Friday, December 30, 2011

ماسٹر جھکّی اور ماسٹر فیروز الدین

 جھکّی کا لفظ دراصل ان لوگوں کے لئے بولا جاتا ہے جو چرس پیتے ہوں یا  اس قسم کی منشیات سے لطف اندوز ہوتے ہوں ممکن ہے اس کا مطلب ہو کہ وہ 'نشے' میں ایسے نظر آتے ہیں
 اب یہ تو کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس قسم کی حرکات کرتے ہوں عمر رسیدہ تھے اور نہ معلوم کیا نام تھا ہم نے صرف یہی نام سنا تھا۔ ممکن ہے کوَ بیماری بھی ہو کیونکہ اس سے اگلے سال ہی وہ ریٹئر ہو گئے تھے اور میں نے انھیں پانی کا جگ ساتھ رکھے دیکھا تھا  میرا اندازہ ہے کہ انھیں ذیابیطس کا مرض لاحق ہو گیا تھا خیر جو بھی ہو ماسٹر جھکی مجھے چاہتے تھے اور میرا لحاط کرتے تھے ممکن ہے میرے والد کے مریض رہے ہوں لیکن ویسے بھی میرے والد ان دنوں میونیسپل کمیٹی کے صدر تھے اور میرا اسکول میونیسپل ہائی اسکول تھا
/ماسٹر جھکّی  درمیانے قد کے مگر بڑے ڈیل والے لگتے تھے دھوتی اور قمیص کوٹ ان کا لباس تھا اور سر پہ 'گاندھی کیپ' ہوتی تھی آپ ہمارے پاںچویں جماعت کے ٹیچر تھے ان کی کرسی دروازے کے قریب ہوتی تھی اور میں جس ڈیسک پر بیٹھتا تھا وہ سب سے پچھلی لائن میں تھا لیکن کنارے پہ --اس سے آگے صرف ایک اور ڈیسک تھا ڈیسک کا دوسرا کنارا دیوار کے ساتھ تھا اسی لئے میں اس تاڑ میں رہتا کہ اگر ماسٹر جی کے کان مروڑنے سے بچنا ہو تو دڈیسک کے نیچے گھس جائوں ان کے چہرے کے اتار چڑھائو سے میں سمجھ لیتا تھا جب وہ میرا سوال سلیٹ پر لکھا دیکھ رہے ہوں جونہی مجھے معلوم ہوا کہ سوال ٹھیک نہیں میں چپکے سے ڈیسک کے نیچے کونے میں چھپ جاتا جب وہ نظر اٹھا کے دیکھتے تو پوچھتے 'کہاں گیا' پھر انھیں معلوم ہو جاتا اور وہ اپنے بید سے مجھے ڈھونڈنے کے لئے بینچ کے نیچے بید ہلاتے مگر میں بچ جاتا۔ وہ اپنی عمے کی وجہ سے زیادہ جھک نہیں سکتے تھے اور میں اس کا فائدہ اٹھ جاتا۔ جب تک وہ واپس اپنی کرسی پہ جاتے ان کے دل سے مجھے سزا دینے کا خیال نکل جاتا نرم طبیعت کے مالک تھے رٹائر ہونے کے بعد پتہ نہیں ان کا کیا بناا
پہلی سے چھٹی جماعت تک میرے ساتھ بیٹھنے والے میرے ہمجماعت دوست تھے  میرے ساتھ شفیع اللہ ان کے بعد حلیم اور کونے میں اسحاق  اور اسی طرح اس سے پہلے جب ٹاٹ پر تھے تو اسی لائن میں یٹھا کرتے یاد رہے کہ سن دو ہزار چھ میں جب میں انڈیا گیا تو اسحاق اور حلیم دونوں سے ملاقات ہوئی تھی شفیع اللہ تو بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے اسحاق ماسٹر رتائر ہوئے اور حلیم وکیل رٹایر ہوئَ ہیں اور آجکل بھوپال میں ہیں اسحاق اسی مکان میں ہیں جس میں انھیں میں نے بچپن میں دیکھا ہے
 تو خیر چھٹی جماعت میں ہمارے ماسٹر صاحب ماسٹر فیروز الدین تھے مسلامنی لباس وہی قمیص پاجامہ اور ٹوپی تھا مگر یہ شیروانی باقاعدگی سے پہنتے تھے وہ بھائجان معراج کے بھی استاد رہے تھے اور ان کی بڑی تعری سن رکی تھی اور کچھ ان کے متعلق یاد نہیں پڑتا اس کے بعد ہم پنجاب منتقل ہو گئے

Wednesday, December 28, 2011

میرے استاد- ماسٹر رزّاق

  مجھے دوسری اور تیسری جماعت میں انھون پڑھایا
 چوڑا سا چہرہ گرجتی آواز اور قمیص کوٹ پہنتے لیکن بجائے پاجامے کے انھیں ہم نے ہمیشہ دھوتی پھنے ہی دیکھا جی ہاں کئ مسلمان بھی دھوتی پہنتے تھے جیسے کئ ہندو پاجامہ پہن لیں اسے بس ہندوستانی لباس سمجھا گیا ماسٹر رزاق کا وہ 'آر' جو وہ سوال صحیح دیکھ کر سلیٹ پر لکھتے تھے مجھے بہت خوبصورت لگتا تھا اور کچھ ان کے متعلق یاد نہیں رہا۔ ان کا ایک بیٹا جس نے ہندی پڑھی تھی اور اب اردو کی تعلیم لینا چاہتا تھا  اس نے میرے ساتھ چوتھی کا امتحان دیا اور مجھ سے زیادہ نمبر لیئے اگرچہ میں ہی فرسٹ تھا تو مجھے وہ آدمی اچھا نہیں لگا تھا پھر وہ میرا تاریخ کا ٹیچر بنا میری چھٹی کلاس میں تو مجھے تاریخ کے مضمون سے ہی نفرت ہو گئ جو آخر تک مظلب ہے سکول ختم ہونے تک رہی


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, December 17, 2011

جمّن جناب جی

ہمارے پہلے استاد---جیم کے اوپر پیش ہے ا س نام میں۰---
جی ہم انھیں اسی نام سے جانتے ہیں اور کوئ نام نہین بتایا گیا۔ جیسا کہ پہلے لکھا تھا ہمارے 'گھرانے کے استاد' ہیں میرے سب بڑے بھائ بہنوں کو پڑھنا لکھنا آپ  ے ہی شروع کرایا  درمیانہ قد جسم بھاری سا یاد پڑتا ہے آواز مدھم سی مگر  دبدبہ رکھتی تھی جیسا کہ عام رواج تھا پاجامہ قمیص اور کوٹ ان کا لناس رہا- ایسا کوئ سبق یاد نہیں پڑتا لیکن 'گوشمالی یاد ہے جب میرا سوال درست نہ ہو۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ زبانی سوالوں کے جوب میں مجھے الجھن رہتی تھی پریشانی کی حد تک اور مجھے زبانی سوال کبھی پسند نہیں تھے سکول کے میدان  مین لڑکوں کو ذرا فاصلے فاصلے سے کھڑا کیا جاتا اور ماسٹر سوال بولتے ہمیں جواب سلیٹ پر لکھ کر پھر کھڑے ہو جانا ہوتا تھا اور میرے دل میں وسوسے شروع ہو جاتے خصوصا" جب سوال کا ٹھیک ہونا صریحا" معلوم نہ ہو
   تصویر اس کلاس روم کی ہے سامنے میں کھڑا ہوں یہ تصویر  مصافحہ سیکھنے کے ستّر سال بعد لی گئ



یہ تو ظاہر ہے کہ یہ چوتھی جماعت کے تجربات ہیں پہلی میں جو مجھے یاد ہے جمن جناب جی ہمیں مصافحہ کرنا سکھا رہے تھے بڑے کمرے کے سامنے جو برامدہ تھا  اسمیں لڑکے باری باری مختلف دروازوں سے آتے اور مڈھ بھیڑ ہونے پر سلام کرتے اور ہاتھ ملاتے اچھی پریکٹس تھی مگر نہ معلوم مجھے بہت زیادہ جھجک ہوتی تھی سلام کرنے میں اور بڑے ہو کر بھی کافی دیر رہی جمن جناب جی نے جو پریکٹس کرائ تھی اس کا فائدہ بڑی دیر بعد نکلا اللہ انھین کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, December 15, 2011

