Sunday, December 30, 2012

دعائوں کا اثر


ہم بہت زاری اور صدق دل سے دعائیں کرتے ہیں اور لمبی لمبی دعائین مانگتے ہیں لیکن اثر نہیں دیکھا اس کی کئ وجوہات ہیں
 ممکن ہے وہ دعا اس وقت ہمارے حق میں درست نہ ہو
 قبول ہو گئ مگر اس  کا وقت دیر سے آیا یا آئےگا
 دعا ہماری نیکیوں کے کھاتے میں جمع ہو گئ
 لیکن زیادہ تر دعا کے قبول نہ ہونے کی وجوہات ایسی ہیں کہ
 ہمارا دل دعا میں نہیں ہے یعنی صدق دل نہیں ہے
 ہمارے اعمال خراب ہیں اور گناہوں کی گٹھڑی بھاری ہے
  چنانچہ

 اگرچہ گریہ و زاری بھی شامل ہے دعائوں مین
 اثر پھر بھی نہیں باقی مسلماں کی دعائوں میں
 نہ ہے اخلاص باقی اور نہ وہ اعمال ہیں اپنے
 رضا اللہ کی ملتی نہیں لمبی دعائوں میں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Sunday, December 23, 2012

شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ

 یا صاحب الجمال و یا سیّد البشر
من وجھک المنیر لقد نوّر القمر

لا یمکن الثنآء   کما کان حقّہ
 بعد از خدا بزرگ توئ قصہ مختصر

گوگل صاحب نے کبھی مایوس نہیں کیا اتفاق سے یہ مصرع- یعنی بعد از خدا۔ ۔ ۔ ۔ ملا تو سوچا پوری رباعی ڈھونڈوں- اس رباعی میں پہلے تین مصرعے عربی میں ہیں تو آخری فارسی میں جو کہ زیادہ مشھور ہے مگر مدح رسول صلّ اللہ علیہ وسلّم میں غالبا" اس سے بہتر کلام نہیں دیکھا گیا

Sunday, December 9, 2012

گائوں کی زندگی اور آندھی

پنجاب کے گاءوں زیادہ تر گرم اور خشک آب و ہوا والے ھیں بس مانسون کی بارشیں ہی زمین سیراب کرتی ہیں ہندوستان سے پنجاب آنے کے بعد گرمیوں میں جب پہلی دفعہ ہم نے آندھی دیکھی تو پتہ چلا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہےآندھیوں کے طوفان موسم گرما میں ہی آتے ہیں تیز وتند ہوااور گردوغبار  - غبار میں کبھی چھوٹے کنکر بھی ملے ہوتے ہیں جو چہرے پہ لگتے ہیں شاں شاں کی آوازیں دل ہلانے والی ہوتی ہے اور ایک اندھیرا چھا جاتا ہے۔ آپ اگر باہر ہوں تو کپڑے منہ کان ناک سر کے بال سب مٹّی سے بھر جاتے ہیں جب تک آندھی گذر نہیں جاتی کچھ نہیں ہو سکتا مگر وہاں کام چلتے رہتے ہیں ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بارش نہ بھی ہو ساتھ پھر بھی سورج کی گرمی کچھ کمی ہو جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کبھی رات کو آندھی آئے اور ہم ناہر ہی سوتے رہیں تو صبح اٹھ کر وہ ساری دھول کپڑوں اور بستر سے جھاڑا کرتے تھے آندھی کیسے شروع ہوتی ہوگی ہمیں معلومات نہیں لیکن ایک چھوتا سا حصہ دیکھا کرتے تھے گرمی میں دن کے وقت کبھی ایسا دیکھنے میں آتا تھا کہ جیسے یہاں آپ ٹورنیڈو کی بناوٹ دیکھتے ہیں یا واقف ہیں تو اسی قسم کی درجہ حرارت کی تبدیلی سے ایک جگہ ہوا کا رخ چکّر کی شکل اختیار کرتا ہے اور غبار گھومتا ہوا اوپر چڑھتا ہے بلکل اسی طرح جیسے آپ نے ٹورنیڈو دیکھے ہیں امریکہ کے- تو وہی چکّر اگر بڑھ جائے اور پھیل جائَ تو ایک آندھی کے طوفان کی شکل بن جاتی ہے مجھے یاد ہے کہ اس قسم کے چھوٹے سے گرد کے چکّر کو پنجابی میں ہم - واہ ولونا- کہا کرتے تھے یہ خصوصا" ان لوگوں کے لئے لکھا ہے جو پنجاب میں نہیں رہے اور -طوفان گردوباراں کا سن رکھا ہے مگر اس کے متعلّق زیادہ جانتے نہیں

 Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Tuesday, October 30, 2012

پاکستان کیا ہے

 علی گڑھ یونیورسٹی میں قائد اعظم رح  کی ایک تقریر جس کا ترجمہ جناب رئیس احمد جعفری نے کیا تھا میری نظر سے حال ہی میں گزری جو اردو ڈائجسٹ میں دسمبر ۱۹۸۹ میں شائع ہوئ تھی اس میں سے چند اقتباسات لے رہا ہوں بنیادی طور پہ پاکستان کے مسلّمہ نظریہ پہ ہی گفتگو تھی اس کے متعلق آپ فرماتے ہیں -یعنی ان طلبآ سے مخاطب ہیں
"مین اپیل کرتا ہوں کہ اپنے آپ کوناگہانی ضرورت کے لئے تیار رکھو  علیگڑھ مسلم  ہندوستان کا سلاح خانہ ہے اور تم اس کے بہترین سپاہی ہو تم دیہات میں پھیل جاءو ہمارے آدمیوں کو تعلیم دو انھیں سدھارو انھیں اپنا مقصد سمجھاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ذرا اس 'حکم' کی تعمیل ملاحظہ کیجئے مجھے اچھی طرح وہ اپنے گاءوں کی سرد صبح یاد ہے جب میں نے دو تین جوانوں کو دیکھا جو میرے گاءوں میں آءے تھے اور تقریر کر رہے تھے چند میرے گاءوں کے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے  ان کی کالی شیروانیوں کی دھول بتا رہی تھی کہ دور دراز کے سفر میں ہیں لیکن پاکستان کے متعلق لوگوں کو سمجھانا ایسا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں میں پہنچ رہے ہیں اور اپنے قائد کی بتائ ہوئ تعلیم کو عام کر رہے ہیں ایسا لیڈر اب کہاں سے آئےگا
 اسی سلسلے میں بات کرتے ہوئے--
' گزشتہ سال گاندھی جی مجھے ملنے آئے تھے وہ مسلم ہندوستان سے ملنے آئے تھے کیوںکہ میں  مسلم ہندوستان کے نمائندے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں
 میں سمجھتا ہوں کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد نہ تو ان کی تقریروں کو عام کیا گیا ہے اور نہ ہی ان کی تعلیمات کو حالاںکہ وہ نہ صرف یہ کہ ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ کئ معاملات میں آجکل کے لیڈروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوںگی
  --اپنے نظرئے کی وضاحت کرتے ہوئے
-ہندوئوں اور مسلمانوں میں کس قدر گہرا اختلاف موجودہے  حقیقت یہ ہے کہ پاکستان یہاں صدیوں سے موجود ہے آج بھی ہے اور قیامت تک رہے گا
آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ سننے والوں کا جوش و خروش کیسا ہوگا
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ان کا ارادہ اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنے کا تھا نہ کہ جو ہم آجکل دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے جھگڑے ختم ہی ہونے میں نہیں آتے الزام تراشی، اور ہٹ دھرمی چل رہی ہے ذرا اس اقتباس کو غور سے پڑھئے

