Monday, December 12, 2016

بارہ ربیع الاول اور پاکستان میں جشن میلا د النبی

آج میرے کلینڈر کے مطابق ۱۳ ربیع الاول ہے لیکن پاکستان مین آج بارہ منائ جا رہی ہے اور نہایت زور شور سے=
 نعتوں کی محفلیں عورتوں کی بھی اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں یعنی جلوس  مولویوں کی تقریریں اور وزیر اعظم کی تقریر جس میں وہ اپنی سیاسی دکان چمکاتے ہیں وغیرہ وغیرہ میڈیا اپنی اپنی کمپنیوں کے فروغ میں الگ پاکستان کے شہر شہر مین نمائندوں کی رپورٹین سنا رہے ہیں
یہ سب کچھ میں عرصہ سے دیکھتا آرہا ہوں
لیکن آج جو مزید نظر آیا ہے اس نے مجھے لکھنے پہ مجبور کیا ہے  میلاد النبی کے جشنوں کا افتتاح اکیس اور اکتیس توپوں کی سلامی سے ہو رہا ہے اور فوجی جواں نہایت جوش و خروش سے نعرے لگاتے دکھائے گئے نعرہ تکبیر اللہ و اکبر اور نعرہ رسالت یا رسول اللہ  چلیئے یہ بھی مان لیا کہ اس میلاد میں شامل کر لیا گیا مگر مزید یہ کہ دودھ کی سبیلیں لگائ گئ ہیں اور حلوے کی میگا دیگیں دیکھی اور ہزاروں لوگوں نے حلوا کھایا اور دودھ پیا یعنی مفت اس پہ مزید یہ کہ بہت سے کیک بھی شامل ہو گئے ہیں بڑے بڑے مولویوں سے بڑے بڑے کیک کٹوائے جا رہے ہیں اور باقی کے لوگوں میں کیک بانٹے جا  رہے ہیں یہ اب پکّی بات ہوگئ کہ آنحضور\صل اللہ وعلیہ وسلم کی سالگرہ  یوم پیدائش یعنی آپ کا یوم ولادت باسعارت اب مغرب زدگی کے زیر اثر برتھڈے بن گیا ہے
اللہ اللہ خیر سلّا
ادھر پاکستان کی اہل سنت وا؛جماعت کے سر براہ فرماتے ہیں کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی ولادت کو زور شور سے منانا ایمان کی دلیل ہے آج سے پچاس برس پہلے یہ جوش  وخروش ہم نے تو نہیں دیکھا تھا تو کیا ہمارا یعنی پاکستانیوں کا ایمان واقعی اتنی ترقی کر گیا ہے

Please visit my English blog at

Saturday, October 29, 2016

نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند

فارسی مطلب جس کا یوں ہے-
 ٹائٹل دیکھئے-

 ہر شخص جس کا سرمنڈا ہوا ہے وہ ضروری نہیں قلندر ہو یا قلندری جانتا ہو
میری سفید ریشی صورت اور پنبہ سری ملا کر دیکیں تو لگتا ہے میں ایک -بابا - ہوں
 مگر اس قسم کا نہیں جس کا ذکر لوگ عزّت سے کرتے ہیں اور ان کے اقوال کو موتیوں کی طرح سمجھتے ہیں
 یعنی میں بابا نظر آتا ہوں مگر بابا نہیں ہوں



Please visit my English blog at Saugoree

Wednesday, September 21, 2016

زبان قران مجید ایک غیر مسلم کی نظر میں

ایک انگریز بنام جان پین ریس جس نے قران مجید کی گلاسری پر کتاب لکھی ہے اس کی عبارت کے بارے میں یوں قلمطراز ہے[1873
"
اس کی توقّع تو نہیں کی جا سکتی کہ[قران مجید کی عبارت کی] تمامتر ماورائے ادراک عمدگی اور حیرت انگیز حسن و جمال جن کا انکشاف قران کریم کے مفسّرین اور دیگر شارحین پر ہوتا ہے وہ بلا تاخیر ہماری سرد اور بےدرد تنقیدی نظر کے سامنے عیاں ہو جائیں حسن و جمال کی مثالیں تعداد میں وافر اور عظیم ہیں، نہایت عمدہ مقاصد'- موزوں اور مسجّع عبارت میں لپٹی ہوئ =جو گاہے گاہے  جلال و جمال کی ایسی بلندی پہ پہنچ جاتی ہیں کہ کسی بھی ترجمہ کی رسائ سے بعید ہو جاتی ہیں
مگر بدقسمتی سے معاملہ یوں ہے کہ اکثر ایسی جمالیات جو ایک باکمال عالم کے لئے سامان مدح و ثنآ کے مواقع پیش کرتی ہیں وہ ایک نو آموز کے لئے باعث الجھن اور ناقابل فہم بن جاتی ہیں وہ معجزانہ جامعیت جو ان کلمات کو بے انتہا شدّت اور تقویت بخشتی ہے اسے حیرت اور الجھن میں ڈالے بغیر نہیں رہ سکتی جبکہ الفاظ کی خوبصورت خمیدگی اکژوبیشتر اس کے ذہن میں ابہام کا تاثّر چھوڑ جاتی ہےا ور اس قسم کی عبارت کسی نبی کی خطیبانہ امتیازی خصوصیت کے عین مطابق ہے
"
میں نے کوشش تو کی ہے مگر مجھے اس اعتراف میں کوئ تامّل نہیں کہ انگریزی زبان میں جو اس کا مزا ہے وہ میں اس اردو میں پیدا نہیں کر سکا
 انگریزی بلاگ میں ملاحظہ کیجئے