میرے استادوں کا حال

 زندگی میں انسان اپنی عقل اور سمجھ کے استعمال سے بہت کچھ سیکھتا ہے ویسے تو یہ دنیا ساری ایک درسگاہ ہے اور اس میں ہر جگہ تجرباتی طریقہ سے انسان اپنے علم میں اضافہ کرتا رہتا ہے لیکن میں ان درسگاہوں کی بات کروں گا جہاں پیشہ کے طور پر درس دیا جاتا ہے
 کہتے ہیں کہ انسان کی سب سے پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے جس سے ہمیں پوری طرح اتّفاق ہے  لیکن جو کچھ ہم نے ماں کی گود میں سیکھا وہ ذہن میں نہیں رکھا گیا کہ اس وقت ابھی یادداشت کا کام شروعات میں تھا اس لیئے کچھ نہیں لکھا جاسکتا ہمارے زمانے میں ساگر شہر میں اس وقت ایک پرائمری سکول، تھ اہندی  اور اردو کی الگ الگ عمارتیں تھین دو عدد ہائ سکول تھے ایک میونسپل اور دوسرا گورنمنٹ ۔ کنڈر گارٹن اور اس قسم کے اسکولوں کا رواج نہیں تھا۔ چار سال کی عمر میں ہی ہمیں اسکول میں داخل کرا دیا گیا تھا - ان دنوں وہاں چھوٹی یا بڑی عمر کی کوئ حدود نہیں تھیں گھر میں ہماری امّاں جان کے علاوہ ایک اور ہستی تھیں جنھوں نے شائد  الف بے اور گنتی وغیرہ پڑھائ ہو وہ تھیں ہماری پھوپھی جان یہ تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں نے ہی مجھے نماز سکھائ تھی اور میری بہنوں کو بھی جو مجھ سے بڑی تھیں کیوں کہ جب انہوں نے نماز کی نیت بتائ تو جو کچھ وہ میری بہنوں کو بتا رہی تھیں وہی میں بھی بول رہا تھا
 ' نیت کرتی ہوں میں اس نماز کی----"
 تو میں بھی یہی بولا جس پر سب نے ہنسنا شروع کر دیا
 جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں میرا پہلا سکول 'پڑائو اسکول' کے نام سے جانا جاتا تھا پہلی اور چوتھی جماعتیں ہی٘ ' جمّن جناب جی' نے پڑھائ تھیں اور دوسری اور تیسری ماسٹر رزّاق نے
 چنانچہ ہمارے پہلے استاد کا نام تھا' جمّن جناب جی' اگر ان کا کوئ اور نام تھا تو ہمیں معلوم نہیں ہوا کیوںکہ ہم نے جب ہوش سنبھالا تو اس وقت سے یہی نام سنتے آئے ہیں میری سب بہنیں اور بڑے بھائ سب کے وہ استاد تھے اور ہمارے گھرانے سے ان کا لگائو اس حد تک تھا کہ انہوں نے اپنے لڑکوں کے نام بھی میرے اور بھائجان معراج کے ناموں پر رکھے تھے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, December 4, 2011

دیا

دراصل 'دیا' کے عنوان سے ایک دوست نے بلاگ لکھا ہے جس سے مجھے اپنا دیا یاد آیا
   مندر مین دیا جلانا تو ایک قسم کی پوجا ہے یا پوجا کا ایک حصہ- اس ضمن میں فیض صاحب نے شعر لکھاتھا کہ حسینہ کی یاد میں مندر میں شاعر نے بھی دیا جلایا تھا
  ہماری امّاں جان بجلی کے حق میں نہیں تھیں تو بچپن میں ہم لالٹین کی روشنی میں پڑھا کرتے تھے جب پنجاب میں ایک  گائوں میں آئے تو وہاں بھی بجلی نہیں تھی۔ روشنی کا ذریعہ ایک تو وہ دیا تھا جو مسجد میں جلتا تھا جس میں لوگ آنے دو آنے کا تیل ڈال کر حاتم طائ کی قبر پر لات مارتے تھے تو خیر اس وقت کی بات ہے یہی روشنی کا ذریعہ تھا روئ کی 'بتّی' لگا دی جاتی اور اس کی روشنی ہوتی تھی گھر میں  ایک لالتین تھی دوسرا روشنی کا ذریعہ- اورایک دیا بھی ہمیں ملا تھا رات کو پڑھنے کے لئے- کبھی کبھی لالٹین بھی مل جاتی تھی تو زیادہ روشنی مل جاتی پنجاب کے علاقوں میں جو دئے جلائے جاتے ہیں ان میں سرسوں کا تیل جلتا ہے میرے سکول میں لڑکے سرسوں کا تیل ہی سر پہ بھی لگاتے تھے اور اس کا وہی نقشہ ہوتا تھا جو آپ اس انگریزی فلم میں دیکھ چکے ہیں
 Grease
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, October 30, 2011

کولیسٹرال میری زندگی میں

خواتین و حضرات
میں ان دنوں تیسرے سال میں تھا یعنی میڈیکل کالج کے اور جو خواتین کا کالج تھا اس میں نئے پروگرام شروع ہوئے جو پہلا لیکچر فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں ہم نے سنا وہ ایک ڈاکٹر کھمباٹا صاحب نے دینا تھا جو نئے نئے ایم آر سی پی کر کے آئے تھے  لیکچر والے دن ہمارے ہوسٹل میں صبح صبح نوکروں کو آوازیں دینے والوں کا  شور شروع  ہو گیا ہمیں اتنا کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں کیا ہو رہا ہے مگر نوکروں کو جو ہدایات دی جا رہی تھیں ان سے ہمارے بھی کان کھڑے ہوئے 'اوے- میری قمیص  اور پتلون استری کرا کے لا'
'اوے، فلانے جوتوں کی پالش ٹھیک نہیں ہوئ
" اوے میری فلانی ٹائ کہاں رکھ دی
   تو پتہ چلا کہ شام کو فاطمہ جناح میں لیکچر ہے- ابھی ہم کلینیکل سائڈ سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے پھر بھی لڑکیوں کے کالج جانے کی وجہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی اور ہم نے اس ' کولیسٹرال' -'ک'- پہ پہلا لیکچر سنا
 بھلا  ہم سیدھے سادھے آدمیوں کو کیا معلوم تھا کہ یہ حضرت یعنی کولیسٹرال صاحب زندگی بھر ہمارے پیچھے لگے رہیں گے
 اب ممکن ہے آپ صحیح صورت حال نہ سمجھ سکے ہوں تو مجھے حقیقت صاف الفاظ میں بیان کرنی پڑے گی  ویسے تو امریکہ میں اب تقریبا" تمام لوگ کیا مرد اور کیا عورت سب ہی اس نام 'ک' سے واقف ہیں مگرشادی کے بعد کچھ مدت گزر جائے تو میاں بیوی کے تعلقات میں خاص خاص تبدیلیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں مثلا" یہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہوتا ہے فلاں کپڑا ایسے پہنو ٹائ ٹھیک سے نہیں باندھی یہ سب محبت اور پیار کی باتیں ہیں جن سے آپ سب جو کچھ عرصہ اس ازدوجی وادی یا صحرا  میں  آبلہ پا رہ چکے ہیں اچھی طرح سمجھتے ہیں میں کیا کہ رہا ہوں۔
 چنانچہ ایسی ھی ایک بات اس کمبخت 'ک' سے وابسطہ ہے شادی سے پہلے آپ سب کچھ کھایا کرتے تھے اور کبھی ایسے ویسے خیالات آپ کے ذہن تک رسائ نہیں رکھتے تھے لیکن اب یہ ہونے لگا 
'انڈے زیادہ نہ کھائِیے کولیسٹرال بڑھ جائےگا
 دودھ آپ کے لیئے فیٹ فری آنے لگا-کیوں؟ کولیسٹرال نہ بڑھ جائے
 سالن میں گھی یا مکھن یا جو بھی چکنائ آپ استعمال کرتے تھے وہ اب ڈھونڈنی پڑتی ہے کیا بیگم ڈالنا بھول تو نہیں گئیں؟  نا نا صاحب ایسی کوئ بات نہیں یہ اس لیئے کم ہوگئی کہ 'ک' زیادہ ہونے کا خطرہ ہے
 کباب اب صرف مرغی کے گوشت کے ہوںگے اور مچھلی اور سبزی کا استعمال یوں بڑھتا گیا  کہ ہم کہ اٹھے
 where is the beef
 تو معلوم ہوا کہ یہ سب اس لیئے کہ - - - -  جی آپ سمجھ ہی گئے ہوںگے
  اب آپ بخوبی پہچان گئے ہوںگے ہمیں اس کمبخت 'ک' سے کیوں چڑ سی ہو گئ ہے ہم نے بڑی ترکیبیں لگائیں اور بتایا کہ
 بیگم- امریکہ کی مرغیاں اب سیانی اور اپ ٹو دیٹ ہیں اور کم کولیسٹرال والے انڈے دیتی ہیں مگر ہماری ایک نہیں سنی جاتی مزید یہ کہ  ہمیں اس بات پہ یقین اب کہ جہاں اس ملک میں اتنی بہت سی دوائیں موجود ہیں اور غزائ ترکیبات بھی وہاں یہ بھی ہے کہ ایک ایسی 'دوا' بھی ہے جو کولیسٹرال کم کرنے میں بہت ممدّ و معاون ثابت ہوتی ہے اور میڈیکل سائنس والے ابھی اس سے واقف نہیں اور وہ ہے 'خیال رکھنے والی اور پیار کرنے والی بیگم 
 اب تک ہماری زیندگی پر اس کولیسٹرال کا حکم چل رہا ہے اور ہم کچھ نہیں کر سکتے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, September 28, 2011

