Wednesday, December 31, 2014

نیا سال مباراک

 تمام قارئین کرام کی خدمت میں میری طرف سے سب کو نیا سال مبارک ہو
 اللہ کرے نئے سال میں آپ کی تمام خواہشات پوری ہوں تمام دکھ ختم ہوں اپنی جاب میں ترقّی ملے گھر والے سب خوش رہیں تمام بیماریاں ختم  ہوں
اس موقعہ پر فیض مرحوم کی ایک نظم جو بعد مں موصول ہوئ نقل کر رہا ہوں جناب اروق سلود سے شکریہ کے ساتھ
اے نئے سال بتا تجھ میں نیاپن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے رہ اک بات وہی

آسماں بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمیں 
ایک ہندسے کا بدلنا کوئجدّت تو نہیں

اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسکو معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے

جنوری فروری اور مارچ میں ہوگی سردی
ور اپریل مئ جون میں ہوگی گرمی

تو نیا ہے تو دکھا صبح نئ شام نئ
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئ

بےسبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارکبادیں
کیا سبھی بھول گئےوقت کی کڑوی یادیں

تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی

Please visit my English blog at Saugoree

Tuesday, December 23, 2014

محبّت اور مذھب کا اختلاف

Please visit my English blog at Saugoree

میرے ایک عزیز دوست جگ بیتی او آپ بیتی  'کہانیاں' لکھتے ہیں   میں اکثر ان سے متاثّر ہوتا ہوں کبھی کبھی مجھے بھی ایسا لکھنے کا خیال آتا ہے
   عرصہ ہوا میں اس وقت انگلستان میں کام کر رہا تھا اس وقت وہاں ہسپتالوں کی گروپینگ اور قسم کی تھی خیر ہمارے گرپ کے تمام ہندوستانی اور پاکستانی کسی اتوار کو اکٹّے ہو جاتے اور خوب محفل جمتی چنانچہ اس طرح ہم سب ایک دوسرے سے واقف ہوجاتے تھے اسی زمانے کا ذکر ہے ہمارے گروپ میں ایک نئ ہندوساتی ہائوس فزیشن آئ بڑی سیدھی سادی لڑکی تھی ہمارے سینئر لڑکوں میں ایک صاحب جو مسلمان تھے انھیں وہ لڑکی پسند آئ۔ وہ بھی سیدھے سادھے مسلمان پاکستانی تھے لڑکی کی ایک بات یاد ہے کہ اس کے وارڈ میں ایک سٹروک کا مریض داخل ہوا بچاری پریشان تھی کیا کرے کس طرح اس کی مدد کرے ساری رات اس کے سرہانے بیٹھی سوچتی رہی اور جو اس کی ضروریات تھی نرس کی طرح کرتی رہی  - اب ممکن ہے اس میں کچھ  'ذیب داستاں کے لئے کچھ بڑھا' بھی دیا گیا ہو مگر قارئین کو اس کی سادگی سمجھ آگئ ہو گی  ہوتے ہوتے ان دونوں میں - یعنی جن پاکستانی صاحب کا ذکر کیا ہے ان میں باقاعدہ محبت ہوگئ شادی کی بات چلی  دہلی میں اس کے گھر والے نہ مانے اور پاکستان میں ان کے گھر والے تیار نہ ہوئے اب یہ مجھے یاد نہیں کہ لڑکی نے ہندو سے مسلمان ہونے کا ذکر کیا تھا یا نہیں
 ممکن ہے اور بھی ایسے وقعات ہوتے رہتے ہیں ان میں کچھ اور اسباب ہوتے ہوں لیکن اکثر ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ محبت کو قربان کر دیا جاتا ہے میں یہ ان مغربی ممالک کی بات کر رہا ہوں اور پڑھے لکھے ہوشمند انسانوں کا لکھ رہا ہوں پاکستان میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا ذکر نہیں کر رہا ہوں

Saturday, December 6, 2014

داڑھی کا فیشن یا رواج

جب ہم کالج میں تھے تو کلین شیو کا رواج تھا
لڑکے شیو 'چھوڑ' دیتے جب امتحان سر پہ آتا یا جب ظاہر کرنا ہو کہ  'ڈیپریشن' ہے یا محبت ہو گئ ہے اور یہ فلموں سے ہماری تہژیب  میں داخل ہوتی ہے چنانچہ ہماری جوانی کے زمانے ہیرو کلین شیو ہوتا تھا اور داڑھی تب بڑھاتا تھا جب ہیروئن سے ناراضگی ہو یا کوئ اور مشکل آ پڑی ہو جب 'فراق' کے گانے کا موقعہ ہو وغیرہ وغیرہ اب آجکل یہ زمانہ آیا ہے کہ ہیرو کی شیو نہیں کی ہوتی اور جب 'مشکل' آئ ہو تو تھوڑا سا مزید داڑھی کو بڑھا دیا جاتا ہے یعنی اب ہیروئن جب کیس کرتی ہے تو ہیرو کی شیو نہیں ہوئ ہوتی یہ رواج اب ایسا ہو گیا ہے کہ جوان لوگ باقاعدہ دارھی ایسی بناتے ہیں جیسے شیو نہیں کی ہوئ
وقت وقت کی بات ہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Tuesday, November 25, 2014