Please visit my English blog at Saugoree

Thursday, September 8, 2016

حقوق زوجین کا بیان

جب ہم کالج مین تھے تو ایک نیا ادبی رسالہ نکالا گیا جو حد درجہ مقبول ہوا وہ اعلےا ترین سطح کے مقالات اور نظوم و افسانوں سے بھرپور رہا جس میں ملک   کے چوٹی کے قلمکاروں کے نام پائے جاتے تھے نام تھا  نقوش    
 اس کے کئ سالنامے اقبال نمبر قران نمبر رسول نمبر اردو ادب کے ایک ذخیرے کی مانند ہیں اور انکی کئ کئ جلدین ہیں یہاں ایک جلد ششم رسول نمبر کے حوالے سے ایک نکتہ  آپکے گوش گزار کرنا چاہتاہون کہ مجھے کھٹک رہا ہے گو اس میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بھی ہیں یہ دسمبر ۸۳ کا شمارہ ہے ایک اچھی بات پہلے
بتالوں یہ کہ احادیث کی کتابت اور تدوین وغیرہ کے بڑے معلومات افزا مقالوں میں ایک بات پسند آئ کہ یہ ایک بیش قیمت تاریخی کتابت ہے محض اسلامی یا مذہبی تعلیم نہیں اور اس کے مضبوط دلائل پیش کئے گئے ہیں
              جب زوجین کے متعلق احادیث لکھی جاتی ہیں تو اس میں رسول اللہ صل اللہ و علیہ وسلم کے جو اقوال درج کئے جاتے ہیں ان میں زیادہ تر مردوں کےحقوق 
 ہوتے ہیں اور ایک دو عورتوں کے بھی جو ہوں ان میں بھی وہی مردوں کی بات لکھی ہوتی ہے آںحضرت صل اللہ علیہ وسلم نے ممکن ہے عورتوں کے مزید بیان کئے ہوں لیکن وہ لکھنے والوں نے قابل تحریر نہیں سمجھے اب صرف ان کی سرخیاں لکھتا ہوں

بڑی سرخی ہے - - زوجین ایک دوسرے کے لئے - -ے]
                                                  عورت کے لئےشوہر کا مقام
                                   رضائے شوہر کا صلہ جنت ہے
                                  بہترین بیوی کے خصائل
                          اختلاف زوجین میں حضور -ص= کا عجیب فیصلہ
                                ایک جفاکش اور خدمت گزار عورت --اسماء بنت ابو بکر  
                                                  عورت کے چند فرائض اور ان کا صلہ
                     عام عورتون کی  مزاجی کیفیت اور حسن سلوک کی تاکید
 عورتوں کے حقوق مردوں پر  اس میں یہ ہے جو کھائو وہی کھلائو پہنائو وغیرہ
    مردوں کی سب سے بڑی آزماَش عورتیں ہیں
           
شوہر کی اجازت کے بغیر عورت سے ملنا
  اب آپ خود اندازہ  لگا لیں میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں




Please visit my English blog at Saugoree

Monday, August 8, 2016

تو من شدم

تو من شدی من تو شدم تو تن شدی من جاں شدم
تا کس نگوید بعد ازیں تو دیگری من دیگرم

مجھے اس کے اشعار دوسری طرح کے یاد ہین/تھے

من تو شدم تو من شدی من جاں شدم تو تن شدی
تا کس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

اب کوئ صحیح جاننے والا ہی اس کو بتا سکتا ہے کونسا درست ہے

Please visit my English blog at Saugoree

Monday, July 25, 2016

جولائ کی گرمی

        اس برس امریکہ میں بھی جولائ کی گرمی معمول سے زیادہ رہی اور روزے اور سالوں کی نسبت مشکل رہے مگر ہمیں پاکستان کی گرمیوں کے روزے یاد ہیں تو ایسا خراب نہیں محسوس ہوتا بلکہ اور اللہ تعالےا کا شکر ادا کرتے ہیں 
            عید کے بعد پھر وہی پرا نا روٹین کھانے پینے کا شروع ہو گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ روزہ رکھے ہوئے عرصہ ہو گیا ارادہ یہ کیا تھا کہ اس مرتبہ روزوں کی برکت سے اپنی روحانیت کو فروغ دیں گے اور اس طرح اپنی روح کو طمانیت حاصل ہوگی مگریہ سب کچھ نہ ہو سکا اب نہ معلوم آللہ جلّ شانہ ہمیں اگلے سال کے رمضان شریف تک مہلت دے یا نہ دے سوچا ہے کہ یہ مہینے جو اب چل رہے ہیں ان میں ہی مزید کوشش کی جائے بغیر روزوں کے
 اللہ ہمّت دے 