آئے ہم اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں ہندوئوں کو جنوب اور مغرب کی حفاظت کرنے دیجئے اور مسلمانوں کو سرحدوں کی حفاظت سونپیے پھر ہم مل کر کھڑے ہوںگے اور دنیا سے کہیں گے کہ ہندوستان سے الگ رہو ہندوستان ہندوستانیوں کے لیے ہے



Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Sunday, September 2, 2012

پرانی تہذیب ابھی زندہ ہے

 میں ایک عزیز کے ہاں گیا بہت عرصہ کے بعد ملاقات ہو رہی تھی بلکہ جن سے میتی جان پہچان تھی اور جن کے ساتھ میں بچپن میں کھیلا تھا وہ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ان کی بیگم اور بچے جنھوں نے میرا نام ہی سن رکھا تحھا ان سے ملاقات ہوئ۔ بھابی اور بچوں کے لئے میں کچھ لیکر گیا تھا۔
 ملنے والے آ رہے تھے میرا نام سن کر سب کو خیال تھا
 ایک ملنے والے میرے ساتھ بیٹھے تھے یکایک اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے کہا کھڑے ہو جائیے تو میں کھڑا ہو گیا سوچ رہا تھا یہ بڑا عجیب سوال تھا پھر انھوں نے ایک فیتہ نکالا اور میرا ناپ لینا شروع کر دیا-
 اب یہ ہے کہ پرانے زمانے میں یہ طریقہ تھا کہ جوڑا سینے کے لئیے درزی گھر پر بھی بلوا لیتے تھے آجکل ایسا بھلا کہاں ہوتا ہے لوگ سلے سلائے جوڑے دیتے ہیں میں اس کو پہن کر خوش ہوتا ہوں یہ مجھے نہ صرف اپنے بچپن کے ساتھی کی یاد دلاتا ہے بلکہ اس پرانے تہذیب و تمدّن کا مزا بھی یاد کراتا ہے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Sunday, August 19, 2012

عید مبارک

 دو شفٹون میں پڑھی گئ
 جگہ بڑی نہ مل سکی۔ پہلی شفت میں ساڑھے تین ھزار کے قریب اور دوسری میں پانچ ہزار کے قریب مسلمان تھے
 اب ماشا اللہ بڑے شہروں میں ایسے ہی عید ہوتی ہے پھر ہم عید لنچ کے لئے اکٹھے ہوئے بچوں کا پروگرام اچھا تھا  ہمارے اپنے دونوں نہیں تھے اور نہ ہی نواسے پوتے ان کے بغیر بھلا ہم دونوں بوڑھے میاں بیوی کیا کر سکتے تھے آرام کیا اب کل سے شوّال کے روزے شروع کر دیں گے



Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Thursday, August 2, 2012

نقلی دوائی کی فروخت پاکستان میں

 ِہ کوئ نئ بات نہیں کہ پاکستان مین ایک عرصہ سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور عموما" لوگ اللہ تعالےا کے بھروسے ہی ٹھیک ہوتے ہیں لیکن ان بنانے والوں اور بیچنے والوں کے لئیے یہ سوچ کا مقام ہے آخر وہ بھی بیمار ہوتے ہیں اور ان کے بھی بیوی بچے بیمار ہوتے ہیں تو کیا وہ ایسی دوائیں اتعمال کرین گے؟ جہاں تک پاکستان میں اللہ کے سامنے جوابدہی کا معاملہ ہے اس کا تو ذکر ہی نہیں چھیڑنا چاہتا کیوںکہ کئ حضرات یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اس لئے اللہ تعالےا نے رعایت رکھی ہے ان پاکستانیوں سے کچھ نہیں پوچھا جائےگا یہ تو اللہ کے چہیتے ہین اور بس پاکستانی ہونے کے ناطے ہی سیدھے جنّت میں بھیج دئے جائیں گے
 دوسری ملحقہ خبر یہ پڑھی ہے کہ چیف جسٹس نے صوبائ افسروں کو دو ہفتے کا نوٹس دیا ہے کہ آسان اور سادہ فہم قانون بنا کر پیش کریں غیر قانونی  اعضاء کی پیوند کاری کے بارے میں۔ یہ نہایت خوش آئند بات لگتی ہے کیا اس پر خاطر خواہ عمل ہوگا؟ یہ دیکھنا باقی ہے۔ غیر قانونی اعضاء کی پیوندکاری ایک نہایت اہم مسئلہ ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ چیف جسٹس کا یہ اقدام اس شخص کی انسان دوستی، ذہانت اور خدا خوفی کا مظہر ہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com





Monday, May 28, 2012

SAUGOR--ساگر



  میں نے تصویر بڑی کرائی ہے مگر انگریزی کا لکھا ہوا ابھی بھی ٹھیک نظر نہیں آتا اوپر ہیندی میں  اور اس کے نیچے انگریزی میں لکھا ہے
ایس اے یو گی او آر - ساگر

 آج--  مئ ۲۸  کو-- ایسا ہوا کہ میں تصویر کو اتنا بڑا کر سکا ہوں کہ ساگر کے سپیلنگ نظر آ رہے ہیں یاد رہے کہ یہ تصویر  سن چھیاسی میں لی تھی
1986 