مشہور گانے اور راگ درباری

میرے بہت سے دلپسند گانوں کی دھنیں راگ درباری سے نکالی ہوئ ہیں
 سب سے زیادہ مشہور وہ بھجن ہے جس کو فلم بیجو باورا میں رفی مرحوم نے گایا اور اسے ترتیب دینے والے نوشاد مرحوم ہیں نوشاد صاحب نے فلمی دنیا میں پکّے اور سیمی کلاسیکل گانوں کو جو رواج دیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے اگرچہ اوردوسرے ڈائریکٹر بھی اس کام میں شامل ہیں جیسے کھیم چند پرکاش یا سی رامچندر انل بسواس وغیرہ
 رفی صاحب کی ادائگی اس میں چار چاند لگا دیتی ہے
 جی مین  "او دنیا کے رکھوالے"  کی بات ہی کر رہا ہوں
 دوسرے گانوں کا لکھنے سے پہلے میں ایک اور بھجن اور ایک غزل کے متعلق کچھ لکھوںگا
 یہ بھجن ساحر لدھیانوی  -مسلمان-- کا لکھا ہوا ہے آشا بھونسلے نے کمال خوبی اور لگن سے پیش کیا ہے اور ساتھ موسیقی میں زیادہ اس کے ردھم پر زور دیا گیا ہے جو کہ عام بھجنوں کی ایک خاص خوبی ہے موسیقی روی صاحب کی ہے ساحر صاحب کے الفاظ نہایت رسیلے اور خود اپنا ردھم رکھتے ہیں اور نہایت پر معنی ہیں میں نے مسلمان اسلئے لکھا ہے کیوںکہ ایک حدیث شریف کا مطلب بھی یہی ہے
پہلے اس بھجن کے بول سنئے= "تورا من درپن کہلائے بھلے برے سارے کرموں کو دیکھے اور دکھائے تورا من درپن کہلائے
 وابسا بن معبد رضی اللہ عنہ نے آپ صل اللہ علیہ وسلم سے  نیکی کے متعلق پوچھا تو فرمایا
"اپنے دل سے پوچھو نیکی وہ ہے جس سے دل کو سکوں ائے اور بدی وہ ہے جو نفس کو جھنجھوڑے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
 میں پوری حدیث نہیں لکھ رہا صرف اتنا درج کیا ہے جو موضوع کے متعلق ہے  اب اس سے آپ اندازہ لگا لیں ممکن ہے ساحر صاحب حادیث سے واقف نہ ہوں مگر یہ ایک عام سچائ بھی تو ہے اور آپ سارے بھجن کو غور سے سنیں تو سر دھنتے رہیں گے یہ درباری کا ہلکا پھلکا انداز بھی ہے
 تیسرا  گانا ایک عمدہ غزل ہے جو نور جہاں نے اپنی خاص آواز اور انداز میں ادا کی ہے
 اور اس راگ کی دھن کو مزید اجاگر کرتی ہے اور یہ  سن ۴۵ کی نور جہاں ہیں حفیظ صاحب ایسے مشہور موسیقار تو نہیں ہیں مگر اس راگ کی دھن کی ادائیگی کے لئے انھوں نے اس وقت کی بہتریں کلاکار اور مسحور کن آواز کی مالک کا سہارا لیا ہے اور باقی بیک گرائونڈ موسیقی کو مدھم کر دیا اور طبلے/دھولکی کو چھوڑ ہی دیا ہے
 "بلبلو مت رو یہاں آںسو بہانا ہے منع ان قفس کے قیدیوں کو غل مچانا ہے منع
 پوری غزل کے الفاظ بھی اسی طرح دل کو پکڑتے ہیں
 دوسرے اور بھی بہت سے گیت اس راگ سے اپنی دھن لیتے ہیں  مثال کے طور پر
 دل جلتا ہے تو جلنے دے
  تو پیار کا ساگر ہے
 تیری دنیا میں دل لگتا نہیں
 مجھے تم سے کچھ بھی نہ چاہئے