Please visit my English blog at Saugoree

Friday, July 1, 2016

جمعۃ الوداع اور پاکستان


 آج سے ۶۹ برس پہلے بھی ایسا دن تھا
وہ پندرہ اگست  ۱۹۴۷تھا اور جمعہ الوداع تھا رمضان شریف کی ستایسویں رات بھی تھی نوزائیدہ ملک پاکستان کا پہلا روز اور ایسا مبارک دن مجھے کبھی نہیں بھولےگا محض ہائ سکول کا طالب علم تھا مگر سوچ رہا تھا کہ آللہ تعالےا نے ہمیں یہ ملک ایسے روز عطا فرمایا ہے بڑی حکمتیں ہون گی اور ابھی وہ نعرے--پاکستان کا مطلب کیا   لا الہ الا اللہ -  اور  - جاتی ہے تو جائے جان  لے کے رہیں گے پاکستان--  لگاتے ہوئے جوش  و خروش میرا گلا یاد کر رہا تھا سارے نئے ملک میں پاکستان کی سلامتی کی دعائیں مانگی گئ تھین
 یہ سب کچھ اب بھی سوچتا ہوں مگر یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ نہ وہ نعرہ کسی کو یاد ہے پاکستان میں اور نہ ہی وہ جوش و خروش رہ گیا ہے  میں اس وقت اپنے مسلمان ہونے پہ فخر کرتا تھا اور سینہ تان کے کہتا تھا کہ میں پاکستانی ہوں
 آج بھی میں کہتا ہوں کہ میں پاکستانی ہوں مگر سینہ نہیں تانا جاتا بلکہ سر جھکا کے کہتا ہوں
ہائے میرا پاکستان تیرے خود غرض لیڈروں نے تیرے ساتھ کیا سلوک کر ڈالا ہے

Please visit my English blog at Saugoree

Friday, June 17, 2016

درود شریف اور جمعہ


آج جمعہ ہے اور رمضان شریف بھی لیکن ہمیں تاکید کی گئ ہے کہ جمعہ کے روز درود پڑھنا چاہئے ویسے تو جب بھی پڑھین اچھا ہے آج تو اور بھی اچھا ہے
 اقبال علیہ رحمہ سے کسی نے سوال کیا  درود پڑھنے کی علماء نے ایسی تاکید جو کی ہے اس میں کیا حکمت ہے
 آپ نے فرمایا درود شریف کا الفاظ قرآن کے نہیں ہیں مگر جن بزرگوں نے لکھے ہیں ان کے ہم مشکور ہیں
 سوال کرنے والے صاحب کی اس جواب سے تسلّی نہیں ہوئ
 مگر سوچنے کی بات ہے کہ آپ صلّ اللہ علیہ وسلّم نہ ہوتے تو ہمیں کون اللہ کی پہچان کراتا
ہمیں کون سمجھاتا  دین کیا ہے ہمیں نماز جیسی عبودیت کون سکھاتا
 ہمیں لوگوں سے ملنے ملانے کی عادات کوں سکھاتا
 ہمیں  اپنے خاندان اور گھر کے رہنے کے طور طریقے کون سکھاتا ہمیں
 عید بقرعید کی خوشیان منانے کے طریقے کون سکھاتا
 ہمیں اتنا کچھ سکھایا ہے جو کوئ اور انسان یا ماسٹر اتالیق والدین وغیرہ نہیں سکھا سکتے تھے
 خالی ہم یہی دیکھ لیں کہ آپ نے جو ہمیں سکھایا ہے  تو ہم اس کا شکریہ آپ سے کیسے ادا کر سکتے ہیں میرے خیال میں درود شریف ایک ذریعہ ہے ممکن ہے اور بھی مصلحتیں ہوں اور حکمتیں ہوں مگر کیا اتنا ہی کافی نہیں؟ اور یہ سکھانے والی 'لسٹ' کا شروع لکھا ہے اسے مکمل کیجئے اگر کر سکتے ہیں تو

اے کہ صد طور است پیدا از نشانِ پائے تو --  خاک یثرب را تجلّی گاہ عرفاں کردہ ای

Please visit my English blog at Saugoree

Thursday, June 16, 2016

اقبالیات و دیگر اشعار

علّامہ صاحب مرحوم کی شام کی مجلسوں میں کئ بڑے آدمی اور لٹریری ہئوا کرتے تھے ان میں ایک مولانا عبد المجید سالک بھی تھے اور علامہ کے چاہنے والوں میں تھے کسی نے غلطی سے لکھا تھا کہ ڈاکٹر عبد السلام خورشید ان کے صاحبزادے تھے حالاکہ ان کے والد کا نام محمد حسین تھا گو یہ بات الگ ہے کہ مولانا سالک اور ڈاکٹر سلام دونوں احمدی تھے مگر علامہ صاحب کے ساتھ لگائو میں شیعہ سنّی یا احمدی وغیرہ کا کوئ سوال نہیں ہوتا تھا اگرچہ علامہ نے ایک پیمفلٹ اسلام اور احمدیت کے متعلق بھی لکھا تھا اور مرزا بشیرالدین نے اس متعلق اپنے خطبات میں بھی کچھ کہا تھا