Friday, May 4, 2012

گرمیوں میں چائے


 اس میں کوئ شک نہیں کہ تصویر چھوٹی ہے مجھے یہ آرٹ اچھی طرح نہین آتا م
مگر جناب گرمیوں کے موسم میں آفٹر نون ٹی کا مزا لیتے ہوئے یہ تصویر لی گئی ہے میں غالبا" ایف ایس سی میں تھا چھٹیوں میں کوٹلے آیا ہوا تھا اور ذاہد میاں بھی آئے تھے جنھیں اس چائے کا شوق تھا
 اسمارٹ تو لگ رہا ہوں
 مقولہ ہے کہ
 گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Saturday, April 14, 2012

گائوں کے اسکول میں

  یہ تو درست ہے کہ میں بہت پرانی بات کر رہا ہوں مگر یوںہی خیال آیا۔
امریکہ میں رہتے ہوئے سکولوں کی کھیلیں دیکھتا ہوں ہر قسم کے فرسٹ کلاس گرائونڈ فٹ بال باسکٹ بال اور نہ جانے کیسے کیسے کھیلوں کے لئے سارے اسباب موجود اور بچّے کبھی یہ خیال بھی نہیں کرتے کہ یہ سب کہاں سے آتا ہے۔ میں اپنے گائوں کے سکول کا سنا رہا ہوں جو مڈل تھا اور ہائ ہو گیا اس وقت پی ٹی ماسٹر بھی آگئے اور پڑھنے لکھنے کے علاوہ کھیلوں کی طرف توجہ کی گئ مجھے یاد ہے کہ بڑا عجیب لگ رہا تھا کھیلوں کی طرف اتنا دھیان کیوں دیا جا رہا ہے خیر ایک والی بال اور نیٹ منگوایا گیا اور دو بڑے باںس کے کھمبے لگا دئے گئے اور باقاعدہ والی بال کھیل شروع ہو گیا میری یعنی سینئر کلاس میں ٹین ایجر اور بڑے جسم والے لڑکے تھے اور شوق سے کھیلنا چاہتے تھے مگر جس طریقہ سے اس نہائت مختصر سامان کا خیر مقدم کیا گیا تھا وہ نہیں بھولتا۔ غریب کے لئے کتنی بڑی نعمت تھی اور سارے بچّے خوش تھے اور احتیاط سے اس سامان کی حفاظت کرتے اب ککرالی ہائ سکول کی اپنی والی بال ٹیم تھی اور دوسرے سکولوں سے مقابلہ کرنا تھا پریکٹس باقاعدہ ہونے لگی



Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Sunday, March 25, 2012

سرورق کی نئی تصویر

 ِہ تقریبا" ساڑھے تین سال کی عمر ہے
 شلوار قمیص چلتی تھی لیکن قمیص کے کالر سے اندازہ ہوتا ہے کہ گھر کی سنگر مشین پر کپڑے تیار کئے گئے ہیں بڑی آپا اور چھوٹی آپا سلائی کی پشق کر لیتی تھیں اور ہم غریبوں کے لباس تیار ہو جاتے تھے اسی لئے میری بڑی بہنیں کہتی ہیں مجھے نئے کپڑے پہننے کا بہت شوق تھا
 'نئے نئے کاپلے' میری بچپن کی زبان میں ہے مگر مجھے یہ الفاظ یاد نہیں


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Wednesday, March 21, 2012

۲۱ مارچ اور عمرہ کا بیان

 موسم بہار کا شروع آج کا دن سمجھا جاتا ہے
واقعی آس پاس کے پودوں درختوں وغیرہ میں کوںپلیں پھوٹتی نظر آرہی ہیں اور اس تبدیلی کا احساس دلا رہی ہیں خنکی میں ہلکی ہلکی گرمی آ رہی ہے۔
خیر میں تو ابھی حال میں ہی مکّہ المکرّمہ  اور مدینہ المنوّرہ کی سیر کرتا آیا ہوں جہاں موسم قدرے گرمی مائل تھا
زمزم کا حال اپنے انگریزی بلاگ میں لکھ چکا ہوں اچھا خاصا رش تھا ہم نے ایک ہفتہ گزارا صحن بھرا رہتاتھا اور طواف کم ہوتا نہیں ملا رکن یمانی کو اشارہ ہی کرتے رہے وہاں ہاتھ لگانے کے لیئے تقریبا" حجر اسود والا جمگھٹا تھا اور مجھے دھکے پسند نہیں نہ میری عمر اجازت دیتی ہے۔ مقام ابراہیم پہ بھی جمگھٹا رہتا ہے لیکن ایسا نہیں کہ آپ جھانکنا چاہیں تو نہ کر سکیں مسلمان جوش میں حدود پہ قائم نہیں رہ سکتے۔ مقام ابراہیم پہ میں نے ایک عورت کو سجدہ کرتے دیکھا جو بجائے کعبہ کیطرف سجدہ کرنے کے مقام ابراہیم کو سجدہ کر رہی تھی اسی طرح چوںکہ ملتزم کی جگہ ہر وقت بھری رہتی ہے تو کعبہ کی ساری دیواروں پہ لوگ سر رکھے دعائیں کرتے رہتے ہیں حطیم میں ہم نہ جا سکے سعی کے لیئے وہیل چیئر کا سودا کرنا پڑتا ہے اس میں کوئی سٹینڈرد نہیں جیسا حلق یا قصر کے لئے ہے مانگنے والوں کا قصّہ پرانا ہے صرف اپاہج لوگ ہی دیکھے اور وہ بچّے تھے مجھے بتایا گیا کہ وہ بچے کی ٹہنی ایسے طریقے سے دہری کرکے باندھتے ہیں جیسے کٹی ہوئی ہو۔ لیکن اب اتنے زیادہ نہیں جتنے پہلے ہوا کرتے تھے زمزم لیجانے کی اجازت ہے لیکن اپنے گھرون کو یا دوسرے ملک کو نہیں لیجانے دیتے گورنمنٹ نے بند کردیا ہے زمزم دکانوں پر بھی نہیں ہے اب یہ بھی دیکھا کہ جوتے رکھنے کے لئے پلاسٹک کی تھیلیاں ملتی ہیں اپنی تھلیاں بھی لوگ لاتے ہیں مگر وہ ہوائی  یا انگوٹھے والی چپلوں کا رواج پرانا ہی ہے میں اپنی ہوائی چپل لیکر تنعیم مسجد گیا دو نفل پڑھ کے احرام کی عمرے کی نیت کی اور باہر نکلا تو مجھے اپنی چپل نہ ملی ایک اور چپل پہن کر مسجد حرام لے آیا اور وہاں چھوڑ دی یعنی ڈونیٹ کردی
 اس بات کا افسوس ہوا کہ اس وقت صحن میں عورتوں کو نماز کے لئے جگہ نہیں دی جاتی طواف کے لئے وہاں جانے کی اجازت ہے نئی اور ماڈرن عمارات وغیرہ سب نے مل کے خوبصورت جگہ بنا دی ہے مگر کعبہ پر اس بڑے برج-ہلٹن ٹاورز-  کا زیادہ اثر ہے کعبہ چھوٹا لگنے لگا ہے سعی کے لئے چار منزلیں بن گئی ہیں مگر اب صفا پہ چڑھ کر کعبہ نظر نہیں آتا میلین اخضرین پر دوڑنے سے مجھے پھر امّاں جی یاد آئیں اور وہ احساس ہوا کہ اللہ تعالےا نے ایک ماں کی بچے کے لئے بیچینی اضطراب اور تڑپ کو کیوں  عمرہ یا حج کاایک رکن بنا دیا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Wednesday, February 29, 2012