سید شبّیر عالم شہید























آپ کا تعلّق لکھنئو سے تھا مگر پاکستان میں اسلامیہ کالج لاہور میں میرے ہم جماعت تھے سکواڈرن لیڈر ایس ایس عالم صدّیقی شہید پاکستانی ہوائ فوج کے ایک آفیسر تھے
چھ ستمبر ۱۹۶۵ کی جنگ میں آپ کا جہاز ہی سب سے پہلے حملہ میں تھا اور آپ ہی سب سے پہلے شہیدوں میں شامل ہوئے اللہ آپ کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے

ان کے ساتھ چند خوشگوار یادیں وابستہ ہیں جو قارئین کو پیش کرنا چاہتا ہوں ۱۹۴۹ میں جب ہم نے کیمسٹری کے ایکسپیریمنٹ شروع کیئے تووہ میرے ساتھ پارٹنر ہو گئے تھے۔ ہم دونوں دیر تک لبارٹری میں کام کیا کرتے تھے شبّیر کا تجربہ مجھ سے زیادہ تھا آپ کو معلوم ہی ہوگا میرا میٹرک پاس کرنا کیسے ہوا تھا اور ہمیں گاںئوں میں کیسے کیمسٹری پڑھائ گئ تھی
خیر یوں ہماری دوستی شروع ہوئ اور دو سال ایک دوسرے کی مدد کرتے گزر گئے میں چوںکہ اچھی اردو بول سکتا تھا اس لئے بھی ہماری بول چال خوب تھی۔ ایک مرتبہ ہمارے کالج میں ریڈیو پاکستان لاہور سے کچھ لوگ آئے تھے برامدے میں یوںہی لڑکوں سے پوچھ رہے تھے کہ اردو کیسے پڑھتے ہیں میں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا اور وہ میرے تلفظ سے اور میری آواز سے متاثر ہوئے۔ اسی طرح انھوں نے شبّیر کو بھی چنا۔ چنانچہ ہم آٹھ لڑکے اور ایک پروفیسر محمود احمد  ہاشمی صاحب اس پروگرام کے لئے مختص کر دئے گئے ہم سب ریڈیو پاکستان گئے اس روز مزید کلاسیں نہیں اٹینڈ کیں ایک مقالہ مجھے پڑھنے کو دیا گیا اسی طرح سب نے کوئ ڈرامہ یا اسکیچ وغیرہ جو بھی تھا اسکی دوپہر کو مشق کی اور شام کو پرہگرام سے فارغ ہو گئے
 اب طے ہوا کہ جو پیسے دئے گئے ہیں ان کی ایک گروپ فوٹو کچھوالی جائے جو یادگار رہے گی میرے پاس عرصہ تک موجود تھی  یہ سن اڑتالیس کی بات ہےاب نہ جانے کہاں ہوگی بس وہی ایک تصویر ہے جس میں سید شبیر عالم میرے ساتھ ہیں گو وہ کھڑے ہوئے ہیں اور میں بیٹھنے والوں میں تھا
جب ہم میڈیکل کالج میں تھے تو ایک روز مجھے ملنے دو ہوائ فوج کے افسر آئے شبّیر صاحب اس وقت فلائٹ لفٹننٹ تھے دو خوبصورت جوان اپنی سائیکلوں پر آئے تھے مجھے یاد ہے انھوں نے سائکل چلانے کے لئے بھی دستانے پہن رکّھے تھے میں بہت خوش ہوا تھا ان سے ملکر اس وقت مجھے جو یاد پڑتا ہے دونوں آفیسر جزبہ پاکستان سے بھرے ہوئے تھے اور میں اس حسین پاکستانی افسر میں قومی وقار اور ملکی جزبہ کی جھلک دیکھ رہا تھا
 یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی میں اس وقت انگلینڈ میں تھا جب '۶۵ کی جنگ ہوئ اوراس کے بعد اب یہ وڈیو دیکھی۔ ان کی شادی کی داستان بھی اخبار میں پڑھی تھی وہ ان دنوں کی ہی بات ہے جب جنگ کے بعد ملک کے ہیرو اخبار کی زینت بنا کرتے تھے۔ وڈیو میں ہی اس بھابی کو بھی دیکھا جو مجھے نہیں جانتیں مگر میں نے ان کے ساتھ آنسو بہائے پروگرام دیکھ کر ہندوستانی ٹی وی اور گورنمنٹ سےامپریس ہوا ہوں کہ انھوں نے اس بیوہ کی کیسے مدد کی
جب موقع ملا تو اس وڈیو کا لنک بنادوں گا یہ کام ابھی نہیں سیکھا
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/
آج یہ تصویر مل گئ تو حاضر خدمت ہے لیکن اوپر لکھا ہے میں بیٹھا ہوں اور شبیر کھڑے ہیں یہ غلط نکلا سید شبیر عالم میرے
بائیں بیٹھے ہیں میری عینک مجھے ظاہر کرتی ہے

Friday, September 16, 2011

امریکہ میں مسلمان بچوں کی پرورش-۳

  میری اس ساری تحریر کا مقصد یہ تھا کہ بچہ کا ماحول کب شروع ہوتا ہے - جیسے ہی بچہ پیدا ہوتا ہے سنّت ہے کہ اس کے کان میں اذان دی جائے- آج کے کمپیوٹر زمانے میں اس کا سمجھنا آسان ہے کہ بچے کو پہلا لفظ اللہ کا سنایا جارہا ہے جو سیدھا اس کہ دماغ میں مقفّل ہو جاتا ہے بلکل ایک کمپیوٹر میں ڈیٹا ڈالنے کے طریقہ کی مثل ہے-
پیداءش کے بعد ماں اور باپ کے سامنے مسئلہ اس کی نشوونما اور پرورش کا آتا ہے جس کے لئے مجھے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں صرف ماں کی گود کا ضرور لکھوں گا
    ٘ماں کی گود میں بچے کو ماں کی خوشبو اور گرمی ایک محفوظ اور سلامتی والی جگہ میں ہونے کی تسکین پیدا کرتی ہے وہیں اسے خوراک بھی ملتی ہے اس وجہ سے چاہیئے کہ اگر اوپر کا دودھ پلایا جانا ہے تو ماں یا باپ اپنی گود میں لیکر پلائیں
 بچے کو ایک ماہ تک صاف نظر آنا شروع ہوتا ہےپہلے صرف دھندلی تصویر اس کی ماں کی اور پھر باپ کی  ہوتی ہے پھر اور لوگوں کی بھی جو گھر میں ہوں تو اس طرح بچہ اپنے رشتے استوار کرنا شروع کرتا ہے اور اس کا ماحول سے ٹکرائو اس کی عادتوں اور طبیعت پر اثر انداز ہوتا ہے وہی کچھ سیکھتا ہے جو اس کے ارد گرد ہوتا ہے اور جو اسے سکھایا جاتا ہے تو یہ ایک والدین پر بہت بھاری ذمّہ داری ہوتی ہے بچہ ہر چیز کے لئے والدین پہ انحصار کرتا ہے اور جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے دوسرے لوگوں اور پھر اپنے آپ پہ اور اپنی کوششوں پہ انحصار کرنا شروع کر دیتا ہے چنانچہ پہلے تین سال میں ہی ماں اور باپ کے لئے موقعہ ہے بچے کی شخصیت کو جیسا بنانا چاہتے ہیں بنا لیں اور جو کام اس کی پیدائش سے پہلے شروع کیا تھا اسکی تقریبا" تکمیل انہی تین یا چار سالوں میں کرنی ہے پھر جب دوسرے بچوں اور سکول کے ماحول مین جائے گا تو اس وقت ماں باپ کا اثر تھوڑا ہو جائے گا اب یہ سکول اور کالج میں بچے نے ان اقدار کو اپنانا ہے ان خیالات  اور ماحول کو اپناناہے جو اسکو پسند آئیں گے اگر ہم نے اس کی پسند اور ناپسند والی ترازو صحیح اسلامی بنائی ہے تو وہ ایسی ہی اقدار کو اپنائےگا جو اس پہ صحیح اتریں گی
 ان تمام باتوں اور احتیاط کے باوجود غیر اسلامی ماحول میں بچے کا اسلامی ڈگر سے اتر جانا نہ تو ناممکن ہے اور نا ہی ایسا مشکل ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ آپ نے بطور ماں یا باپ اپنی ذمہ داری پوری کرلی ہے اور اس کے بعد ماں اور باپ کے لئے دعائیں رہ جاتی ہیں وہ بھی ایسی ہی ضروری ہیں۔ میں نے صرف اصول بیان کِئے ہیں امّید ہے کہ آپ کے لیے مفید ثابت ہوں گے



Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, August 20, 2011

مسلمان بچّوں کی پرورش امریکہ میں

گزشتہ سے پیوستہ

عربی کا لفظ -مضغہ- بہت پرمعانی ہے چودہ سو برس سے سمجھتے آئے ہیں کہ  'ایسی بوٹی جس پر داںتوں کے نشان ہوں    چنانچہ
جب ایک ماہر علم جنین یعنی
Embryologist
کو سمجھایا گیا تو حیرت سے انگشت
 بدندان رہ گیا پھر اسے ' لوتھڑا' ایک جونک نما شکل بتائی گئ تھی ان سب کا مطالعہ کیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس 'کتاب' میں چودہ سو سال پہلے ایسی باتیں بتائ گئیں تھین ظاہر ہے کہ محمّد-صلّ اللہ علیہ و سلّم- ایسی معلومات کہیں سے لینے کے قابل نہ تھےچنانچہ اس کے ساتھ سارے امبریالوجسٹ جو تھے وہ اس نتیجے پر پہںچے بغیر نہ رہ سکے کہ یہ الفاظ صرف خالق حقیقی ہی بتا سکتا ہے 
  پھر ایک اور حقیقت کی طرف دھیان دیجئے
 قرآن کریم بتا رہا ہے -- اور یہ سورہ نحل والی آیت سے ہے--
  تمھین کان دیئے ۔ ۔ ۔  اور آنکھیں دیں ۔ ۔ ۔  اور سوچنے کے لیئے دل دیئے
اس ترتیب میں ایک 'راز' پوشیدہ ہے ہمیں سائنس بتا رہی ہے کہ جب بچّہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی قوّت سامعہ پہلے ہی کام کر رہی ہوتی ہے  آنکھیں تقریبا" ایک ماہ کی عمر تک صحیح کام شروع کرتی ہیں اور دل یعنی سمجھ بوجھ سب سے بعد میں  کام شروع کرتی ہے
قوت سامعہ کے متعلق دو باتیں غور طلب ہیں ایک تو یہ کہ جیسے ہی یہ اعضا جنین میں بنتے ہیں اور دماغ  کے خلئے کام شروع کرتے ہیں تو بچّہ ماں کی آواز سننے لگتا ہے اس وجہ سے جہاں اس کی باتیں اور اس کی زبان سنے گا اسے قرآن کے الفاظ بھی سننے کا موقعہ ہے ا سلئے میرا مشورہ حاملہ عورت کے لئے یہ ہے کہ وہ اس دوران میں قرآن کی تلاوت آواز کے ساتھ کرے
دوسری بات یہ کہ ہمیں کہا گیا ہے کہ پیدائش کے بعد بچّے کے کان میں اذان دی جائے اب اس بات کی حقیقت پتہ لگ رہی ہے کیوں یہ کہا گیا۔ بچّہ سن رہا ہے اس کا دماغ اس آواز کو رکارڈ کر رہا ہے آپ اس کمپیوٹر میں ڈیٹا داخل کر رہے ہیں
 اب پھر میں آپ کی توجّہ بطن مادر کی طرف مبذول کر ا رہا ہوں مان کو کیا کھانا پینا ہے کیا پڑھنا ہے کیا دیکھنا ہے کیا سوچنا ہے کیسی پابندی سے نماز اور قرآن کو اپنانا ہے یہ سب کیوں ضروری باتیں ہیں آپ ان مثالوں سے بخوبی سمجھ گئے ہوں گے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, August 13, 2011

امریکہ میں مسلمان بچوںکی پرورش


 تقریبا" بیس سال پہلے میں نے اس عنوان پہ کچھ لکھاتھا اس کا نچوڑ اور ضروری تبدیلیوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں خیال تھا کسی رسالے میں بھیجوں گا پھر ارادہ ترک کر دیا تھا
  زیادہ تر اپنے جیسے مشرق سے آئے ہوئے متوطّن لوگوں کے حالات کو مدّنظر رکھتے ہوئے لکھ رہاہوں اور چوںکہ بہت سست رفتاری سے لکھتا ہوں اس لیئے کئ قسطوں میں لکھنے کا ارادہ ہے اس لِئے آپ سے صبر اور تحمّل کی درخواست ہے
 بچوں کی پرورش بذات خود یہاں ایک مسئلہ ہے پھر مسلمانوں کے لئے اور بھی زیادہ مشکل ہے ھم اپنے  مشرقی ممالک سے جواسلامی اقدار اور تہذیب کے زیور اپنے ساتھ لائے ہیں انھیں یہاں قائم کرنا ہے باقی رکھنا ہے بلکہ فروغ دینا ہے 
الحمد للہ اکثر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ہر شہر میں مسلمانوں نے مسجدیں اور سکول بنا ڈالے ہیں اس طرح بچّوں کو اسلامی ماحول اور اسلامی تہذیب سے تعارف کی حد تک واقفیت ہو جاتی ہے مگر در اصل ہر بچّے کی شخصیت کی صحیح اسلامی تعمیر کے لیئے بہت پہلے کام شروع کرنا پڑتا ہے اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے میں آپ کی توجّہ چند بنیادی اصولوں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں 

بچوں کی تعلیم کے لئے  سکول وغیرہ سب ٹھیک ہیں مگر پہلا سکول ماں کی گود ہوتا ہے تو اس کے متعلّق آپ کے کچھ گوش گزار کروں       
  اولا" یہ کہ والدین کو کیا کرنا چاہئے - یہ جان لیجئے کہ اسلام نے بچّے کی پرورش کےلئےماں پہ باپ کی نسبت زیادہ ذمّہ داری ڈالی ہے
   ثانیا"    ماننا چاہئے کہ جس ماحول میں بچّہ پرورش پائے گا وہ اسلامی ہونا  ضروری ہے اس سلسلے میں لوگ نہیں سمجھتے  کہ 'ماحول' بطن مادر سے ہی شروع ہو جاتا ہے ممکن ہے یہ آپ کو عجیب لگے مگر موجودہ سائنسی دور میں سمجھنا مشکل نہیں میڈیکل مثالیں بہت سی ہیں ایک دو کا ذکر کروںگا
۱--  کچھ بیماریاں ایسی ہیں کہ اگر وہ حاملہ عورت کو لاحق ہوں تو جنین کی نشوونما اور ساخت پر اثر پڑتا ہے
۲--دوائیں بھی ایسا اثر پیدا کر سکتی ہیں
 بیسویں صدی کی چھٹی دھائ کے اوائل  کا ذکر ہے جب طبّی دنیا میں ایک ہولناک قسم کی تکلیف نوزائدہ بچوں مین دیکھی گئ ان دنوں ایک ذہنی تسکین کی دوا عام تھی  'تھیلیڈومائڈ' - وہ جن حاملہ عورتوں نے  حمل کے اوائل میں کھائ تھی ان کے جو بچّے پیدا ہوئے ان کے بازو اور ٹانگیں بہت چھوٹے رہ گئے یا بالکل نہیں اگے   چنانچہ معلوم ہوا کہ بچّے کی جسمانی اور اسی طرح ذہنی ساخت پر ماں کی کن کن باتوں کا اثر پڑتا ہے شائد آپ نے دیکھا ہوگا کہ ماں بننے والی عورتوں کے کمروں میں خوبصورت بچوں کی تصاویر لٹکا دیا کرتے تھے تو میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ماں باپ جو کچھ اپنے  بچّے میں دیکھنا  چاہتے ہیں انہیں اس ہونے والی ماں کو اس طرز کا ماحول دینا ہے جہاں اس کی بودوباش غذا و خوراک اور ضروری جسمانی ہلکی ورزش وغیرہ کا خیال رکھا جانا ہے تو اسی طرح ا سے نماز کی پابندی اسلامی لٹریچر کی فراہمی  وغیرہ کی طرف بھی دھیان دینا ضروری ہے
ثالثا" --یہ یاد رھے کہ ہر بچّے کی شخصیت جدا ہوتی ہے حتّےا کہ جڑواں بچّوں کی بھی --جیسے انگلیوں کے پوروں کی 
رابعا" --  جہاں تک انسانی جبلّت کا تعلّق ہے ہر بچّہ میں وہی ہوتی ہے خواہ وہ کالا ہو یا گورا، پاکستانی ہو یا یوروپین یعنی دست قدرت نے جو انھیں بخشا ہے برابر ہے صحیحین میں  روایت ہے کہ رسول اللہ صلّ اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا
'کوئ بچّہ پیدا نہیں ہوتا مگر اسلامی فطرت پر پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں'
یہ تو بچّہ کی روحانی کیفیت کا ذکر ہے لیکن جہاں تک جسمانی حالت کا تعلّق ہے ہمیں مجودہ سائنس کی روشنی میں بھت سی معلومات حاصل ہوئ ہیں تاھم خالق حقیقی نے ہمیں اس معاملے میں نہائت عمدہ معلومات فراہم کی تھیں علوم جنین پر جو کام پچھلی نصف صدی میں ہوا ہے ان کو دیکھتے ہوئے ان آیات قرآنی کے مطالب ہمارے لئے آسان ہو گئے ہیں
 آپ سے درخواست کر رہا ہوں کہ مندرجہ ذیل آیات کی تفسیر اپنی پسند کی تفسیر 
                                               میں ملاحظہ کریں
" کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے بجب وہ کوئ قابل ذکر چیز نہ تھا ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے پیدا کیا - - - - - - - -"
76 آیہ نمبر ایک اور دو-- سورہ دہر - نمبر                                           