خیر جو کچھ بھی ہو وہ کیا دن تھے علامہ زیادہ تر پنجابی میں گفتگو کرتے تھے اور اردو صرف غیر پنجابی دانوں کی لئے بولتے اور یہی طریقہ انگریزی کے ساتھ بھی چلاتے

 Please visit my English blog at Saugoree
  چند اور اسعار

مصطفےا اندر حرا خلوت گزید  -  مدّتے جز خویشتن کس را ندید
نقش مارا در دل او ریختند   -  ملّتے از خلوتش انگیختند
می توانی منکر یزداں شدن  -  منکر از شان نبی نتواں شدن


عشق کا گنج گراں مایہ تجھے مل جاتا - تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانہء دل 

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے - کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
 تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو -  کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں


                                
                        ثروت کی پسند

یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز- نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
  وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود   -  ہوتی ہے بنداء مومن کی اذاں سے پیدا


 یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
 ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

وہ سجدہ روح زمیں جس سے کاںپ جاتی تھی - اسی کو آج ترستے ہیں منبرو محراب
 سنی نہ مصرو فلسطین میں وہ اذاں میں نے -  دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشہءمسیماب

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے - شمشیرا سناں اوّل طاءوس رباب آخر
 گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طاءرک بلند بال دانہ و دام سے گزر

 تیرا جوہر ہے نوری پاک ہے تو -     دیدہء افلاک ہے تو Farogh e deedah e aflak hay too
  تیرے صید زبوں افرشتہ و حور -  کہ شاہین شہ لولاک ہے تو

   
  علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا - تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

فرنگ سے بہت آگےہے منزل مومن
 قدم اٹھا یہ مقام انتہائے راہ نہیں
 اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی - ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
 شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا  - پر دم ہے اگر تو  تو نہیں خطرہء افتاد


تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
 گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشّاف

 مزید خودی

تا کجا طواف چراغ محفلے- زآتش خود سوز اگر داری دلے

   زخاک خویش طلب آتشے کہ پیدا نیست
 تجلّیء دیگرے در خور تقاضا نیست

 از سوال آشفتہ اجزائے خودی
 بے تجلّی نخل سینائے خودی

 مختلف اشعار  پہلا غالب کا ہے

 لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوںچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے


 عشق تو ایک جست میں پہنچا مقام قرب تک
عقل الجھ کے رہ گئ بزم تصوّرات میں

  علم ہے ابن الکتاب
 عشق ہے امّ الکتاب
   علم اشیا علّم آدم الاشیاء ستے
ہم عصا و ہم ید بیضا ستے

 وہ اشعار جن کے مصرعے زیادہ مشہور ہیں
  
۱ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر - سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

 اگ رہا ہے درو دیوار پہ سبزہ غالب
 ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئ ہے


تاریخ ہزاروں سالوں میں بس اتنی ہی بدلی محسن
 تب دور تھا پہلے پتّھر کا ابلوگ ہی پتھر بن گئے ہیں

Monday, June 6, 2016

رمضان مبارک


اے اللہ تو ہم سب مسلمانوں کی ساری عبادتیں اس مبارک مہینے میں قبول فرما اور ہمارے روزوں میں اپنی برکتیں نازل فرما کہ وہ تیری قبولیت کے قابل بنیں
 روزوں کی برکت سے ہماری روحوں مین بالیدگی بھر دے اور ہماری روحانیت میں اضافوں کا باعث بنا دے یا ربّ العالمین
 یا اللہ تیرا صد شکر کہ تو نے ہمیں اچھی صحت میں ایک بار پھر اس مبارک مہینے سے ملادیا اب ہمیں توفیق عطا فرما کہ اس ماہ کے روزے اچھی طرح سے ادا کر سکیں پھر گڑ گڑا کر دعائیں کریں کہ انھیں قبول کر لے اے ہمارے پروردگار اور اے ہمارے خدا ہم شکر ادا کرتے ہیں اس ماہ مبارک کے لئے