انتیس فروری

 ایسی تاریخ چونکہ چار برس کے بعد آتی ہے اس لئے کچھ لکھنا چاہیئے وقت زیادہ نہیں مگر اتنا ہے کہ صبح سفر پہ نکلنے سے پہلے کچھ کہتا چلوں ابھی تو بچوں کے پاس جائیں گے لیکن ارادہ عمرہ پہ جانے کا ہے تو مارچ کے وسط مین واپسی ہوگی کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں ٹیکے لگوائو ویزا لگوائو اور پھر ہوٹلوں کا چکّر اتنے مہنگے ہو چکے ہیں کہ لگتا ہے سعودی گورنمنٹ غریب آدمیوں کو حج سے محروم کرنے کا پورا انتظام کر رہی ہے اللہ سے دعا کرنی ہے کہ مسلمانوں کو عقل دے اور اپنے خاندان اور دوستوں کے لئے تو کرنی ہی ہیں بہت سی دعائِن بس اپنے لئے تو یہی کافی ہو گا کہ اللہ تبارک و تعالےا ہماری عبادتیں اور عمرے قبول کر لے اور ہمارا خاتمہ صالحین کے ساتھ کرے آمین

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Friday, February 17, 2012

ستّرہ فروری

 نہ معلوم کیوں یہ تاریخ مجھے یاد آتی ہے۔ بھایجان معراج اور بھابی نسیم کی شادی آج کے روز سیالکوٹ میں ہوئ تھی ساٹھ سال پہلے- --یہ ایسا روز تھا جب مجھے زندگی میں پہلی بار اپنا سوٹ- یعنی کوٹ پتلون والا- ملا جو خاص اس روز کے لئے بنوایا گیا تھا ہماری زندگی میں مشرقی اطوار کم ہو رہے تھے اور مغربی طریقے آتے جا رہے تھے یعنی ہمارے گھرانے میں یہ تبدیلیاں آ رہی تھیں اسی وجہ سے جب بھایجان معراج نے نیا گھر سٹلائٹ ٹاون میں بنوایا اور جب اس میں صوفہ سیٹ رکھا گیا تو وہ بھی مجھے یاد ہے کیوںکہ یہ ہمارے گھرانے کا پہلا صوفہ تھا- اللہ سے دعا ہے کہ وہ بھایجان معراج اور بھابی نسیم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Tuesday, February 14, 2012

محمد رفی یا رفیع



 نہیں نہیں یہ میرےماسٹر نہیں اب میرے ٹیچروں ماسٹروں کا حال ختم ہو چکا یہ وہی مشہور گانے والے ہیں

 انگریزی کے بلاگ میں وھٹنی ہیوسٹن کی ناگہانی فوتگی پر کچھ لکھا ہے خصوصا' اس بات پر کہ بمشکل ۴۸ سال کی
تھی اور غالبا" اس کی موت شراب اور دیگر منشیات کی وجہ سے ہوئ یا ان کا خاصا دخل ہے اس پہ مجھے جناب رفی صاحب یاد آ گئے
میرے ایک دوست سن بہتّر میں حج کرتے ہوئے پاکستان سے امریکہ آئے تو انھوں نے بتایا کہ رفی صاحب ان کے ساتھ حج پہ تھے اور یہ کہ بلند آواز سے قران کی تلاوت کرتے تھے تو منےا میں انکے خیمہ کہ پاس لوگ کھڑے سنا کرتے ان کو کون ہندوستان پاکستان وغیرہ میں نہیں جانتا ان کی زندگی کا پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ نہ شراب پیتے تھے نہ زیادہ پارٹیوں میں جاتے اور سٹوڈیو سے گھر-گھر سے سٹو ڈیو والا ان کا معمول تھا اللہ انھیں جنّت میں جگہ عطافرمائے 
 مگر استاد نصرت فتح علی خاں کا معاملہ دوسرا ہے وہ ذیابیطس کے مریض ہونے کی وجہ سے پچاس برس کی چھوٹی عمر میں ہم سے جدا ہو گئے ہندوستانی گانے والوں میں کے ایل سہگل تھے جو شراب کی وجہ سے چھوٹی عمر میں چل بسے مگر اللہ نے انھیں کیا آواز عطا کی تھی اور کس عمدگی سے گایا کرتے تھے ہندوستان پاکستان میں بھی اب شراب اور منشیات کا اثر بڑے ایکٹروں اور گویوں میں ہے لیکن شائد اتنا زیدہ نہیں جتنا ہم مغربی ملکوں میں دیکھتے ہیں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Wednesday, February 8, 2012