وغیرہ سارے میری پسند کے گیت ہیں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Thursday, October 9, 2014

خوشتر آں باشد کہ - - - - -

       خوشتر آں باشد کہ سرِّ دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں

  " بہتر یہ ہے کہ دلپسند لوگوں کے راز کو کسی دوسرے کی تمثیل میں کہا جائے
مختصرا" یہی مطلب بیان کر سکتا ہوں مقصد اس شعر کا یہ ہے کہ جن لوگوں کو آپ پسند کرتے ہوں جن کی آپ بہت عزّت کرتے ہوں اگر ان کی کوئ بات  جو مونھ پر کہتے ہوئے اچھی نہ لگتی ہو اس کے بیان کے لئے کوئ ایسا بیان ہو جس سے بات سمجھائ بھی جائے اور کسی تیسرے شخص کے نام پر بیان کی جائے
اس کی ایک مثال پرانے زمانے کی یوں دی گئ ہے
          ایک بار کہیں وضو کرتے ہوئے حسن اور حسین رضی اللہ عنہ جب وہ چھوٹے تھے کسی بڑے آدمی کو دیکھا جو کچھ غلطی کر رہا تھا تو ان دونوں نے اسے صحیح طریقہ بتانے کے لئے یوں کیا کہ اس کے پاس جاکر کہا ہم دونوں وضو کے صحیح طریقے پہ جھگڑ رہے ہیں آپ فیصلہ کریں میں اس طریقہ سے کرتا ہوں اور میرا یہ بھائ اس غلط طریقے سے کر رہا ہے اور ایک نے اس آدمی والا غلط طریقہ کیا اور دوسرے نے صحیح طریقہ کیا وہ آدمی سمجھ گیا اور صحیح طریقہ بتایا اس طرح اس کو خود بھی معلوم ہو گیا صحیح طریقہ کیا ہے
 اس مثال سے بات آپ کی سمجھ میں آگئ ہوگی ایک اور  مثال ہی سمجھ لیں مگر یہ بات  الگ ہے اردو زبان اور اس کی تہذیب میں کچھ فقرے یا الفاظ یا کلمات تہذیب کو زیادہ ظاہر کرتے ہیں جیسے اردو زبان میں تو یا تم یا آپ تین مختلف الفاظ ہیں یا کہا جاتا ہے 'آپ کے دشمنوں کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟' پوچھنے والا مخاطب کی عزت اور حیثیت دیکھ کر خراب طبیعت کو مخاطب کے بجائے اس کے'دشمن' کا نام لے رہا ہے یہ بات ہمارے امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے اور ابھی حال میں ہی مجھے اس کا سامنا کرنا پڑا تھا اس بچے کو دشمن کا ریفرینس بلکل سمجھ نہیں آیا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Friday, September 26, 2014

راگ بھیروی یا بھیرویں

سب سے زیادہ مقبول عام راگ جس سے کئ دھنیں فلمی گانوں کی نکالی گئ ہیں وہ راگ بھیروی ہے اس کے ساتھ راگ بھیرو بھی بولا گیا ہے میں ان کے تفاوت کو اچھی طرح نہیں سمجھتا اس لئے اس سلسلے مین کچھ نہیں لکھوںگا
 بچپن میں سہگل کا ایک گانا سنا ہوا تھا جہ اس سال رکارڈ ہوا جس سال میں پیدا ہوا تھا اور یہ اب بھی کلاسیکل ہے صرف ہامونیم اور طبلے کا ساتھ راگ بھیروی کی یہ دھن اس کی بہترین مثال سمجھی جا سکتی ہے
بابل مورا نئہر چھوٹو جائے
 اس میں سہگل کا اپنا آرٹ بھی شامل ہے جس طریقے سے اس نے اسے گایا ہے پھر اس کے بعد دو اور سہگل کے ہی مشہور گیت ہیں اور میری پسند کے بھی جو اسی راگ سے نکلی ہوئ دھن میں گائے گئے ہیں
 اے کاتب تقدیر مجھے اتنا بتا دے
  اور کیا ہی خوب گایا ہے  اس کے بعد
 جب دل ہی نٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے
 یہ گانا مجھے اپنے گائوں کی یاد دلاتا ہے کہ ان دنوں میں خود گنگنایا کرتا تھا  میری پسند کے گانوں میں بھیرویں والے گانے یہ ہیں
 انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے

دو ہنسوں کا جوڑا بچھڑ گءیو رے

لاگا چنری میں داگ چھپائوں کیسے

دعا کر غم دل خدا سے دعا کر

 ایک بھجن ہے ----مدھوکر شام ہمارے چور


پوچھو نہ کیسے میں نے رین بتائ

 اور کچھ پلکے پھلکے گیت ہیں جیسے---میرا جوتا ہے جاپانی

یا--- بول رادھا بول سنگھم ہوگا کہ نہیں

ایک اور گانا ہے---دوست دوست نہ رہا
 اس گانے کا انٹرول مئیوزک مغربی طرز کا ہے وہ جو 'انسپکٹر مےگرے' والی فلم میں ہے

آوارہ ہوں

تو گنگا کی موج --- یا--- برسات میں ہم سے ملے تم سجن
یہ چند گانے یاد آئے تو لکھ دئے ہیں
ہاں یاد آیا کی 'بھیروں' راگ میں گانا میری پسند کا یوں ہے

موہے بھول گئے ساںوریا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Tuesday, September 23, 2014

پرچم

پاکستنی بھائیوں کو
پرچم ستارہ و ہلال تو یاد ہے--- میں ایک اور پرچم کی بات کرنے جا رہا ہوں
جب سے تشدّد پسند لوگوں نے اسلام کے نام پر اپنی من مانی شروع کر دی ہے میں اکثر کالا جھنڈا دیکھتا ہوں جو مسلما نوں میں مشہور ہے کہ نبی صلّ اللہ علیہ وسلم نے اس رنگ کا پرچم استعمال کیا تھا ہر ملک کے اپنے سائن ہوتے ہیں پہلے کالے پرچم کو القائدہ وغیرہ کے ساتھ دیکھا تھا اب آجکل آئ ایس آئ ایس والے 'خلیفہ صاحب کا دیکھ رہا ہوں اس میں وہ بھی سعودیوں کی طرح کلمہ طیبہ استعمال کر رہے ہیں مگر اس میں  "لا الہ الا اللہ تو اوپر لکھا ہوتا ہے اور اس کے نیچے  محمد رسول اللہ   لکھنے کے لئے وہ اس مبارک مہر کو استعمال کرتے ہیں جو ہمارے نبی نے ختیار کی تھی
 تو بھلا اس میں کیا خرابی ہے؟
 مجھے اس لئے پسند نہیں کہ کام تو یہ لوگ غیر اسلامی کر رہے ہیں اور اس کے لئے بے دھڑک ہو کر ایسی مبارک نشانی کو لا رہے ہیں جو ہمارے لئے بہت عزت  والا اور  -سیکرڈ- قسم کا درجہ رکھتی ہے اور مجھے اس پر اس وجہ سےاعتراض ہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Tuesday, August 12, 2014

راگ پہاڑی اور مشہور گیت

پہلے کچھ اپنا موسیقی سے لگائو لکھ چکا ہوں اور یہ بھی کہ فلمی گانوں میں کچھ راگوں کے سروں سے نکالی ہوئ طرزیں بہت ہر دلعزیز ہیں
 آج راگ پہاڑی والے گیتوں کے متعلق لکھ رہا ہوں 
پاکستانی فلموں سے ایک مشہور گانا تھا جو مجھے اس راگ کے سر یاد کراتا ہے - آئے موسم رنگیلے سہانے - جیا نہیں مانے- تو چھٹی لےکے آجا بالما 
گانے والی ہیں زبیدہ خانم اور موسیقی راشید عطرے نے ترتیب دی ہے ہندوستانی فلموں میں بہت سے یاد پڑتے ہیں جیسے
سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا
 یا - جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑیگا
 یا- کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
 وغیرہ وغیرہ بہت خو۳بصورت گانے ہیں
 مگر دو گیت ایسے سدا بہار ہیں کلاسک قسم کے جن کو سنتے ہی دل کھل اٹھتا ہے ایک تو وہ جو نورجہاں نے گایا ہے

 آواز دے کہاں ہے
 دنیا میری جواں ہے 

 میرے خیال میں نورجہاں کے بہتریں گانوں میں سے ہے اس کی موسیقی نوشادکی ہے فلم انمول گھڑی میں ڈوءٹ ہے یعنی نورجہاں اور سریندر گاتے ہیں مگر سریندر نورجہاں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں حالانکہ بہت اچھے گانے والوں میں ہیں نورجہاں کے لئے تو تقریبا" ٹائٹل سانگ  یعنی اگر نورجہاں نے ڈورس ڈے کی طرح خود کوئ اپنا ٹی وی پروگرام چلایا ہوتا تو جیسے ڈورس نے ' کے سرا سرا' چلایا تھا- نور جہاں اپنے پروگرام کا ٹائٹل سانگ یہی رکھتیں