Please visit my English blog at Saugoree

Thursday, May 12, 2016

سرکاری ٹّٹّی اور قانون


پہلے میں ٹائٹل کی وضاحت کر دوں
  االلہ بخشے میری بھابی نہایت مزاح فہمی طبیعت کی مالک تھین
ان کی ملاقات پڑوس والی کئ عورتوں سے ہوتی تھی جو ممکن ہے زیادہ پڑھی لکھی نہ ہوں اور دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتی ہوں تو مجھے ایک بار انھوں نے بتایا کہ فلاں پڑوسن اس فلش سسٹم کو سرکاری ٹّٹی کہ کر پکارتی ہے اس پر مزید بحث نہیں کرتا بلکہ اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ 'قانون' سے کیا تعلق ہے
 یوں کہ لیجئے کہ سرکار کی طرف  سے جو پبلک ٹٹیاں بنائ جاتی ہیں ان کو تو سرکاری ہی کہنا پڑیگا ہماری سٹیٹ میں آجکل بڑی گرم گرم خبریں ان سرکاری ٹٹیوں کے متعلق آ رہی ہیں  عام حالات میں ہر جگہ دو علیحدہ علیحدہ کمرے بنائے جاتے ہیں ایک مردوں کے لئے اور  ایک عورتوں کے لئے مخصوص کر دیا جاتا    ہے اوریہ ٹھیک بھی ہے    
 اب سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کچھ لوگوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ مرد نہیں عورت ہیں یا عورت نہیں مرد ہیں ایک بہت بڑی مثال میرے انگریزی کے بلاگ میں دیکھیئے جو  میں نے 'ٹرانسجنڈرزم' پہ لکھا ہے مثال  جناب بروس جینر صاحب کی ہے جنھوں نے ساٹھ سال مرد کی نہایت کامیاب زندگی گزارنے کے بعد  اعلان کیا ہے کہ وہ مرد نہیں عورت ہیں اور انھیں بروس نہیں کیٹلن یا کیٹ کہ جائے ان کی اس بہادری پہ بڑے زوروں سے مضامیں اور تصاویر چھاپی  گئی ہیں
 تو اب یہ ہے کہ ان جیسے آدمیوں کا کہنا ہے کہ انھیں عورتوں والے کمرے میں فراغت یا بول کی اجازت دی جانی چاہئے ہماری سٹیٹ کے گورنر صاحب نے قانونی اعلان فرمایا ہے کہ وہی ایسے کمرے میں داخل ہو سکتا  یا ہو سکتی ہے جو اس کی 'پیدائشی جنس' ہو چنانچہ اب ہر جگہ بڑی لے دے ہو رہی ہے  کہ یہ غیر 
                                            قانونی امتیازی طریقہ برداشت نہیں کیا جائگا
میں بھلا کون ہوتا ہوں ایسے قانون یا اس کے پیروئوں پہ تنقید کروں بھلے سے اگر مشکل پڑ گئ ہے تو ایک تیسرا کمرہ بنوادیں سب کی خوشی کے لئے - ایک مجھ ایسا غریب کیا کر سکتا ہے مگر ذرا سوچنے کی بات ہے اس کمرے میں جہاں میری بیوی یا بہن یا گئ ہو میں یہ کیسے برداشت کروں کہ اسی کمرے میں فراغت 
- کے لئے بروس جیسا پہلوان بھی چلا جائے توبہ توبہ ہمجنس پسندی تک تو خیر تھی مگر اب معاملہ بہت آگے بڑھ گیا ہے - اللہ اللہ کیسا زمانہ آ گیا ہے وہ ہندی کا ڈائلاگ یاد آ رہا ہے
   " ھے بھگون پھٹ جائے یہ دھرتی اور سما جائوں میں اس میں"

Please visit my English blog at Saugoree

Wednesday, April 13, 2016

پنجابی لوک گیت

میں پارٹیشن سے پہلے کی بات کر رہا ہوں جب میں نیا نیا پنجاب پہنچا تھا اپنے پنڈ یعنی کوٹلہ
        پہلے یہ یاد رکھئیے کہ وہاں اس وقت نہ ریڈیو تھا نہ کہیں گراموفوں نہ سنیما وغیرہ تو ایسے میں لوگ دل بہلاوے کا سامان کہاں سے پیدا کرتے ہیں ظاہر ہے کہ آپس میں کہانیاں کہنا یا گیت وغیرہ سنانا ہی چل سکتا ہے تو ہمارے معاشرے میں جب ہندو مسلمان اور سکھ سب اکٹھے مل جل کے رہتے ہوں اور زیادہ تر سب کھیتی باڑی سے تعلق رکھتے ہوں  تو سارا گیتوں کا یا ویسے ہی موسیقی کا سامان گائوں کی فضا میں ڈھور ڈنگر کھیتی باڑی کے علاوہ انسانی پیار محبت کی کہانیاں اور گیت ہی ملتے ہیں
 ان میں سے چند جن کے متعلق مجھے آگاہی ہوئ وہ یہ تھے
 بارہ ماہی
ماہیا
جگنی ]اب جو بھی اس کا مطلب ہو[
  میلے ٹھیلے کے متعلق گیت اور قصے
بھین بھرا دا قصہ
 اس کے علاوہ پوری داستانیں مثال کے طور پر
ہیر رانجھا
 یوسف زلیخا
سسّی  پنّوں              