ماسٹر لطیف صاحب

 یہ سب سے آخری ماسٹر ہیں جن کے متعلق لکھ رہا ہوں پاکستان بننے والا تھا ہمارا سکولسن چھیالیس میں ہائ ہو گیا تو نویں کلاس  میں بھرتی ہوگیا لیکن ابھی بہت ساے ماسٹر وغیرہ آنے تھے اور ماسٹر لطیف سب سے بعد میں آئے سن سینتالیس شروع ہر رہا تھا اور پاکستان ہندوستان والا بٹوارہ ہونے والا تھا۔ ہم نے سائنس پڑھنی تھی اس لئے بڑی مشکل تھی ۶ ماہ بعد ماسٹر صاحب آئے ابھی انگریزی میں کتاب پڑھنی تھی جس میں بنیادی فزکس اور کیمسٹری تھی میں پہلی دفعہ سائنس شروع کر رہا تھا ماسٹر لطیف ایک اچھے ماسٹر تھے اور تمام مجبوریوں کے باوجود ینھوں نے بڑے دھیان سے ہمیں سائنس پڑھائ وہ اکثر دیوار کے بورڈ پر لکھتے اور پھر اسی دیوار پہ اپنا ایک پائوں لگا کے کھڑے رہتے یعنی گھٹنے کو سامنے رکھتے یہی عادت تھی ان کی رہی ہے ان کی مشکلات کا مختصر یوں لکھوں کہ انھیں ڈیڑھ سال میں دو سال کا کورس ختم کرنا تھا اور جب دسویں میں پہنچے تو پاکستان بنا اور کشمیر کا جھگڑا شروع ہو گیا دسمبر  اور جنوری یعنی ۴۷ اور ۴۸ کے دن ہمارے سکول پر مجاہدین کشمیر کا قبضہ رہا تو جب تک ہمارے میٹرک کے امتحان نزدیک آتے نہ ہمارے پاس کوئ کیمیکلز تھے جو ان مجاھدین نے پھینک دئے اور فلاسک ٹیسٹ ٹیوبیں وغیرہ توڑ پھوڑ کے حقّے بنا لیئے تو ماسٹر لطیف نے امتحان سے پہلے ایک ویک ایند  سوموار ملا کر تین دنوں میں سارے کیمسٹری اور فزکس کے اکسپیریمنٹ کرا دئے جس کے لئے ہمیں گجرات ایک سکول میں جانا پڑا تھا ان کی لیب ادھار لے لی تھی الل ماسٹر لطیف کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے جنھوں نے مجھے سائنس سے انٹرو ڈیوس کرایا


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Tuesday, February 7, 2012

ماسٹر عبد العزیز صاحب

ماسٹر ْریشی کے جانے کے بعد اور سکول کے ہائ ہو جانے کے بعد ہمارے جو پہلے ہیڈ ماسٹر آئے وہ گجرات شہر کے رہنے والے ایک کشمیری بی اے بی ٹی تھے اور نہائت رحمدل میٹھی عادتوں کے مالک تھے باوجود اس کے کہ ان کا بھاری اور بڑا جسم اور اچھی پوشاک دیکھ کے بڑا رعب پڑتا تھا شلوار قمیص کوٹ اور کلّھے والی پگڑی پہنتے تھے انگریزی لکھنے  اور پڑھنے کا ذوق مجھے ان کی کلاسوں سے ہی ملا ان کی پڑھائ ہوئ انگریزی نظموں میں سے ایک تو وہ یاد آتی ہے
"Into the valley of Death, rode the six hundred" 
 اور ایک یاد پڑتی ہے جس میں فوج کے تین جوان پل کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں دشمن کی فوج سامنے پل پار کرنے آرہی ہے اور وہ اپنی فوج کو وقت کا وقفہ دینے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ ایسے پیش کرتے ہیں کہ ساری فوج کو روکنے کے لئے اپنے ہتھیار لیکر پل پر ڈٹ جاتے ہیں اور دشمن کے فوجیوں کو مارتے رہتے ہیں حتےا کہ خود وہیں شہید ہو جاتے ہیں اس طرح اپنی فوج کی خدمت سر انجام دیتے ہیں
 ایک بار ماسٹر عزیز کا ایک بیٹا آیا جس نے اپنے گلے میں ایک سانپ لٹکایا ہوا تھا- جی ہاں زندہ۔ اسے ساںپ پالنے کا شوق تھا جو مجھے بڑا عجیب لگا تھا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

ماسٹر بشیر احمد

  ہم لوگ نانویں جماعت کے چھ سات ماہ گزار چکے تھےجب ہمارے ماسٹر صاحب تشریف لائے بہت کچھ کہانیاں سنی تھین ماسٹر بشیر کے متعلق جو سب کی سب درست نکلیں آپ سن ۳۳ کے زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور سے میتھمیٹکس میں ماسٹرز پاس کر چکے تھے اور ہمارے سکول کے 'سیکنڈ ماسٹر' بن کر آرہے تھے بہت سادگی پسند تھے جسم فربہی مائل تھا اور شلوار قمیص کے ساتھ کوٹ پہنتے تھے سر پہ ٹوپی تھی بات چیت میں فضول گوئ سے پرہیز کرتے مدھم آواز سے بولتے ڈاںٹنے میں الفظ بہت احتیاط سے استعمال کرتے زیدہ تر یہی کہتے
"اوئے کتّیا جیھیا "
  آپ نے ایک کتاب بھی لکھی تھِی جس میں انھوں نے اپنے  امام مہدی ہونے کا دعوہ کیا تھا اس سلسلے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں ڈیڑھ سال ہمارے ٹیچر رہے اور ہمیں میٹرک کی تیاری آپ نے ہی کرائ شرارتی کڑکے ان سے سوال کر بیٹھتے
"٘ماسٹر جی ہم نے سنا ہے امام مہدی کی رگوں میں خون نہیں دودھ دوڑتا ہے کیا ہم دیکھ سکتے ہیں" اور وہ جھڑک دیتے ان تمام باتوں کا پول بعد میں کھلا چند واقعات یر خبریں بتاتا ہوں پر آپ اندازہ لگا لیں ایک مرتبہ آدھی چھٹی کے بعد وہ کلاس میں نہ آئے تو معلوم ہوا گھر چلے گئے کیوں؟
پتہ چلا کہ   ان کی بات ہو رہی ہوگی امام مہدی ہونے کے ناطے وہ کتنے برس کی زندگی لے کے آئے ہیں تو انھوں نے پیشین گوئ بتائ اس پر کسی ماسٹر نے  کہا اگر آپ کو کوئ آج ہی راستے مین مار دے تو پھر؟ اس کا انھون نے یہ مطلب نکالا کہ سکول کے ماسٹروں میں کوئ سازش چل رہی ہے انھیں قتل کرنے کی اس لئے وہ گھر بھاگ گئے
 دوسرے روز بڑی مشکل سے انھیں سمجھا بجھا کر واپس لایا گیا ان باتوں سے آپ سمجھ ہی گئے ہوںگے کہ انھیں دماغی عارضہ تھا جسے شائزوفرانیا  یا امریکی زبان میں سکزوفرانیا کا نام دیا جاتا ہے اور پھر ہم نے ان کے متعلق بعد میں جو کچھ سنا وہ بھی اس کی تایئد کرتا ہے میں جب فورتھ ائر میڈیکل کالج میں تھا تو اخبار میں پڑھا کہ ایک سکول ماسٹر نے درخواست دی ہے اسے پاسپورٹ دیا جائے کہ اسے انگلاتان جا کر شہزادی مارگریٹ سے شادی کرنی ہے یہ نتیجہ اسنے نکالا کہ شہزادی شادی پہ راضی ہے کیوںکہ اس نے تین سو چالیس خط لکھے ہیں جس میں سے ایک کا جواب بھی نہیں دیا گیا چنانچہ بقول- الخاموشی نیم رضا- کے اس کے وہاں جانے کی دیر ہے اور وہ بلکل راضی ہو جائےگی
 پھر جب میں پشاور میں تھا تو وہاں کے مینٹل ہاسپٹال کے انچارج ڈاکٹر نے ایک ماسٹر صاحب کی اطلاع دی ان کے مریض تھے اور وہ حلیہ ہمارے ماسٹر صاحب کا ہی تھا اب تو فوت ہو چکے ہوں گے اللہ انھیں جنت میں جگہ عطافرمائے




Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Friday, January 27, 2012

ماسٹر محمد شفییع اور ان کے بڑے بھائ

 یہ ماسٹر ہماری کلاس کے ریگولر ماسٹرنہیں تھے اور ویسے ہی پاپولر تھے لنگڑا کے چلتے تھے مگر اس کی وجہ معلوم نہیں
 آپ ذہین آدمی تھے اور میرے ننھیال یعنی سدوال کلاں کے رہنے والے تھے جب تک ہمارے نانویں جماعت کے ریگولر ماسٹر نہیں آئے وہ ہمیں میتھ پڑھاتے رہے سکول کے بعد وہ عام طور پر لڑکوں کے جھرمٹ میں چلا کرتے انہیں گھر جانے کی کوئ جلدی نہیں ہوتی تھی میرے دوست بشیر کو چاہتے تھے اور اس طرح مجھ ہر بھی مہربان ہوے چونکہ بشیر اور میں صاف رنگ رکھتے تھے لوگ سمجھتے تھے ماسٹر جی حسین لڑکون کو چاہتے ہیں مگر نہ میں نے نہ بشیر نے کوئ ایسی حرکت دیکھی۔ بعد میں وہ باقاعدہ بی ٹی کا امتحان دیکے ہیڈ ماسٹر ہپو گئے- نہ معلوم کہاں۔ بی ٹی میں وہ اسی کلاس میں تھَ جس میں میرے بہنوئ اسحاق جلالپوری بھی تھے اور وہ بھی ان ماسٹر صاحب کی خوشخطی کی تعریف کرتے تھے
 ماٹر شفیع کے بڑے بھاء ہمارے او ٹی تھے اور بڑی قابلیت کے مالک تھے انہوں نے ہمیں اردو اور فاسی پڑھائ وہ عام طور پہ شیروانی پہنا کرتے تھے ماسٹر شفیع بھی ان کی بہت عزت کرتے تھے ان کی ایک وہ تقریر یاد ہے جس میں انہوں نے حضرت موسےا  اور حضرت خضر والا قصہ سنایا تھا ان کی پڑھائ میں قصے بہت تھے اور وہ بہت اچھی طرح معانی ہمیں ذہن نشین کراتے تھے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Thursday, January 26, 2012

ماسٹر قریشی

 یہ نئے ہیڈ ماسٹر آئے اور آتے ہی اس کوشش میں لگ گئے کہ ککرالی جو ڈسٹرکٹ بورڈ کے تحت تھا اب ہائ سکول ہو جانا چاہئے  ماسٹر یعنی مولوی احمد دین کا فلسفہ لکھ چکا ہوں لیکن ان کی اس بات کو واشگاف طور پر نہیں لکھا تھا کہ وہ سر پہ ٹوپی یا صافہ یا پگڑی پہننے کے حق میں تھے اور یہ ٹنڈ کرانے کے بعد حکم تھا اب ماسٹر قریشی کا سنئے یہ ماسٹر صاحب کوٹ پتلون بلکہ سوٹ پہنتے تھے بغیر ٹائ کے مگر پورےصاحب تھے اور سروں پہ صافہ پگڑی وغیرہ پہننے کے خلاف تھے--یہ کیا سٹیشنوں پہ قلیوں کی طرح صافے باندھے ہیں-- تو ہم لوگ سہونترہ سے سر ڈھاںپے چلتے اور ککرالی آکر اتار دیا کرتے تھے پھر انگریزی کلاسوں میں ننگے سر اور مولوی صاحب کی کلاسوں میں صافے پہن لیتے ماسٹر قریشی کیک پیسٹریوں کے بھی شوقین تھے گائوں کے لڑکے بھلا کیا جانیں یہ انگریزی مٹھایئاں مگر نام سن سن کر ذہن میں کچھ نقشہ بنا لیتے ہوںگے
اور یہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ ماسٹر قریشی کے گھر میں ہی میں نے سب سے پہلے فرینچ ٹوسٹ کھائے تھے ان کی بیگم بناتی تھین۔ ہوا یوں کہ ہوسٹل میں مجھے رہنے کی عادت نہیں تھی اور رات کی بچی دال اور ٹھنڈی روٹی جس سے سب لڑکے ہوسٹل کے ناشتہ کرتے مجھے بھی وہی کھانے کو ملا۔ اب گھر میں پراتھے اور چائے کا رواج تھا میری تو بڑی  سوکھی سی صورت نکل آئ تو گھر والوں نے ماسٹر صاحب کو پیغام بھیج دیا ہمارا لڑکا ہوسٹل نہیں رہے گا اور اسے زیدہ پڑھائ گھر میں ہی دےدی جائگی ماسٹر قریشی بات سمجھ گئے اور کہا کہ میں ان کے گھر میں سویاکروںگا اور ناشتہ وہیں کر لیا کروں۔ اس طرح مین اس گائوں میں فرینچ ٹوسٹ سے ناشتہ کرنے لگا
  ماسٹر قریشی پراپیگنڈا کرنے کہ ماہر تھے اور جلد ہی ایک ہزار روپے کی رقم تیار کرلی جو کہ شرط تھی ہائ سکول بنانے کے لئےچنانچہ جب تک ہم نے آٹھویں کا امتحان پاس کیا سکول ہائ ہوگیا ماسٹر قریشی کے اپنے تین لڑکے تھے ایک لڑکی بھی ان کے ہاں تھی مگر وہ انکے بڑے بھائ غضنفر علی قریشی کی تھی وہ تھانیدار ریٹائر ہوئے تھے اور کسی دوسری جگہ تھے ان کو پنجابی میں "بائو گپھا" کہا جاتا تھا ماسٹر قریشی بھی ان سے ڈرتے تھے ان سے بعد میں لاہور میں ملاقات رہی تھی اور جب تک میں میڈیکل کے چوتھے سال میں ہوا اس وقت پتہ چلا کہ وہ تھانیدار صاحب اپنی تھانیداری کے زمانے میں عیش کر چکے تھے اور ان کی بیماری کا اثر تھا جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھے اور کمپلیٹ ہارٹ بلاک بھی تھا جس سے ان کی  نبض کی رفتار ۳۰ کے قریب تھی جب سکول ہائ ہوگیا تو ماسٹر قریشی کا تبادلہ ہوگیا مگر جانے سے پہلے انھوں نے مجھے سکول لیونگ سرٹیفکیٹ دینے سے صاف انکار کر دیا اور اس طرح میں اس سکول سے گرجوایٹ کر چکنے کے بعد پھر سے وہیں داخل ہوگیا ناںویں کلاس میں ان کا خیال تھا ذہین لڑکے ایسے آسانی سے نہیں ملتے خصوصا' دیہی آبادی میں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Wednesday, January 25, 2012