 دوسرا گانا جو اس راگ سے نکلا ہے وہ محمد رفی کا گایا ہوا ہے

 سہانی رات ڈھل چکی-نا جانے تم کب آئو گے

 اور پھر اس کی موسیقی جو نوشاد صاحب نے دی ہے اس کا جواب نہیں فلم دلاری مین رفی نے اس قدر پیار سے گایا ہے کہ اور کوئ دوسرا ایسےنہیں گا سکا
لطف یہ ہے کہ دونوں گانوں کے سر اسی راگ سے نکالے گئے ہیں


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Monday, August 11, 2014

عجب خان اور چپّلی کباب

پشاور کی باتین نامکمل رہیں گی اگر چپلی کبابوں کا ذکر نہ کیا
 ہم جس زمانے میں پشاور پہنچے ورسک ڈیم بن رہا تھا اور پشاور صدر سے پشاور یونیورٹی تک کا راستہ اتنا خطرناک نہیں رہا تھا جیسا پہلے تھا بسیں چلتی تھیں ٹانگے اور سائکلوں پر آیاجایا کرتے تھے  سیخ کباب، تکّے وغیرہ پشاور کے مشہور تھے اور ہم شہر جاکر کھایا بھی کرتے تھے یونیورسٹی کے علاقے میں عجب خان کے کباب مشہور تھے کہ جس نے عجب خان کے چپلی کباب نہیں کھائے اس نے ابھی پشاور یونیورسٹی نہیں دیکھی اور تمام اسلامیہ کالج کے لڑکے وہیں جاتے تھے
 میں نے یونیورٹی کے باہر ایک چھوٹی سی دکان کرائے پر لےلی اور کچھ دوائیاں رکھ کے کالج کے بعد وہاں 'پریکٹس' کرنے لگا ایک روز عجب خان میرے پاس آیا کہ اس کا بیٹا بیمار ہے اور وہ مجھے اپنے گائوں لیجانا چاہتا تھا  میں اپنی سائکل پر قریبا" عصر کے وقت گیا تشخیص کی دوائیاں وغیرہ لکھ کر بیماری سمجھائ کیسے علاج کرنا ہے اور پھر واپس یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہوگیا ابھی سورج ڈوبا نہیں تھا مگر اس نے ایک سائیکل سوار میرے ساتھ کردیا یونیورٹی کے علاقے تک مجھے بخیریت پہنچانے کے لئے اس کے پاس بندوق تھی میں سمجھ گیا اور کچھ نہ کہا اللہ کے فضل سے بخیریت اپنی کوٹھی پہنچ گیا
 عجب خان بہت سیدھے سادھا آدمی تھا اور مجھے جس عزّت سے اس نے اپنے گھر بلایا اور احتیاط کے ساتھ خیریت کا بھی خیال رکھا میں نہیں بھولا


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Wednesday, July 23, 2014

میں اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر

اس سے پہلے ۲۰۰۹ میں کچھ تاثیر مرحوم  یعنی ہمارے اسلامیہ کالج کے پرانے پرنسیپل کے متعلق لکھا تھا
 ۱۹۴۸ میں اپنے گائوں سے میٹرک پاس کرنے کے بعد میں لاہور آیا تو کالج مں داخلہ لینا مشکل نظر آیا فرسٹ ڈویژن سے کچھ کم نمبر تھے دیکھنے مین میرا قد کوئ پانچ فٹ سے بھی کم تھا داڑھی کے ابھی نکلنے امکان نظر نہیں آ رہا تھا عینک لگ چکی تھی ابھی شلوار سے کام چل رہا تھا یعنی پتلون ابھی پہننی شروع نہیں کی تھی  گورنمنٹ کالج کے داخلے سے انکار ہو چکا تھا  وہاں میرا انٹرویو پطرس صاحب نے لیا تھا اب بھائجان مجھے لیکر اسلامیہ کالج- یعنی ریلوے روڈ - لے گئے اور انٹرویو ایم ڈی تاثیر لے رہے تھے وہ پرنسپل تھے  مجھے ہنس کر کہنے لگے 
" یہ تو کرسی کے پیچھے سے مجھے نظر بھی نہیں آرہا"
 اس میں تحقیر نہیں بلکہ ظرافت کے پہلو میں تحسین کی جھلک تھی جس سے میں خوش ہو گیا اور داخلہ بھی مل گیا
 مزید ڈاکٹر صاحب موصوف سے دو سال میں کئ اور مواقع بھی رہے جس میں آپ کی خوش طبعی  کا اثر ہمیشہ ہوا کرتا تھا ان کے متعلق مندرجہ ذیل اقتباس میں دے رہا ہوں  خود تو ایسی دلآویز تحریر نہیں لکھ سکتا یہ مولانا عبد المجید سالک مرحوم کی لکھی ہوئ ہے انھوں نے ڈاکٹر تاثیر کی شخصیت کی صحیح عکاسی ہے
  " 
تاثیر بےحد روشن طبع اور عالی دماغ آدمی تھے۔ ان کی ذہانت و طبّاعی بے مثال تھی - شاعروں میں شاعر ، فلسفیوں میں فلسفی ، ادیبوں میں ادیب ، نقّادوں میں نقاد ،  معلّموں میں معلم ، اور صرف یہی نہیں بلکہ رندوں میں رند لم یزل ، مجلس یاراں میں بریشم کی طرح نرم اور لڑائ میں فولاد کی طرح سخت ، معاصرانہ نوک جھونک اور کشمکش و چپقلش کے عاشق ان کی ظرافت محفل آرا تھی اور طنز بے پناہ - شعر و سخن میں پرانے انداز و تخیّل کی خوبیوں کے بھی دلدادہ اور نئے اسالیب فکر اور جدید طریقہ ہائے اظہار کے بھی قدردان ، ادب اور آرٹ کی تنقید میں انھوں نے اردو شاعری کے انشا پردازوں کو نئے راستے دکھائے اور ان کے روابط صرف شاعروں اور ادیبوں تک ہی محدود نہ تھے بلکہ ماہرین تعلیم ، ارباب سیاست ارکان صحافت سبھی سے گہری چھنتی تھی اور سبھی ان کی گوناگوں قابلیتوں اور صلاحیتوں کے شیفتہ تھے'