اب ذرا ایک انوکھی تفصیل ملاحظہ ہو
ہم نے انسان کو مٹّی کے ست سے بنایا -پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئ بوںد میں تبدیل کر دیا پھر اس بوںد کو لوتھڑے کی شکل دی - پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا - پھر بوٹی سے ہڈّیان بنائیں پھر ہڈّیوں پر گوشت چڑھایا - پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا -پس بڑا با برکت ھے اللہ سب کریگروں سے اچھّا کاریگر

    آیات- ۱۰ تا ۱۴ سورہ نمبر ۲۳ یعنی المومنون

پھر دیکھئے مزید سورہ نحل سولھویں - ایہ نمبر ۷۸
        اور اللہ نے تمھیں مائوں کے پیٹوں سے نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے - اس نے تمھیں کان دیئے آںکھیں دیں اور سوچنے کے کیئے دل دیئے اس لیئے کہ تم شکر گزار بنو  
ان چند آیات میں ہدایت اور یاد دہانی کی خاطر ربّ العزّت نے کچھ علم جنین کے اشارات سے ہمیں جو علم کے موتی دئے ہیں ان پر غور کیجئے
 اوّل یہ حق نے انسان کو مٹّی سے پیدا کیا اور اس کے بعد 'نطفہ' کا بیان آجاتا ہے مٹّی سے نطفہ تک کا علم ہم نہیں جانتے پھر نطفہ میں "دورنگی بوند' کیا ہے لوتھڑا اور بوٹی ، ہڈّیان وغیرہ کیسے تیّار ہوتی ہیں سائنس نے تمام معلومات حاصل کر لی ہیں  یہ تو ایک عام حیاتیات کی تھوڑی سی شدبد رکھنے والا بھی جانتا ہے میری اگلی تحریر میں آپ کی توجّہ اس لفظ کی طرف کرائ جائے گی جس کا ترجمہ 'بوٹی' کیا گیا ہے یعنی  مضغہ



Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, August 7, 2011

قتیل شفائ کی غزل

 اس شعر کی خوبیاں مجھے مجبور کر رہی ہیں کہ آپ کی نظر کروں
 ملاحظہ کیجئے

تو ملا ہے تو یہ احساس ہوا ہے مجھکو
یہ میری عمر محبت کے لئے تھوڑی ہے
اک ذرا سا غم دوراں کا بھی حق ہے جس پر
میں نے وہ ساںس بھی تیرے لئے رکھ چھوڑی ہے

 مشہور شاعر ہیں مگر اس شعر کا انداز  بہت دل کو لگتا ہے واہ واہ کہتے ہوئے زبان نہیں تھکتی
 پوری غزل درج کر رہا ہوں                                                   
زندگی  مین تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا
اوپر دیکھئے اس کے بعد

تجھ پہ ہو جائوںگا قربان تجھے چاہوںگا      
میں تو مر کر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اپنے جذبات میں نغمات جگانے کے لئے
 میں نے دھڑکن کی طرح دل میں سجایا ہے تجھے
 میں تصور بھی جدائ کا بھلا کیسے کروں
 میں نے قسمت کی لکیروں سے چرایا ہے تجھے
         پیار کا بن کے نگہبان تجھے چاہوںگا
 میں تو مر کر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 تیری ہر چاپ سے جلتے ہیں خیالوں میں چراغ
 جب بھی تو آئے جگاتا ہوا جادو آئے
 تجھ کو چھو لوں تو پھر اے جان تمنا مجھکو
 دیر تک اپنے بدن سے تیری خوشبو آئے
 تو بہاروں کا ہے عنوان تجھے چاہوںگا       میں تو مر کر بھی۔۔۔

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Monday, July 11, 2011

کوٹلہ - بھمبر کی فتح

گائوں میں بہت سےگھروں میں بھیںس اور دوسرے جانور تھے اور دودھ  دہی مکھّن وغیرہ کی کمی نہیں تھی مگر ہمارے گھر میں بھیںس کبھی ہوتی اور کبھی نہیں ہوتی تھی تو جب نہ ہو تو مجھے کسی دوسرے 'زمیندار' کے گھر سے دودھ لینے جانا پڑتا تھا ہمارے گائوں سے ملحق ایک اور چھوٹا گائوں تھا جس کا نام  پہاڑہ تھا
 صبح صبح سورج نکلتے ہی میں پہاڑے جاتا اور اس گھر سے دودھ لاتا۔ ایک پیتل کی چھوٹی سی بالٹی میرے ہاتھ میں ہوتی۔ یہی کوئ فرلانگ بھر کا فاصلہ تھا
 پاکستان بن چکا تھا اور کشمیر کی 'جنگ' شروع ہو چکی تھی مجاہدین دھڑا دھڑ آ جا رہے تھے اور چوںکہ ہندوستانی ہوائ جہاز کبھی کبھی پاکستان کی سرحد کے اندر بھی کشمیر کے بارڈر کے نزدیک بمباری کر دیا کرتے تھے اس لئے پاکستان کی فوج نے باقاعدہ ہمارے گائوں میں اپنا اڈّا جما لیا کوٹلہ اور پہاڑہ کے درمیانی حصّے میں ایک پرانی عمارت تھی جسے ہم 'سرائے' کہتے تھے اور وہ تھی بھی سرائے جو پہلے تو مغلوں نے بنائی ہوگی مگر  انگریزوں نے اپنے آرام کے لئے تمام صاحبوں والے چوںچلوں کے لئے اسے مکمل کیا تھا۔ انگریزوں کے جانے کے بعد وہ خالی تھی اس میں باقاعدہ پاکستانی فوج نے اپنا قبضہ جما لیا
 میں فوج کے آنے سے پہلے کا واقعہ بتانے لگا ہوں
 کشمیر کی جنگ میں بہت سے لوگ حصہ لیتے تھے کچھ ان میں ریٹاءرڈ فوجی ہوتے کچھ پاکستانی فوج کے 'چھٹّی' پہ آئے ہوئے ہوتے کچھ دیہاتی ویسے ہی برچھا کلھاڑی یا گنڈاسا لیکر  اللہ اکبر کے نعرے لگاتے 'جہاد' میں شامل ہوجاتے کہ شائد کچھ مال مل جائے باقی سرحد سے آئے ہوئے پٹھان ہوتے
 بھمبر ایک تحصیل تھی جس کا فاصلہ 'شہر کوٹلہ' سے آٹھ نو میل ہی تھا ڈوگرہ فوج تحصیل میں تھی اور اس پر حملہ کرنا یا فتح کر نا ایسا آسان نہیں تھا
 خیر سرائے میں پروگرام طے ہوئا کیسے حملہ کیا جائے ظاہر ہے کہ کام فوجیوں کا تھا اور انھوں نے سختی سے ان تمام غیر فوجیوں کو منع کیا کہ جب تحصیل سے باہر سحر کے وقت ڈوگرے سپاہی پی ٹی کر رہے ہوں ان پہ اچانک جا پڑیں مگر کوئی نعرہ اللہ اکبر کا نہ لگائے
 اب یہ کوئی دو سو یا کچھ اوپر  لوگ چلے حملہ کرنے جونہی ان کو ڈوگرہ فوجی پی ٹی کرتے نظر آئے انھوں نے ہلّہ بول دیا اور نعرہ لگا کر انھیں خبردار کردیا بس پھر بھلا کیسے وہ شہر فتح ہو سکتا تھا شام تک کئی زخمی آئے جو کوٹلے کے 'ہسپتال' میں علاج کے لئے آ رہے تھے میں یہ سارے 'تماشے' دیکھا کرتا اور ان کی یاد میرے دل میں قائم ہے
دوسرے روز بھی گزرنے پر کچھ نہ ہوسکا۔ تیسرے روز کا ذکر  ہے کہ میں صبح سویرے حسب معنمول دودھ لینے پہاڑہ گیا سڑک وہی تھی جو بھمبر کو جاتی ہے کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پاکستانی ٹینک بھمبر والی سڑک پر بھمبر کی طرف سے آرہا ہے اس کے پیچھے ککر یعنی ببول کے درخت سے کاٹی ہوئی شاخین لگی تھیں جو ٹینک کے نشانات کو مٹاتی آ رہی تھین میں دودھ لیکر گھر آیا تو تفتیش میں نکلا کیا معاملہ ہے۔ معلوم ہوا اس روز بھمبر تحصیل یعنی بھمبر فتح ہو گیا اور جلد ہی مجاہدین میر پور اور سرینگر کے راستے پر تھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پلان ٹینک والی ہمارے  ایک بھائی  نے بنائی تھی وہ میرے بہنوئی کے بڑے بھائی تھے میرے بہنوئی اس وقت بھمبر میں ہی تھے لیکن اس حملہ سے ایک روز پہلے پیدل ہی نکل گئے اور بس ایک اٹیچی کیس  لیکر نکلے تھے میری بہن بچوں سمیت پہلے ہی کوٹلہ آ چکی تھین