                                                                                                        بارہ ماہی ایک نظم سی ہوتی ہے جس میں ہر مہینے کے نام سے ایک شعر کہا جاتا ہے اور وہ سارا مطلب بیان کرتا ہے   گوگل کا اللہ بھلا کرے مجھے سارے نام بتا دِے گائوں میں عام جنوری فروری وغیرہ نام زیادہ تر  دو جماعت پڑھے لوگوں میں چلتے تھے زمیندار لوگ اسی پنجابی ناموں جو غالبا" چاند کے حساب سے لئے گئے ہیں چلتے تھے مجھے دو مہینوں کے شعر لکھنے تھے جو اب بھی یاد ہیں پہلے یہ سن لیں
 چڑھدے وساکھ وساکھی آئ چلّے لوکّی سارے
مینوں درد فراق سجن دا ول ول اکھیاں مارے

 یہ مجھے بیٹے حسن نے آج فیس بک پر نوٹ لکھ کر یاد کرا دیا  بیساکھی یا ویساکھی یا وساکھی ایک قسم کا تہوار بن گیا ہے جو  ایک قسم کا   نیو ییرز ڈے  ہے      پھر دوسرا چیتر کے مہینے کا ہے بس ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ جب میں نیا نیا گائوں کے سکول جانے لگا پنجابی بچوں کو اردو  کا زیادہ پتہ نہیں تھا ویسے بھِ میرا نام وہاج بلکل عجیب تھا تو ایک لڑکے نے میرے نام کی وجہ سے یہ شعر پڑھا مجھے ایک قسم کی چھیڑ کے لئے کہا کرتا تھا
 چڑھدے چیتر چیتا میرا بھلّ گیا دلبر نوں
تیلی لاواں پھوک جلاوان سوہنے باہجوں گھر نوں

 تو اسے "باہجوں ' میں میرا نام ملتا تھا
ی

Please visit my English blog at Saugoree

Monday, March 28, 2016

گلشن اقبال پارک لاھور

جب کچھ خبر لاہور کی آتی ہے تو دل پہ اثر کرتی ہے  اس پارک مین ایسٹر کی چھٹی پر بچوں اور عورتوں کا جمگھٹا تھا
 اب تک جو معلوم ہوا ہے وہ کچھ یوں ہے
   چار نوجوان پارک کی سیکیورٹی تک آئے تین چلے گئے ایک وہاں سے اس جگہ آیا جہاں بچے جھولا کھیل رہے تھے اور ایک زبردست دھماکہ تقریبا" دس کلو بارود سے ہوا
کھا یہ گیا ہے کہ اس آدمی نے اپنی چیکٹ وہاں چلائ
یعنی تمام پروگرام جانتے بوجھتے ہوا
حیرانی ہے کہ اسقدر سنگدل لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہین اور اعلانیہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہین
لاہور میں اس کے نزدیک میرا دوست ڈلوی ماڈل ٹائون مین ہے کیا معلوم اس کے بچے یا گرینڈ چلڈرن وہاں ہوں کیا ان پہ گزری ہے معلوم نہین میرے اتنے دوست اور فیملی والے وہان رہتے ہین ویسے بی لاہور سے میرا پرانا عشق ہے تو ایسی دل ہلا دینے والی خبر سے تو مین دل پکڑ  کے بیٹھ جاتا ہوں زندگی کے بہترین گیارہ سال اسی شہر مین گزارے ہین ایک ایک لمحہ یاد ہے اللہ ان دھشت گردوں کو جہنم کی  سخت جگھون مین بھیجے اللہ کا شکر ہے میری فیملی والے سب خیریت سے ہین ل


Please visit my English blog at Saugoree

Wednesday, March 23, 2016

پاکستان

یوم پاکستان مبارک
 اجمل بھائ کا بلاگ دیکھئے اس دن کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے
 "مین کیا ہوں"
نام ہے افتخار اجمل بھوپال


Please visit my English blog at Saugoree

Monday, February 29, 2016

سحری کی آوازین

پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان میں ہندو مسلم فسدات ہوتے تو تھے مگر اکّا دکّا
   عام طور پر ایک دوسرے کی مذھبی ضروریات کا کسی حد تک خیال رکھا جاتا تھا محرّم میں تعزیے اور اس قسم کے جلوس نکالے جاتے اور ہولی دسہرہ وغیرہ کے تہوار دھوم دھام سے منائے جاتے ایک قسم کا بیلنس روا رکھا گیا تھا
 چنانچہ اس سلسلے میں مجھے یاد آ رہا ہے کہ بچپن میں رمضان شریف کے دنوں میں سحری کے وقت ایسے ہی بازار میں رونق ہو جاتی تھی جیسے پاکستان میں آجکل ہم دیکھتے ہیں اور مزید یہ کہ روزہ رکھنے کے لئے کچھ فقیر لوگ مسلمانوں کی گلیوں میں آواز لگاتے پھرتے تھے
 اٹھو روزدار بابو اٹھو
 ایک صاحب کچھ شعر بولتے تھے  اس آواز سے پہلے اس کا دوسرا مصرع یاد ہے پہلا پوری طرح ابھی تک یاد نہیں آیا سوچا ابھی یہ لکھ لیتے ہیں پھر جب یاد آئےگا تو مکمل کرلیں گے