  آپ کا ایک شعر جو بہت مشہور ہے لکھ رہا ہوں -اللہ آپ کا بھلا کرے
      
          ' '   داور حشر میرا نامہء اعمال نہ پوچھ    
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں 


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Monday, July 21, 2014

کالے خان

سب سے زیادہ جو 'مشہور' نام  ایس ٹونٹی میں رہا ہے وہ ہے
     کالے خان
ویسے وہ ہمارا  نوکر تھا مگر اس کی بےوقوفی کی حد تک باتیں حرکتیں ہمیں خوشدلی کا سامان  مہیا کرتی تھیں -  اسے ہر روز سمجھانا پڑتا تھا کہ ٹوتھ پیسٹ والی ٹیوب اور شیونگ کریم میں کیا فرق ہے اور وہ روزانہ وہی غلطی کر جاتا تھا
شیونگ کریم لانے کا کہو تو ٹوتھ پیسٹ لے آتا اور۔۔۔۔۔
 ایک بار ہم لوگ رات گھر پہیچے تو سیکھا ایک چھوٹا سا تالا لگا ہوا ہے ہم نے ایک اچھا اور بڑا سا تالا خرید کر لگایا تھا وہ غائب تھا۔  اب اندر پہیچ کر 
 کالے خان؟
 آیا جی
 پوچھا گیا کہ وہ بڑا تالا کیا ہوا تو بڑی معصومیت سے یہ جواب ملا
' کوئ لے جاسی نا'
مطلب یہ کہ وہ اچھا تالا کوئ چور لے جائے گا اس لئے اتار کر دوسرا لگا دیا

 ہم لوگ پچھلے صحن میں گپ شپ لگا رہے تھے کالے خان کو پلنگ اٹھا کر سامنے والے برامدے میں لے جانے کو کہا گیا
 اب وہ کھڑا سوچ رہا ہے اور ہم سب انتظار کر رہے ہیں پھر اس سے نہ رہا گیا جب وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا
 " جی کس طرحاں لے کے جاواں'
 اب اسے بتانے کے لئے ہم سب کے سب بول رہے تھے کوِئ کہ رہا تھا یوں کرو کوئ کہتاتھا یوں کرو اور وہ  ہونّق بنا کھڑا سن رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہں آرہا تھا کیا کرے
 پھر جب سب اپنی خوشدلی مکمل کر چکے تو سیدھی بات بتائ گئ
 اس کی سادگی/بیوقوفی کو ہم نے سٹینڈرڈ بنا رکھا تھا جب کسی اور کا ذکر کرنا ہوتا تو  کہتے فلاں دس فیصد یا چالیس فیصد کالے خاں ہے
 اس کے ساتھ ساتھ اسکی کچھ عادتیں عجیب تھین جنہیں محسوس کیا جا سکتا ہے

  ہم لوگ رات کو فلم دیکھ کر کھانے کو دیر سے کھاتے کالے خان ہمیں کھلانے کے بعد خود کھاتا پھر سوتا تھا
 ان چند جھلکیوں سے پتہ چل جاتا ہے کالے خان کیا چیز تھا اور اسے ہم سب کیوں اتنا چاہتے تھے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Monday, July 7, 2014