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, June 7, 2011

امریتا پریتم کی پنجابی شاعری

بات سے بات نکل آتی ہے میں در اصل  "کبھی کبھی' کے شاعر جناب ساحر لدھیانوی کے متعلق پڑھ رہا تھا تو اس میں امریتا پریتم کا ذدکر آ گیا وہ بھی معلوم تھا مگر امریتا صاحبہ کی شاعری مجھے  معلوم نہیں تھی  یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ شھر گجرانوالہ کی پیدائش ہیں البتّہ یہ جانتا تھا کہ وارث شاہ گوجراںوالہ سے تعلق رکھتے تھے ان کی 'ہیر' ایک  خاص تصنیف ہے جس سے سب کو واقفیت ہے میں یہاں امریتا صاحبہ کی نظم کا کچھ حصہ لکھ رہا ہوں اسے پڑھنے سے پہلے میں آپ کو  پاک و ہند کی تقسیم کے متعلق یہ بتا دوں کہ نظم پڑھئے تو بطور پاکستانی یا بطور مسلمان یا یوں بھی کہ لیں کہ بطور ہندو یا بطور بھارتی نہ پڑھیں پھر آپ محسوس کریں گے کہ ایک پنجابی کا دل کیسے دکھا ہے اس بٹوارہ پر جب خاک و خون  کی ہولی کھیلی گئی

اجّ آکّھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول - تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ کھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین - اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کیہن
اٹھ دردمنداں دیا  دردیا تک اپنا دیس پنجاب - اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی اے زھر  رلا - تے اونھاں پانیاں دھر توں دتّا پانی لا
اس زرخیز زمین دے لوں لوں پھتّیا زہر - گٹھ گٹھ چھڈیاں لالیاں فٹ فٹ چھڈّیا زہر 

  اج آکھان وارث شاہ نوں ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جتھے وجدی سی کوک پیار دی اوہ ونجھلی گئی گواچ -  رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اس دی جاچ
دھرتی تے لہو وسّیا تے قبراں پیّاں چون - پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون
  اج تے سبھے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور -  اج کتھوں لیا ئیے لبھّ کے وارث شاہ اک ہور  

اس نظم نے امریتا پریتم کو سب سے زیادہ دوام بخشا ہے
اس کا انگریزی ترجمہ میں خود تو کر نہ سکا کسی نے ویکی پیڈیا پہ کیا ہے تو وہاں سے نقل کروں گا
  مگر میرے انگریزی بلاگ پر ملاحظہ کیجیئے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Friday, May 27, 2011

کہاں راجہ بھوج اور کہاں۔ ۔ ۔ ۔

 ڈی ایس کے' صاحب کی خبر تھی کہ ایک "پر تکلّف" قسم کے ٹائون ہائوس میں منتقل ہو گئے ہیں جس کا کرایہ چھ ھزار ڈالر' ماہانہ ہے اس سے مجھے اپنی ایک  بات یاد آ گئی
    یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب میں ایک اچھے عہدے پہ فائز تھا اورخیر سے اچھی رئیسانہ نہ سہی متموّل زندگی گزار رہا تھا اور میری سالانہ آمدنی  بہتّر ہزار ڈالر تھی یعنی وہی چھ ھزار ڈالر ماہانہ--اس وقت مجھے ایک ذریعے سے اطّلاع ملی ایک صاحب کے متعلّق جو مجھ سے عمر اور تعلیم کے لحاظ سے کم تھے کہ وہ نیو یارک میں ایک اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں جہاں وہ چھ ہزار ڈالر ماہانہ کرایہ دیتے ہیں


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, May 18, 2011

عورت کا مرد پہ ہولناک اثر

 اللہ تعالےا نے مرد کو  عورت پرایک گونہ فوقیت بخشی ہے گو عورتین اس بات کو پسند نہیں کرتیں اور ہمیشہ اس تاک میں رہتی ہیں کہ مرد کو کیسے نیچا دکھایا جائے مگر مرد بیچارہ اس میدان میں جہاں کہ واقعی 'فوقیت' ہوتی ہے مار کھا جاتا ہے  دنیا ایسی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے جہاں  عورت نے اپنا قبضہ اور اس کا کمال دکھایا ہے۔  آپکو یاد ہوگا کہ ملکہ نور جہاں زیادہ تخت پہ حکومت دکھاتی تھیں گو جہاںگیر شہنشاہ کہلاتا تھا
 اسی طرح۔ اب دیکھئے میرے عزیز قاری صحبان وہ موٹا ہنری ھشتم کوئ ایسا یوسف ثانی تو نہیں تھا لیکن صاحب آٹھ عدد بیویاں بنا چھوڑیں اپنی مختصر زندگی میں -دلہن گھر میں موجود ہونے کے  باوجود وہ اور کوئ گھر میں کام کرنے والی کو پکڑ لیتا تھا وہ اس زمانے کی بات ہے جب بادشاہ لوگ واقعی مطلق العنان ہئوا کرتے تھے ممکن ہے لوگ بادشاہ پر الزام دہی بھی کرتے ہوں اور رعایا میں جنہیں اس کا علم ہوتا تھا چہ مگوئیاں بھی کرتے ہوں  پھر بھی وہ موٹا  شرافت دکھا جاتا اور شادی رچالیتا تھا- لڑکا پیدا نہ کیا تو گردن زدنی لڑکا ہی چاھئے چاہے وہ حرامی ہی ہو بیوی نہ مانے تو اس کو یا کسی بہانے سےطلاق  یاکسی بہانے سے گردن زدنی                                                                 

موجودہ زمانے میں بھی مثالیں ملتی رہتی ہیں- میں ان دنوں انگستان میں مقیم تھا جب  پروفیومو اور کرسٹین کیلر کے معاشقے کی افواہیں پھیلیں۔ پروفیومو نہایت حسّاس قسم کے عہدے--وزیر جنگ-- پر فائز تھا اور اس لڑکی  ایک روسی سیاسی شخصیت سے بھی ملوث تھی بس اب جو سنسنی خیز خبریں شروع ہوئ ہیں توبچارے پروفیومو کی سیاسی پارٹی پہ  اتنا برا اثر پڑا کہ اسے نہ صرف اپنی پوزیشن سے استعفےا دینا پڑا بلکہ اس کی سیاسی زندگی ہی ختم ہو گئ اور اس پہ طرّہ یہ اس پارٹی کو اگلی مرتبہ الیکشن میں ہزیمت بھی اٹھانی پڑی یعنی واقعی 'سلظنت کا تختہ الٹ گیا'
 پھر آپ کو یاد ہوگا چھوٹے کینیڈی صاحب راہیء ملک عدم ہو چکے ہیں ایک لڑکی جہاز میں ان کے ساتھ گری اور پانی میں ڈوب کر مر گئاور وہ خود بچ گئے یہ بدنامی اس شخص کو پریزیڈنٹ بننے سے مانع ثابت ہوئ اگرچہ خاصے عزت والے گھرانے کے چشم وچراغ ہونے کے علاوہ خود بھی مانے ہوئے سیاسی لیڈر بن چکے تھے-- وہ  کلنٹن صاحب بال بال بچ گئے ان کا تختہ تقریبا" الٹ گیا تھا اب حال ہی میں جو واقعات ہوئے ہیں ان میں ھمارے اپنے صاحب یعنی نورث کیرولائنا والے جان ایڈورڈ  بھی اس حرامی بچّے کے پیدا کرنے سے پریزیڈنٹ بنتے بنتے رہ گئے اور آج کل یعنی اسی ایک ہفتے میں دو اور خبریں آپ نے سنی ہوںگی  شوارزنگر صاحب تو  پہلے ہی مشہور عورت باز کھلاڑی تھے  اور جناب ڈومنک صاحب یعنی-- ڈی ایس کے ---جو آجکل دنیا کے سب سے بڑے بنکر ہیں اس غیر قانونی حرکت میں مبتلا ہوبیٹھے کہانی ایسی سنسنی خیز ہے کہ ھزار داستان کو مات کرجائے اور کہاں ایک اتنے بڑے ہوٹل کا سوئیٹ جس کا کرایہ  تین ہزار ڈالر روزانہ ہے اور کہاں ایک نیویارک کے ایک چھوٹے سے جیل خانے کی تنگ و تاریک کوٹھڑی ایک معمولی سی نوکرانی نے کیسا پلٹا دکھا ڈالا ساری زندگی کی کمائ پہ پانی پھر گیا عزت شہرت اور سب کچھ کھڈّے میں گیا یہ صاحب ساٹھ سے اوپر ہو چکے ہیں اور ایک انجانی نوکرانی سے غلط حرکت کر بیٹھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک باہوش انسان اس قسم کی حرکت کیسےکر سکتا ہے غالبا' زیادہ پی رکھی تھی پھر بھی ایک عقلمند انسان سے ایسی توقع نہین کی جا سکتی۔
  مِں نے لوگوں کی قیاس آرائیاں اور مختلف قسم کی  آراء کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ مغرب میں  اس بات کو تو معاف کر سکتے ہیں کہ شادی شدہ ہوتے ہوئے دوسری عورت سے ہمبستری کرے مگر اس کو برداشت نہیں کرسکتے کہ لوگوں کے سامنے جھوٹ بولیں شوارزنگر ہو یا کلنٹن یہی ان کے خلاف بات  کہی جا رہی ہے اور پھر اس خاوند سے جو دوسری عورت کے پاس جاتا ہے یہ امید رکھتے ہیں کہ اپنی بیوی کو مطلع کرے کہ اس نے یہ حرکت کی ہے-- کمال ہے صاحب


