویر میں
ہوئا یوں کہ نیا ڈجیٹل کیمرا تھا مگر اس کی بیٹری ختم ہو نے پر مجھے ھندستانی بیٹری خریدنی پڑی اور وہ کام نا کر سکی اور یہ عین ساگر پہںچنے پر ھوا میری بیچینی اور بد نصیبی کا آپ اندازہ لگائں کہ تریسٹھ برس کے بعد ایک موقع ملا کہ اس شھر میں جاءون اور ظاہر ہے اس کے بعد اب کیسے جانا ہوگا اور اس وقت میرے ساتھ یہ حرکت ہوئ بہت چیں بجیں ھوا مگر مرتا کیا نہ کرتا اپنے عزیز سے کیمرا ادھار لیکر چند تصاویر لی تھیں کہ یھی اب یادگار ہوںگی
خیر کچھ تو آپکی خدمت میں پیش کر رھا ہوں اس گھر کو ھماری اماں جان اور ابا جان نے اباد کیا تھا
"تقریبا
سارے بچے وہیں پیدا ھوے سوائ ایک دو کے بلکہ مجھے تو ابتک اس دایہ کا نام بھی یاد ھے اور میں جھوٹ نھیں کہ رھا میری بھی پیدائش اسی کے مبارک ھاتھوں سے ھوئ ہو گی رکمنی بائ کہتے تھے انھیں
یہ مکان بیسویں صدی کے اوائل میں بنوایا گیا تھا اور اس میں کوئ رئیسانہ ٹھاٹھ نہیں تھے ھماری اماں جان نہایت سادہ لوح تھیں اور سادگی پسند بھی چنانچہ اس گھر میں ایک بڑا کمرہ اوپر اور ایک بڑاکمرہ نیچے کی منزل پہ تھا اور ان کے ساتھ ایک چھوٹا یا دو چھوٹے کمرے تھے انھین کمروں میں رھنا سونا کھیلنا وغیرہ تھا اور آنے جانے والوں اوربیٹھنے بٹھانے کے لیےآنگن یا بڑا کمرہ استعمال کیا جاتا تھا
مطب میں ایک کرسی تھی ایک بنچ اور سارے کمرے میں ایک چٹائ تھی ان پر ہر قسم کے مریض اور ملنے والے سب بیٹھتے تھے اور کوئ علیحدہ بیٹھک نہیں تھی اوپر کے بڑے کمرے میں ایک طرف پردہ ڈال کے ایک کمرہ سا تھا جس میں میرے بڑے بھائ مرحوم کی میز کرسی تھی جس پر وہ اپنی پڑھائ کرتے تھے باقی ایک باورچی خانی اور بڑا سا برآمدہ تھ غسل کے لیے ایک کونے میں جگہ تھی اور اسی قسم کی جگہ آنگن میں بھی تھی جس کو وہاں کی زبان میں ھم -سپرنا - کہتے تھے
بس اللہ اللہ خیر سلا
کوئ ڈراءنگ روم کوئ بیڈ روم کوئ سٹڈی کوئ باتھ روم وغیرہ کچھ نہیں تھا کیسے اماں جان اپنا بھرم رکھتی تھیں ھمیں کچھ پتا نہیں بلکہ اچھی خاصی عزت سے ھم ایسے گھر میں رہے اماں جان بجلی کے خلاف تھین تو لالٹین کی روشنی ہوا کرتی تھی میری زندگی کے پہلے دس برس اسی جگہ گزرے آئندہ مزید دوسرے گھر اور جگہ کا ذکر شروع کروںگا

Saturday, September 26, 2009

رام پرشاد کی شادی

رام پرشاد کا باپ تھا تو بس ایک پنواڑی مگر اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی بڑی شان سے کی ابھی بمشکل بیٹے کی مونچھیں ہی بھیگی تھیں کہ بڑے چاءو سے اسکی شادی رچا ئ ۔اس کے گھر سے ھمارے گھر تک پںگت بیٹھی اور جیسا کہ ہندوءوں میں رواج تھا مختلف کھانے پرسے گےء کیلے کے پیڑوں کے بڑے بڑے پتّے رکھےّ جن پر کھانا پرسا گیا۔ ہم تو اس وقت بہت چھوٹے تھے دور سے سارا تماشا دیکھا۔ کچھ آتش بازی بھی تھی اور ڈھول ڈھمکّابھی
اب یہ ہے کہ کوئ خاص بات تو نھیں تھی لیکن جب شادی کے تیسرے دن دلھن گھر چلی گئ تو سارے محلّے میں سرگوشیاں شروع ہو گئں کہ کیا بات ھوئ اس وقت تو ہمیں معلوم نہیں ہوءا بعد میں جب ھم بڑے ہوے تو پتا چلا اللہ نے رام پرشاد کو جسم تو مردانہ عطا کیا تھا مگر اس کے اندر زنانہ ذہن اور غالبا" اندرونی ساخت میں کچھ زنانہ عضو بھی ھوںگے جن کے بارے میں ہم صرف اتنا ھی لکھنے پر اکتفا کرتے ھین کیوںکہ رام پرشاد اس کے بعد ھمارے گھر کے باقاعدہ ایک اہم فرد بنے مسلمان ہوکر ساری زیندگی نماز روزوں میں گزاری اور اپنا نام خود شمشاد تجویز کیا تھا اللہ انھیں غریق رحمت کرے ھمارے اندازے کے مطابق وہ جنتّی آدمی تھے