مولوی احمد دین

 ماسٹر احمد دین خاص مولوی نہیں تھے مگر داڑھی کی وجہ سے مولوی کہلاتے تھے اور ککرالی مڈل سکول کی آٹھویں جماعت جو کہ آخری اور بہت اہم ہوتی ہے کے ماسٹر تھے
آپ سہونترہ کے رہنے والے تھے اور اس گائوں میں ہمارے جدّی گھر کے نزدیک ان کا گھر تھا آبادی کے ساتھ ہی ایک باغ کے مالک تھے  اور اس میں ایک کنواں ایک کھلا چبوترہ مسجد کا تھا اور ملحق زمین میں کچھ سبزیاں وغیرہ ہوتی تھیں مسجد والے چبوترے کے سامنے دو تین کمرے کھڑے تھے۔ ککرالی وہاں سے کوئ نصف میل دور تھا  اس وقت ابھی دوسری جنگ عظیم ختم ہوئ تھی پنجاب کی اپنی فضا سیاسی سرگرمیوں سے بھرتی جا رہی تھی ادھر ماسٹر نذیر آحمد کا تبادلہ ہوا اور نئے ھیڈ ماسٹر آ گئے- ماسٹر قریشی -اور ان کا پورا نام یاد نہیں ان کا بعد میں لکھوں گا ہماری کلاس میں زیدہ تر مسلمان بچے ہی تھے دو تین سکھ اور چار پانچ ہندو ہوں گے مولوی صاحب دبدبہ کے مالک تھے اور بہت محنت سے پڑھاتے تھے ایک چیز جو مسلمان بچوں کی انھیں پسند نہیں تھی وہ تھی حجامت۔ جس کو ان کی زبان میں "بودے- کا نام دیا گیا تھا ان کا فلسفہ یہ تھا کہ مسلمان بچوں کو -انگریزی قسم کے خط- نہین بنوانے چاہئے بلکہ یا بلکل صاف چندیا ہو-جسے پنجابی میں ٹنڈ کہتے ہیں یا پھر چھتّے بال ہوں یعنی گردن تک لمبے ہوں۔ چنانچہ سب مسلمان بچوں کی ٹنڈ بن گئ سوائے میرے۔ اب یوں تھا کہ میری اماں جان اور بہنیں ٹنڈ کے سخت خلاف تھین کہ بہت بری لگے گی اور سکول میں روز مولوی صاحب میرا رکارڈ لگاتے کہ ایسے -مولوی گھرانے کے فرزند اور ٹنڈ نہیں کرائ انگریزی بودے رکھے ہیں کلاس میں مجھے کھڑا کر کے  شرندگی دلاتے کہ
                چو کفر از کعبہ برخیزد - کجا ماند مسلمانی
    روز روز کی سنتے ہوئے میں نے ایک روز اپنے نائ کو چیلنج کر دیا کہ تم نے ٹنڈ نہ کی تو میں خود بال کاٹ لوں گا وہ میرے گھر والوں سے گھبراتا تھا اس لئے ٹنڈ نہیں کرتا تھا--یہ بتا دوں کہ ابھی وہاں وہ زمانہ تھا جب "سیپی نائ" ہوا کرتے تھے یعنی ان کو سال کے خاص موقعوں پر اجرت اور کپڑے یا غلّہ وغیرہ دیا جاتا تھا
 تو خیر اس طرح میری بھی ٹنڈ ہو گئ باوجود اس کے کہ گھر میں میری بہنیں مذاق اڑاتی تھیں مگر کلاس میں ٹھاٹھ سے اپنا سر ننگا کر کے بیٹھنے لگا سردیان آیئن تو پڑھائ زوروں پر شروع ہو گئ کہ سکول کا نتیجہ اچھا نکلے آٹھویں جماعت کے لڑکوں کی لئے سکول کے بعد کلاسیں لگنے لگیں اس کا کوئ الگ معاوضہ نہیں ہوتا تھا فروری ۱۹۴۶ میں امتحان تھا اور دسمبر۴۵ میں ہمارا یہ روٹین بنایا گیا- صبح نو بجے  سے شام کے چار بجے تک سکول کی کلاسیں اور چھٹی کے بعد آٹھوین کے لڑکے وہیں الگ انگریزی کی کلاس دہراتے اس کے بعد کھانا وغیرہ کھا کر  بورڈنگ ہائوس میں سوتے۔ سونے سے پہلے ایک گھر میں پھر انگریزی کے سبق دہرائے جاتے پھر یا سوتے یا اپنے بستے اٹھ کر سہونترہ جاتے وہاں عشا کی نماز پڑھانے کو مولوی صاحب تیار ہوتے اور اس کے بعد حساب الجبرا وغیرہ کے سبق ہوتے۔  وہ بڑے کمرے جن کا اوپر ذکر کیا ہے وہاں سب بچے سوتے اپنی اپنی رضایئوں میں -سحر کے وقت آٹھایا جاتا ہندو اور سکھ بچے کوئیں کا پانی نکالتے مسلمان بچے وضو کرتے  اور فجر مولوی صاحب کے پیچھے پڑھتے انھوں نے ہمیں ذکر اور وظیفہ وغیرہ یاد کرایا یعنی نماز کے علاوہ اور سیدھے واپس ککرالی جاکر ناشتہ کرتے سکول جانے کی تیاری کرتے
  کچھ اس قسم کا روٹین چلتا رہا اور امتحان سر پہ آ گیا۔ امتحان جسے ورنیکلر فائنل کہا جاتا تھا  دوسرے شہر -لالہ موسےا- میں تھا ہمارے ساتھ ایک اور ماسٹر گئے تھے امتحان کے لئے-- اس وقت تک پاکستان کی بات چل نکلی تھی اور ادھر ماسٹر قریشی صاحب ہمارے سکول کو ہائ کرانے کے پراپیگنڈے میں لگ گئے ہم ماسٹر احمد دین سے ہی دینی باتیں سیکھے اور انھیں نے ہمیں دعائیں وغیرہ یاد کرائیں مولوی صاحب ایک سوٹی بھی رکھتے تھے جس کا صحیح استعمال  انھین آتا تھا اور میں ان کے متعلق لکھ چکا ہوں کہ وہ کیسے بشمبر داس-میرے ہمجماعت- کو ڈانٹا کرتے تھے اور بھی ان کے مقولے ہوں مگر یہی یاد رہ گیا
    اوئے بشمبر داس تیرا ستّیا ناس
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Saturday, January 21, 2012