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Friday, April 22, 2011

آہ معین اختر

پاکستان میں پایہ کے مزاحیہ اداکار یا مزاحیہ قصہ گو گنے چنے ہی ہیں ان ممیں ایک واحد شخصیت جناب معین اختر صاحب کی ہے اللہ کو پیارے ہو گئے انا لاللہ وانّا الیہ راجعون
 شستہ قسم کا مذاق نکال کر لانا اور پھر اس کو سامعین کے سامنے کمال ادا سے پیش کرنا انہی کا خاصہ رہا ہے قصہ کو خاص طرز میں بیان کرنا اور اپنی خاص قسم کی مختلف آوازوں مین ڈھالنا وہ اس کی ایسی مہارت رکھتے تھے کہ ہم داد دیتے رہ جاتے ہیں اللہ نے انہیں آواز پر ایسا ملکہ عطا کیا تھا کہ وہ  دنیا بھر کی چیزوں کی آواز بنا سکتے تھے
 پاکستان سے چلتے ہوئے ، یعنی کَی سال پہلے کی بات کر رہا ہوں میری بہن نے میری جیب میں ایک کیسٹ ڈال دیا تھا  جو معین اختر کے پرانے شو سے رکارڈ کیا ہوئا تھا جس میں وہ اس زمانے کی گاڑیوں کا بیان کرتے ہیں جب ٹیپ لگائیں تو گاڑی کے دھچکوں سے گانے کی آواز بھی اچکتی تھی خیر وہ میرے بہت کام آیا بچّے چھوٹے تھے اور انہیں اردو سے تعارف کرانا تھا بس اتنا فائدہ ہوءا کہ میرے صاحبزادے نے اردو بولنی شروع کردی اور صاحبزادی نے بھی گو وہ زیادہ تر انگریزی میں ہی سہی۔ مجھے یاد ہے کہ جگنو --بیٹے کو پیار سے پکارنے کا نام--- نے ٹیپ سن رکھا تھا اور زبانی یاد ہوتا جارہا تھا اس میں معین صاحب وہ غزل سناتے ہیں
یہ نہ تھی ہماری قسمت---
 تو پہلے مہدی حسین کی طرز پر سنانے کے بعد پھر وہ 'ماڈرن' طرز پر سناتے ہیں اب میں اس کو اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا سننے سے تعلّق ہے
 تو جگنو پوچھنے لگا کیا ساری غزل بھی مل سکتی ہی  یعنی اس ماڈرن طرز میں؟
 مجھے اس کی معصومیت پہ بہت پیار آیا۔
اللہ معین صاحب کی مغفرت فرمائے اور جنّت میں جگہ عطا فرمائے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Monday, April 4, 2011

قرآن مجید کی بے حرمتی

بیس جانیں ضائع گئیں
 اگر ان افغانیاں کو احتجاجی جلوس نکالنا ہی تھا تو امریکن سفارتخانے کا رخ کرتے اور زور زور سے امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے مجھے کوئی افسہس نہ ہوتا مگر اقوام متحدہ کے دفتر جانا میری سمجھ میں نہیں آتا اور پھر دفتر میں بزور داخل ہونے کی کوشش؟
 خدا نہ کرے کسی اور ملک میں مفت جانیں ضائع ہوں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ بجائے اس کے کہ دنیاکے لوگ اس بےوقوف پادری کو لعنت ملامت کرنے کے اب افغانیوں اور مسلمانوں کو بدنام کریں گے اور اسلام کو مورد الزام ٹھیرائیں گے جب کہ اصل لعنتی کو کچھ نہیں کہا جائے گا بلکہ پیٹر کنگ جیسے لوگ پھر امریکن اور غیر امریکن مسلمانوں پہ کیچڑ اچھالیں گے
 کب مسلمانوں کو عقل آئے گی
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, March 31, 2011

مسلم ممالک میں موت کا کھیل

 مصر کی مثال لیکر اور بہت سے مسلم ملکوں میں یہ رو پھیلتی جا رہی ہے کہ موجودہ حکومتوں کو ہٹا کر نئے سرے سے ملک میں انقلابی حکومت قائم کی جائے جو عوام کے لئے بہتر ثابت ہو
 شروع شروع میں ایسالگ  رہا تھا کہ خوشگوار تبدیلی ہے اور اچھا ہے کہ مسلمان پھر سے 'جاگنے والے' ہیں مگر اتنے سارے ملکوں میں جو موت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے کچھ اپنے ہی حاکموں کے ہاتھوں اور کچھ مغربی طاقتوں کے ہاتھون جن کا مقصد اپنے لئے راستہ ہموار کرنا ہے اور اب احسان بھی کریں گے کہ ہم نے تمھاری مدد کی--وہ مجھے صحیح نہیں لگتا- 
پہلے ہم سب نے صدّام  اور عراق کی مثال دیکھی پھر مبارک کی حکومت کا نقشہ الٹتا دیکھا
تو کیا باقی کے ملکوں میں جو بر سر اقتدار ہیں یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ان کی اور ان کے ملک کی بھلائی کس میں ہے-- بزور طاقت اپنی حکومت قائم رکھنے میں یا کسی باہر کی طاقت کو اپنا ملک اور اپنی حکومت بیچ دینے میں۔ کیا وہ کوئے ایسا بہتر طریقہ استعمال نہیں کر سکتے جس میں    
ساںپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نا ٹوٹے
میرے ناقص خیال میں اگر وہ اپنے لوگوں سے ٹیبل پہ بات کر کے فیصلہ کروالیں تو اس میں نہ صرف فضول جانیں ضائع ہونے سے بچ جائیں گی بلکہ ملک کی سالمیت بھی قائم رہے گی عزت بھی بچ جائے گی اور عین مکن ہے کہ لوگ اسی حاکم کو مان لیں
 جو طریقہ استعمال ہو رہا ہے اس میں یہی خطرہ ہے کہ ایک ظالم حاکم کو دوسرے طالم حاکم سے بدل لیا جائے گا
 اللہ رحم کرے ہر ایک ملک میں  عوام کی حالت سیاسی اور اخلاقی حالت ایسی قابل  تعریف نہیں ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
 نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا'


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, March 23, 2011

یوم پاکستان

 میرے تمام پاکستانی بھایئوں کو یوم پاکستان مبارک ہو
 بڑے دکھی دل سے مبارک دے رہا ہوں سمجھ نہیں آتا کیسے خوشی منائوں کیا ہمارے بڑوں نے غلطی کیتھی پاکستان بنا کر؟
 وہ اجلاس یعنی آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس جس میں قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی اور منظور کی گیئ تھی ایک مسلامنوں کے لیئے ایمان افروز دن تھا اور واقعی اسے منانا چاہیئے اس لئے مبارکباد لکھ رہا ہوں
                                                                       اس تاریخی دن کی تصویریں دیکھتے  ہوئے اس پر نظر پڑی

اب ذرا غور سے دیکھیں تو آپ کو یہ علّامہ اقبال کا مشہور شعر نظر آئے گا
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں  
 ادھر ڈوبے ادھر نکلے-ادھر ڈوبے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔

 میرے خیال میں بس اب مجھے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرھا


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Friday, March 18, 2011

بچّے کی دعا اللہ میاں کے لئے

 اس دو سالہ بچٰے کی خالہ عمرہ کے لئے جا رہی ہیں تو ماشا اللہ پوچھنے لگیں تمھارے لئے اللہ میاں سے کیا دعا مانگوں بولا- خالہ جان پہلے اللہ میان کو پپّی دیں اور کہیں میرے لئے چاکلیٹ دیں


اPlease visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, March 12, 2011

تار آئ ہے

ایک زمانہ تھا جب دوسری جنگ عظیم جاری تھی پنجاب میں اس کو 'لام' کہا جاتا تھا
 کہ فلانا  لام پہ گیا ہوا ہے
 گائوں میں پڑھے لکھے لوگ بھی کم ہوتے تھے خط یا تار کسی کے ہاں آئے تو اسے کوئ پڑھنے والا تلاش کرنا پڑتا تھا
 تار تو کبھی کبھی ہی کسی کے ہاں آتی تھی اور جب آئے تو اس کا مطلب ہوتا تھا کہ کوئ بری خبر ہی ہے عام طور پر وہ جنگ پہ گئے ہوئے جوانوں کی خبر ہی ہوتی تھی یعنی وہ 'مسنگ ان ایکشن' ہے یا جان سے مارا گیا  ہے
 چنانچہ جب کسی کو بتایا جاتا کہ آپ کے تار آئی ہے تو گھر میں رونا پیٹنا شروع ہو جاتا تھا بعد میں تار کا مطلب پڑھا جاتا تھا اب تو ماشا یاللہ کم ہی ایسے گائوں رہ گئے ہیں جہاں پڑھے لکھے لوگ نہ ہوں زیادہ تر ان دنوں لوگ ایماندار ---مسلم یا غیر مسلم برابر تھے صاف گو، سادہ دل اور مہمان نواز ہوتے تھے ھمارا گائوں ذرا بڑا تھا اس میں ڈاکخانہ تھا مگر سکول صرف پرائمری تھا ان دنوں اخبار کی سرخیاں یہی ہوتی تھین کہ اتّہادی فوجیں کہان تک پہینچی ہیں کتنے شہروں پر بمباری ہوئی کتنے لوگ مارےگئے وغیرہ-