پشاور کے میڈیکل کالج میں

                                   پیشاور میڈیکل کالج   
  جیسا کہ کسی کالج میں بھی ہوتا ہے سب کچھ ویسا ہی میڈیکل کالج میں بھی ہوتا ہے
 آخر سب نوجوانوں کی وجہ سے ہی ہے 'پروفیسر لوگ' تو  ان کی وجہ سے مزے اٹھاتے ہیں چنانچہ سالانہ پروگرام جیسے کالج کی پکنک یا سالانہ کھیلیں اور ڈرامے وغیرہ سب انھیں کے لئے بنتے ہیں اور وہی اس کے پروگرام تیار کرتے ہیں ہم خود ڈراموں اور میوزک پروگراموں میں بطور سٹاف حصہ لیتے رہے ان کی بڑی اچھی یادیں محفوظ ہیں- یعنی ذہن میں کالج ابھی نیا تھا جب ہم نے وہاں کام شروع کیا تھا ابھی پہلی کلاس نکلنے والی تھی تو ان بچوں کو وہ مشکل درپیش تھی کہ ڈاکٹر تو بن جائیں گے لیکن میڈیکل کونسل نے تسلیم ہی نہ کیا تو کیا کریں گے ان کو   یہ الگ کام شروع کرنا پڑا تاکہ  ریکگنائز ہو جائے
 بہت سے لڑکے اور لڑکیاں جو ہمارے سٹوڈنٹ تھے یاد ہیں کبھی کبھی کسی سے ملاقات ہوتی ہے تو یادیں تازہ ہو جاتی ہیں تمام کا ذکر تو نہیں کیا جا سکتا مگر ایک ڈرامہ کے متعلق ضرور لکھنا چاہتا ہوں
 ایک 'سکٹ' ہم نے سٹاف  کی طرف سے تیا کیا تھا جس میں کچھ مضحکہ خیز کچھ سبق آموز سٹوڈنٹ-سٹاف کی باتیں لکھی گئی تھیں اسے ہم پانچ  لیکچراروں نے بڑی خوبی سے پیش کیا جس کی پرایکٹس ہر شام 'ایس ٹونٹی' میں ہوتی تھی ہم نے اس 'پریکٹس کو بھی اپنے لئے بہت مزیدار پایا ہمارے ایک صاحب داڑھی رکھتے تھے ان کو مریض کا  حصہ دیا گیا تھا اور انھیں کے ڈائیلاگ مضحکہ خیز تھے اور وہ بڑے ماسٹرلی طریقے سے ادا کئے گئے بٰعد میں ہمیں پتہ چلا کہ کچھ لوگ جو ہمیں جانتے نہیں تھے کہ رہے تھے کہ اس مریض کی داڑھی تو بلکل اصلی لگتی تھی
 وہ 'سکٹ' ابھی تک میرے پاس لکھا پڑا ہے اس کے علاوہ میں میوزک ڈاءریکٹر بھی تھا سٹاف کی طرف سے ان بچوں اور بچیوں کو 'میری' سپرویژن' تھی پشاور میں لڑکے اور لڑکیوں کو ابھی ایسی کھلے اجازت نہیں تھی اس لڑکیاں کچھ ہچکھچاہٹ سے آتی تھین کہ بعد میں پروفیسر صاحب کلاس میں 'رکارڈ لگائیں گے
 -----ایک سٹوڈنت یاد آتا ہے جو بہت اچھی باںسری بجاتا تھا جس کمپٹیشن میں بھی وہ گیا پہلا انعام لے کے آیا خصوصا' جب وہ اس کا نام یاد نہیں تھا ایک اور صاحب سے بات ہوئ تو معلوم ہوا اور یاد آیا- اس کا نام اقبال چغتائ تھا  اب نہ معلوم کہاں ہوگا------راگ پہاڑی کی دھن شروع کرتا تھا تو حال پہ سنّاٹا چھا جاتا تھا
پشاور بھی لکھتے ہیں پیشاور بھی لیکن پشتو میں  پخاور لکھتے ہیں یا بولتے ہیں لکھنے میں خ نہیں "خیں' ہوتی ہے اس لئے کہ جنوبی علاقوں میں خین کو شین بلاتے ہیں تو جب میں چمن میں تھا تو اس فرق کا پتہ چلا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Wednesday, June 25, 2014