  پہلا مصرع  جس کا شروع یاد نہیں لیکن بعد کا حصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پنچھی بھئے اداس
 اور دوسرا مصرع ہے  -  ایسا کڑوا بولتا کہ کوئ نہ بیٹھے پاس
 رے اللہ کے پیارے-اٹھو روز۔ ۔ ۔ ۔ ۔
                         
 اب نہ معلوم ہندو ئزم کا زور ہے تو شائد ایسی آزادیاں مسلمانوں کو میسّر نہ ہون

      کل اچانک یاد آگیا

پھٹا پرانا پینجرہ پہ پنچھی بھئے اداس
ایسا کڑوا بولتا کہ کوئ نہ بیٹھے پاس



Please visit my English blog at Saugoree

Monday, February 1, 2016

کاغذ اور پنسل


جب ہم مڈل سکول مین پڑھتے تھے
 وہ زمانہ غریبی کا زمانہ تھا عام کاغذ اتنے سستے نہیں تھے کہ انھیں فضول رف کاموں کے لئے ضائع کیا جائے
 عام لیڈ (lead) کی پنسلیں بھی زیادہ استعمال نہیں ہوتی تھیں یاد رہے کہ کہ ہم گائوں مین پڑھتے تھے ممکن ہے شہر کے سکولوں میں ایسی باتیں نہیں تھین مگر پھر بھی کاغذ اور پنسل احتیاط سے استعمال ہوا کرتے تھے آجکل کاغذ کمپیوٹروں کی وجہ سے بہت سستے سمجھے جاتے ہیں اور کاپیاں بھی سکول کے بچے ڈھیروں خریدتے ہیں
وہ بچے جن کے گھروں میں کوئ فوجی ہوتا تھا ان بچوں کے پاس  فوجی تھیلے ہوتے جوبطور بستہ استعمال  ہوتے تھےکیوں کہ ایک تو یہ کہ انھیں مفت ملتے اور دوسرے یہ کہ بہت مضبوط ہوتے عام بچے مضبوط چادر کے ایک چوکور ٹکڑے میں کتابیں باندھ کر اسے بستہ بنا لیتے تھے ہمارے پاس باقاعدہ ایک تھیلا تھا جیسے بازار سے چیزیں لانے والا ہوتا ہے فوجی گھر والوں کے بچوں نے ہمیں ایک عجیب سے کاغذ سے ملایا وہ گول لپٹا ہئوا سا تھا جو ہمیں بہت بعد میں معلوم ہوا کہ اس کاغذ سے انگریز اپنی تشریف صاف کرتے ہیں یعنی فراغت کے بعد-
 خیر کالج میں جانے کے بعد ہم بھی پکے شہری ہوگئے
لیکن آجکل کئ گھروں میں وہی 'ٹیشو' والا کاغذ پھر استعمال ہونے لگا ہے اور اب اس سے کھانے کے بعد ہاتھ پوںچھنے کے استعمال میں لایا جاتا ہے اسے شائستگی میں شامل کر لیا گیا ہے
 لکھنے کے لئے  گائوں میں  پنسل کے علاوہ قلم اور پر استعمال ہوتے تھے
 قلم کی کوئ قیمت نہیں ہوتی تھی کیوںکہ اس کے لئے ' کانّا' عام جگہ جگہ اگا ہئوا مل جاتا تھا  یعنی  اس کی جھاڑی اردو میں اسے  'سرکنڈہ کا نام دیا گیا ہے اور ایک شاخ میں سے کئ قلمی بن جاتی تھین انھیں خوبصورتی سے گھڑا جاتا تھا کسی
تیزچاقو سے اور اردو لکھنے کے لئے اس سے بہتر اور کچھ نہیں
 خوشخطی ایک ایسا آرٹ ہے جو سب لڑکوں کو سیکھنا پڑتا تھا بچوں کو سب سے پہلے ماسٹر قلم پکڑنا سکھاتے یہ چیزیں اب عام علم میں ہی نہیں بچے جیسا چاہے قلم پکڑ لیں کوئ اس مین ترمیم کرنے والا نہیں
 اب آئیے ' پر ' کی طرف
 پر -  ایک پرانا نام ہے یعنی اس زمانے سے جب لکھنے کے کئیے کسی پرندے کے پر کو استعمال کیا جاتا تھا ہم  جس کو  پر کہ رہے ہیں اسے اردو میں قط یا قلم ہی کہ لیا جاتا ہے  یعنی وہ قلم جس میں نب لگائ جاتی ہے اور اردو یا انگریزی کے لئے علیدہ علیحدہ نبیں ملتی تھی ماسٹر لوگ اس کے استعمال کے لئے بھی اسکو صحیح طریقے سے پکڑنا سکھاتے اور انگریزی لکھنے کے لئے چار لکیروں والا کاغذ استعمال ہوتا تھا اردو کے لئے ایک ہی لکیر والا
 سکھایا یہ جاتا تھا کہ میم اور نون یا ی لکھنے میں لکیر کے نیچے کیا حصہ ہوگا اور اوپر کیا ہوگا
 پھر زمانہ بدلا اور فائونٹیں پین آ گئے
 خوشخطی ختم ہونی شروع ہوگئ اس کے بعد   'بائرو ' پین اور پنسلیں آگئیں اور یہ سب کچھ ماضی کا حصہ ہو گیا