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Monday, February 28, 2011

ظالم سماج

 ہم نے کئ قسم کے ناول اپنی زندگی میں پڑھ رکھّے ہیں جاسوسی ناول زیدہ پسند تھے ہند-و-پاک تہذیب میں ایک لفظ سماج کا عام استعمال ہوتا ہے  زیدہ تر اس کا ستعمال رومانی قسم کی کہانیوں اول ناولوں میں دیکھا ہے
"ظالم سماج" خصوصا" ایسی ہی جگھوں پر دیکھا ہے
 ، اپنے میڈیکل وارڈ میں ہمارے داخلے والے دن ایک نہ ایک  پوِاءزننگ کیس ضرور آ جاتا تھا  نیلا تھوتھا،  ایسپرین -
افیم، وغیرہ زیادہ کیس آتے تھے ایک روز ایک کیس آیا ٹیں ایجر لڑکی تھی اور ایسپریں کی گولیاں کھا لی تھیں، نہ معلوم کتنی اب یاد نہیں بیہوش نہیں تھی-تو ہم نے ہسٹری لینی شروع کی
 نام وغیرہ پوچھنے کے بعد جب ایسپرین کا ذکر چھیڑا تو اس نے باقاعدہ ہمیں  'اس ظالم سماج' پہ لیکچر دینا شروع کر دیا کہ میں نے کوئ غلط کام نہیں کیا محبّت کی ہے اور سماج کو پسند نہیں
 وغیرہ وغیرہ
 اورمیں اس لڑکی کو بغور دیکھنے لگا دیکھنے میں کسی ہیروئن کی طرح نہیں لگ رہی تھی عام سا چہرہ تھا ممکن ہے 'خوبصورت' کا لفظ مجھے اس کے لئے زیادہ لگا ہو چلیئے قبول صورت کہ لیتے ہیں بھلا اس عمر میں ایسے خیالات اور اس قدر پختگی تھی اس کے ارادوں میں مجھے واقعی کسی فلم یا کہانی کا پلاٹ سا محسوس ہونے لگا تھا
 بعد میں کیا ہوئا اب ذہن سے اتر گیا ہے لیکن جیسا کہ کبھی کبھی ہوتا ہے ایک لفظ کے سامنے آنے سے پرانی یادوں کے کسی کمرے کی کھڑکی سی کھل جاتی ہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, February 19, 2011

شراب اور اس کا اثر

 بچپن میں ہم شراب اور شرابیوں سے بہت ڈرتے تھے ظاہر ہے کہ یہ اتنی عام چیز نہیں تھی۔
 اس وقت کا ذکر ہے جب ابھی پاکستان نہیں بنا تھا میرے گائوں میں ایک مکان پر جئوا اور شراب کا گڑھ تھا کچھ ہندو جئوا کھیلتے تھے اور ان کے ساتھ کچھ مسلمان بھی شامل تھے دوسرے گائوں سے لوگ آ کر یہاں جئوا کھیلتے مگر شراب پینے میں مسلمان زیادہ مشہور تھے ان میں سے ایک صاحب میرے سکول والے گائوں سے آتے تھے کبھی کبھی ہمارا ان کا سامنا ہو جاتا تھا کہ جب ہم سکول سے گھر آ رہے ہوتے وہ اپنے گھر جا رہے ہوتے ہم بچّے راستہ چھوڑ کر الگ ہو جاتے وہ صاحب نشے میں دھتّ ہوتے تو ہمیں ڈر لگتا تھا۔ ایک روز راستے میں ملے تو مجھے انھوں نے پکڑ لیا اور نام وغیرہ پوچھنا شروع کیا ڈر کے مارے ہمارے منہ سے بات ہی بڑی مشکل سے ہو رہی تھی لیکن وہ اچھّے موڈ میں تھے اور غالبا پیسے جیتے ہوں گے تو مجھے انعام میں ایک روپیہ دیا ہم نے ڈر کے مارے لے لیا بھلا انکار کیسے کرتے پھر وہ اپنے راستے پہ ہو لئے اور ہم گھر کو بھاگے
                      دوسرے دن یار لوگ میرے پیچھے
'مٹھائ ہونی چاھئے' خیر ان دنوں ایک روپیہ بڑی چیز ہوتی تھی سو ہم نے سب کے ساتھ ملکر برفی کھائ کیوںکہ صرف یہی مٹھائ ان دنوں ملتی تھی
 افسوس ہے کہ ان صاحب کا انتقال پلنگ پر پڑے پڑے آگ لگ جانے سے ہوا ممکن ہے سگرٹ ہاتھ میں ہو اور زیادہ نشے میں ہوں اللہ انھیں مغفرت فرمائے اور ان کے گناہوں سے معافی عطا کرے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, February 9, 2011

تازہ سبزی

 ہم اس ملک میں رہتے ہوئے تازہ چیزوں کا صحیح مطلب نہیں سمجھ سکتے سوچا آپ کو صحیح تازہ سبزی دکھادوں
یہ نارووال کے راستے میں ہمیں نطر آئ تو سوچا خرید لیں- اگر آپ پاکستان گئے ہیں تو ضرور معلوم ہو جائے گا کہ وہاں کی گاجر کیسی سرخ ہوتی ہے یہ سبزی سڑک کے کنارے سر عام بک رہی تھی اور یہ ھے تازہ سبزی
 جو اسی روز بکتی ہے جس روز اسے کھیت سے توڑ کر نکالا جاتا ہے اور کئ گھروں مین اسی روز پک بھی جاتی ہے
 تازگی کا پتہ اس کے ذائقہ سے چل جاتا ہے۔ یہاں بھی ہم
farmers market
سے لیکر آتے ہیں جو ایسی تازہ تو نہیں ہوتی مگر اس کا ذائقہ یقینا" عام بازار یعنی گروسری سٹور سے لائ گئ سبزی سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, January 25, 2011

ناموں مین کیا رکھا ہے

لاہور کے اخبار میں  دس روز پہلے ایک اشاعت خاص شائع ہوئی مجھے جس کا علم نہیں تھا
 آیک مشہور صحافی کی یاد میں جن کا نام منہاج برناتھا- مجھے کوئی واقفیت نہیں صحافت یا بڑے صحافیوں کے بارے میں مگر جس وجہ سے میں ان سے متاثر ہوئا وہ ان کے دوسرے بھایئوں کے نام تھے
 ان کا اپنا نام تھا منہاج محمد خاں
ان کے والد کا نام تھا حکیم تاج محمد خاں
ان کے بڑے بھائی کا نام- وہاج  محمد خان
دوسرے بڑے بھائی تھے سراجمحمد خان اور
 ایک اور بھائی معراج محمد خان
اتفاق ہی ہے کہ
 میرا نام وہاج ہے میرے چھوٹے بھائی کا نام تھا منہاج
 اور میراے دو بڑے بھائیوں کے نام معراج اور سراج تھے
 اور اگرچہ میراے والد کا نام تاج نہیں تھا لیکن وہ بھی حکیم تھے
 مجھے اپنی زندگی میں صرف ایک اور منہاج اور وہاج بھائیوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے
 اللہ آپ کا بھلا کرے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, January 23, 2011

مین اور تاثیر صاحب


اسی عنوان کے تحت میرا انگریزی بلاگ بھی دیکھیئے اس میں لکھا ہے میراآمنا سامنا جو ڈاکٹر محمد دین تاثیر  مرحوم سے ہوءا
جب وہ اسلامیہ کالج کے پرنسیپل تھے اور ان کے صاحبزادے سلمان تاثیر کی موت کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہاں مین ایم ڈی تاثیر کا ذکر کر رہا ہوں
ہمارے کالج میں ایک اردو کی ڈی بیٹ ہوئی جس کا عنوان تھا
" ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
  آہ بے چاروں کے  اعصاب پہ عورت ہے سوار
 ججوں کی پینل میں ایک مشہور محترمہ بھی تھیں  بیگم تصدّق حسین جو اس وقت پنجاب گورنمنٹ میں نائب وزیر کے عہدے پر فائز تھیں اور ہمارے ہر دلعزیز پرنسپل جناب ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر بھی موجود تھے بظور صدر مجلس۔
باقی میرے بلاگ میں دیکھیئے جو ۲۸ دسمبر ۲۰۰۹ کو لکھا تھا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/