ماسٹر نذیر احمد

 میں ساتویں جماعت میں پنجاب آیا تو ایک مڈل سکول میں داخل ہوا ڈی بی مڈل سکول ککرالی
ھیڈ ماسٹر اس وقت ماسٹر نذیر احمد تھے وہ انگریزی پڑھاتے تھے گائوں کے پنجابی لڑکوں کو انگریزی کی گریمر سمجھانی جوئے شیر لانے کے برابر ہے انھوں نے ایک ایسی گردان بنائ تھی جس سے انگریزی کے فعل اور اس کے صحیح استعمال کو سیکھا جا سکے لفظ  'گو' لیا گیا تھا بمعنی جانا
 اب سنئے--گردان آئ گو- آی ڈو ناٹ گو- ڈو آئ گو- وھائ ڈو آئ گو
 اس سے ان بچوں کو ورب بنانے میں آسانی ھو جاتی ہے ورنہ وہ بھلا کیسے بول پاتے یا سمجھ پاتے کہ "ڈو" کیس لئے لگانا پڑتا ہے بہر کیف مجھے آسانی تھی کیوںکہ جسقدر محنت سے ان کو انگریزی سکھائ جاتی تھی مجھے کلاس کے علاوہ کچھ اور نہیں کرنا پڑتا تھا اور میری انگریزی ان سب بچوں سے اچھی تھی ماسٹر نذیر نے مجھے ایک روز اپنے دفتر میں بلایا اور پوچھا
"نماز آتی ہے؟
  جواب دیا- جی ہاں-تو اس پر ماسٹر صاحب نے کہا' بھول جائو' اب میں پریشان ہو کر ان کا مونھ دیکھنے لگا مجھے مذبذب پایا تو فرمانے لگے
"اگر نہیں بھولنا چاہتے تو پڑھا کرو
  اور مجھ پر جیسے گھڑوں پانی پڑگیا ایک اور بات سناتا چلوں جو پنجاب کے گائوں کی خاص تہذیب سے تعلق رکھتی ہے اس روز کچھ ٹھنڈا موسم تھا ماسٹر نذیر کو مولیاں کھانے کا شوق تھا تو ایک لڑکے سے کہا
"اوئے فلانے- یہ لے دو پیسے اور میرے لئے مولی لا
ابھی وہ لڑکا اپنا بستہ باندھ رہا تھا کہ کتابیں ٹھیک سے رکھ کر جائے تو ماسٹر جی نے ذرا تیز آواز میں کہا- خالص پنجابی
اوئے آگیا ایں؟
میں یہ سن کر بہت پریشان ہوا بھلا یہ کیا بات ہوئ ابھی وہ جانے کی تیاری کررہا ہے اور اسے کہا جا رہا ہے 'کیاتم واپس آگئے؟
/ پھر مجھے سمجھ آیا کہ یہ طریقہ ہے اس بات کو کہنے کا کہ جلد جا ابھی تک یہ کیا کر راہا ہے

Friday, January 20, 2012

پنجاب میں ملک صاحب اور ملک احمد خاں

  ساتویں جماعت ککرالی اسکول میں داخل ہوا سارا خاندان پنجاب منتقل ہو گیا ساتویں کے ماسٹر صاحب "ملک جی " کہلاتے تھے
ان کا نام تو یاد نہیں مگر   ملک ہوریں' خالص پنجابی میں کہا جاتا تھا چنانچہ یہ لفظ میرے لئے ایک خاص دبدبہ کا ہم معنی ہو گیا میں ان کی  وہ خاص  سزا کے متعلق لکھ چکا ہوں جسے پنجابی میں
 کنّ پھڑ لوء -- کہتے ہیں ان کی جب تبدیلی ہوئ تو ان کی جگہ جو ماسٹر صاحب آئے ان کا نام بھی ملک تھا مگر پورا بولتے تھے اس لئے ان کا نام یاد رہ گیا ہے ملک احمد خاں وہ ہمارے گائوں سے تین میل دور  "صبور" کے رہنے والے تھے اور سائِکل پہ آیا کرتے تھے وہ بھی رعب دبدبہ رکھتے تھے کڑی آواز کے مالک تھے  میری اردو کی قابلیت میرے لب و لہجہ کی وجہ سے اسکول میں مشہور ہو چکی تھی اور تمام استاد بھی اردو کے الفاظ کی ادائگی کے لئے مجھ سے ہی مشورہ کرتے تھے کلاس کے لڑکوں کو میں نے ہی بتایا کہ ہںسنا کی پہلی نون در اصل غنّہ ہوتی ہے
 سکول کی انسپیکشن ہونا تھی تو اس کے لئے انسپیکٹر صاحب کے سمنے مجھے تیار کیا گیا ایک نظم پڑھنے کو۔
کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا--مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
میرے لئے کوئ مشکل نہ تھی سکول کا رعب میرے اردو کے لہجے سے بن گیا میرے سکول ختم کر چکنے کے بعد ایک بار ملک احمد خان سے ملاقات ہوئ وہ اس وقت ہمارے گائوں میں ھیڈ ماسٹر تھے بتا رہے تھے کہ جسمانی سزائوں کے دن اب نہں رہے اور بچوں کو  تربیت دینا مشکل ہو گیا ہے ایک اور ان کی بات یاد پڑتی ہے ہمارے گائوں میں جلسہ ہو رہا تھا اور پنجاب کے وزیر اعلےا جناب ممتاز محمد خاں دولتانہ مدعو تھے وہ کرسی صدارت پہ تھے اور ملک صاحب نے اقبال کی وہ نظم بڑے ٹھاٹھ سے پڑھی  اس کا ایک شعر تحریر کر رہا ہوں کہ وہ بہت پرمعنی تھا اور ملک صاحب نے باقاعدہ اشارہ کے ساتھ ادا کیا
      نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ          کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/