Please visit my English blog at Saugoree

Wednesday, January 20, 2016

بچّہ خان کے بچّے

 میں بچہ[ باچا)خان یونیورسٹی سے واقف نہین تھا مگر چارسدّہ جانتا ہوں
 سمجھ میں نہیں آتا کیوں ان بچوں پر حملہ کیا گیا اور وہ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور اندازہ ہے۰ قران بھی پڑھتے ہوں گے
--و من یقتل مومنا" متعمّدا" فجزآءہجہنّم خالد فیھا و غضب اللہ علیہ و لعنہ و اعدّلہ عذابا" عظیما" ---

[اور جو کوئ قتل کرے مسلمان کو جان بوجھ کر تو اس کی سزا دوزخ ہے پڑا رہیگا سی میں اور اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کو لعنت کی اور اس کے واسطے تیار کیا بڑا عذاب]
 قران کریم یہاں کوئ استثنےا نہیں پیش کرتا
 اور ابھی تو پشاور سکول کے ۱۱۴ مظلوموں کے لئے روتے ہوئے ہمارے آںسو بھی خشک نہیں کوئے اور مزید مظلوم بچون کو گولی کا نشانہ بنایا گیا ہے اب ہم مزید آنسو کہاں سے لائیں یا اللہ رحم کر میرے پاکستانی مطلوم بچوں پر نہ معلوم کتنے عالم کتنے سائینسدان کیسے کیسے موجدوں کو  تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا اللہ تعالےا کیسے ان ظالموں کو بخشے گا کیا انھیں اللہ کا ذرا سا بھی ڈر نہیں

Please visit my English blog at Saugoree



Wednesday, January 13, 2016

چند احساسات

ہر انسان کی زندگی میں ہر خواہش پوری نہیں ہوتی تو چند رہ جاتی ہیں چند احساس دلاتی ہیں اور چند  ذہن کے کسی کونے میں چھپ جاتی ہیں
میں کوئ بہت بڑا لکھاری نہیں  اور نہ ہی بڑا عالم فاضل لیکن علمی بحث  میں حصہ لینا اچھا سمجھتا ہوں اور شوق بھی ہےی
 اس کے لئے ضروری ہے کہ میں ایسےہم نشین ڈھوندڈ رکھوں  جن سے تبادلہ خیالات کر کے کسی حد تک ذہنی تشنگی کا مداوا ہو سکے اب جو میری مشکلات ہیں ایسے کام کرنے میں مانع ثابت ہو رہی ہیں اب یہی  میری قوت سامعہ کو لے لیں میں کوئ معمولی گفتگو کرنے سے بھی قاصر ہوں بڑھاپے نے مزید اس مشکل میں اضافہ کردیا ہے اور پھر یہ بھی کہ پچاس برس کی  سماعی کمزوری سے میری گویائ بھی وہ نہیں رہی جو پچاس برس پہلے تھی اور چونکہ میرا دائرہءمیل جول بہت چھوٹا ہو گیا ہے تو زیادہ وقت ٹی وی یا کمپیوٹر سے استفادہ میں ہی گزرتا ہے چنانچہ یہ احساس ہوا ہے کہ بلاگستان میں  ہی ایسے حضرات سے رابطہ رکھوں ان مین سے ایک صاحب سے ملاقات بھی ہوئ یعنی جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب دوسرے ہیں "مسٹک" اور ان کے جواب دہندگان میں ایک 'بیانڈ' اور ایک مہناز ہیں جن کو پڑھ کر دل خوش ہو جاتا ہے علاوہ ازیں بیٹی
شبانہ کا بلاگ بھی خوش کرتا ہے ماشا اللہ خوب لکھتی ہے
مسٹک صاحب سے ای میل پر بھی رابطہ ہے یعنی ان کے نام سے بھی واقف ہوں ان کا ایک لفظ مجھے بہت پسند آیا تھا جس کا اردو ترجمہ نہیں کر سکا  وہ ہے 'انٹلیکچول ڈسلیکسیا'           "Intellectual dyslexia"    
 ہر ماہ "قران کے تناظر میں کوئ ٹاپک لے لیتے ہیں اور چند احباب  خصوصا' رٹائر ہوئے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں اچھی بحث رہتی ہے وہاں بھی دو اصحاب ایسے ہیں جنھیں سن کر  دل کو خوشی ہوتی ہے جناب خاور  اور شمیم الرحمان  یہ دونوں اپنے ما فی الضمیر کو نہایت پر اثر الفاظ میں بیان کرتے ہیں

Please visit my English blog at Saugoree