Thursday, September 24, 2009

ٹرو

یہ درست ھے کہ در اصل ٹرو گزرے ہوءے کءی دن جا چکے ہیں مگر آپ جانتے ہیں کہ عید کا وقت پارٹیوں میں لگ جاتا ہے اس لءے اتنی دیر ہو گیء
ٹرو کا لفظ جانے کہاں سے آیا لیکن انگلینڈ میں جب میں "باکسنگ ڈے" مناتے دیکہتا تھا تو ٹرو یاد آتا تھا
عیدالفطر کو میٹھی عید کھاجاتا ھےاور سوءیوں کے بغیر عیدالفطر نہیں بنتی مغرب میں عید مختلف ہو جاتی ہے کیوںکہ یہاں تمام دنیا کے اور قسم قسم کے مسلمان بستے ھیں رنگارنگ اور بھاںت بھاںت کے کپڑوں میں ملبوس افریقی امریکی یورپی پاکستانی ھندوستانی بنگلا دیشی چینی جاپانی اور نا معلوم کہاں کہاں کے مسلمان دیکھ کے طبیعت بہت ھشاش ھو جاتی ھےمجھے یاد ھے میری پاکستان سے باھر پہلی عیدکی نماز میں نے"ووکنگ" میں پڑی تھی "
ایسا لگتا تھا کہ حج پہ ھوں مختلف ممالک کے مسلمانوں کو پھلی بار دیکھا تھا۔ حج اور ایسی عیدیں اب کِیء بار دیکھ چکا ھوں لیکن وہ عظیم مقصد جس کو ھم مسلمان بھلا بیٹھے ھیں اور جس کی تعلیم ھمیں ان اجتماعی عبادات میں دی جاتی ھے وہ یکسر مفقود ہے کاش کہ مسلمان اسی طرح اکٹھے ہوتے اور
وہ "بنیان مرصوص" ----سورہ صف---- بنا دیتے تو ھمیں آج یہ ذلتیں اور غلامیاں نا ملتیں
بقول علامہ اقبال مرحوم
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
ھر ملک ھر مقام ھر جگہ مسلمانوں کے آپس میں جھگڑے ھیں اور مسلمان ھی ایک دوسرے کو قتل کرتے جا رھے ھین ابھی بلیک واٹر کراچی والوں کے متعلق پڑھا تو حیران رھ گیا کہ ان لوگوں کے کیسے عزاءم ھیں وہی لوگ جنہوں نے پاکستان بنوایا تھا اب انھیں کے ھاتھون اس ملک کی تباہی آ رہی ھے اللہ رحم کرے

Monday, September 14, 2009

افتتاحیہ

آج سوچا کہ اللہ کا نام لے کر شروع کر ہی دوں
اس بلاگ میں اپنی کہانی بھی ہوگی اور مزید اپنے ان خیالات و احساسات کا اظہار بہی جن کو ایک عرصہ سے ذہن کے نامعلوم گوشوں میں چھپاءے اب تک بیٹھا رہا ہوں
اول یہ کہ میرا تعرف وہی ھے جو "ساگری کا ھے صرف بی اس سی کا اضافہ کیا ھے کہ یھی دونوں
نام میرے ھیں
ساگری انگریزی میں لکھا ہوا عجیب سا تاثر پیدا کر رھا تھا اب آسانی سے سمجھا جا سکتا ھے کہ شہر ساگر سے تعلق رکھتا ہوں اور بی ایس سی میرے ان دوستوں کا دیا ہوا خطاب ہے جو میرے ھم جماعت احباب نے عطا کیا تھا کہ اپنے گروپ میں --یعنی میڈیکل کالج کے --- میں اکیلا بی ایس سی تھا اور کوءی ایسی خصوصیت نھیں ھے