ہماری منھ بولی بہنیں

نام لئے بغیر ہم نے اپنی منھ بولی بہنوں کا تعارف تو کرا دیا ہے بڑی جو وہاں سینئر لیکچرار تھین انھیں ہم آپا کہتے تھے ان سے چھوٹی امریکہ سے واپس آئیں تو 'امّی' کو تار بھیجی کہ  -میرے لئے دال پکا کے رکھیں''  اس کے بعد یوں ہوا کہ آپا کی بات لاء کالج کے وائس پرنسیپل سے چل نکلی امّی گھر میں تو تھین مگر لڑکیوں کے والد ایک اعلےا افسر مشرقی پاکستان میں مقیم تھے ان کے آنے کا امکان نہیں تھا غالبا" دوسری بیگم وہاں تھیں خیر اب ہم نے امّی سے بات کی کہ آخر ہم لوگ ان کے بھائ ہیں تو کیا حرج ہے ہم آپ کی طرف سے پرنسیپل صاحب سے مل آئیں اور آپ بات پکّی کر لیں آپا بھی مان گئیں چنانچہ ہم چاروں نے حق ہمسائگی اور حق برادرانہ احسن طریقے سے نبھایا شادی کی تاریخ مقرر ہوئ تو ساراا نتظام بھی ہم لوگوں نے ہی کیا--دراصل ہمارے سٹوڈنٹ ہمیں بہت چاہتے تھے خصوصا' جن کا لگائو موسیقی سے تھا وہ سب بہت تندہی سے سارے انتظامات کے لئے کام کرتے رہے۔ آپا کو انتظار تھا کہ شائد ان کے والد تشریف لائیں مگر وہ نہ آئے اور آپا بہت روتی رہیں ہم لوگ بھی دل ہی دل میں ان کے والد کو کوستے رہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

ایس ٹونٹی کے پڑوسی

 ہمارے دائیں جانب کے بنگلے میں ایک صاھب اکیلے تھے اور یونیورسٹی میں سینئر لیکچرار تھے جو کہ 'ایس' ٹائپ بنگلوں سے ظاہر ہے وہ اچھے ہٹّے کٹّے مضبوط جسم کے مالک تھے اور جب چلتے تھے تو کچھ ایسا لگتا تھا پہلوانی کر کے آ رہے ہیں آپ کی گردن بھی اچھے سائز کی تھی تو ہم انھیں 'گوریلا" کہتے تھے اگرچہ بات چیت میں وہ شائستہ اور نفیس عادتوں کے مالک تھے
 اسی طرح دوسری طرف کے بنگلے میں کچھ 'عورتیں' رہتی تھین ان میں ایک ابھی اتنی چھوٹی تھی کہ اسے ہم یارڈ میں تتلیوں کے پیچھے بھاگتے دیکھا کرتے تھے اس سے بڑی انگریزی کے ایم اے کی طالبہ تھین اور اس سے بڑی امریکہ گئ ہوئ تھیں ان سے بڑی  امریکہ سے واپس آ چکی تھین اور وہان ایک کالج میں سینئر لیکچرار تھین اور ان کی امّاں جان جو کہ دل کی مریضہ تھین۔
 ان کو ہم اپنی موںھ بولی بہنیں کہتے تھے اس سے اگلے بنگلے میں ایک لیکچرار تھے اب یہ نہیں معلوم کہاں مگر وہ عمر میں زیادہ تھے اور کوٹ ٹائ وغیرہ کے ساتھ شلوار اور پگڑی ہوتی تھی بڑے مزے کی باتیں کیا کرتے تھے اور پرانے   لاہور کے قصے سناتے تھے جب وہاں نئ نئ بجلی آئ تھی ان کے ہاں جاکر چائ وغیرہ پینے کا مزا یوں رہتا تھا کہ وہ فرماتے تھے
"آپ لوگ ائیں تو اس کے ساتھ کھانے کی چیزیں ہمیں بھی مل جاتی ہیں ورنہ تو گھر میں مارشل لاء لگا ہوتا ہے'
 ہماری منھ بولی بہنیں بھی ہمیں کھانے پہ بلایا کرتی تھیں 
ان کے پیچھے آر ٹائپ بنگلے تھے جہاں انگلش کے 'ریڈر' یعنی اسسٹنٹ پروفیسر تھے وہ بھی اسی طرح ملا کرتے ان کی بیگم نہائت سلیقے والی تھین پھر ان کے  پیچھے 'پی ٹائپ' بنگلون کی قطار تھی
یعنی پروفیسروں کے بنگلے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Tuesday, June 3, 2014

ایس ٹوینٹی

                                ایس ٹونٹی  
 اس مختصر بنگلے کا تعارف پچھلی تحریر میں کر چکا ہوں اور اس کے مکینوں سے بھی آپ کو باخبر کیا ہے
 اب باقی کا حال سنئے ستمبر کے اواخر میں یہ غریب ہی پہلا مکین ہوا اور جب تک باقی حضرات آتے تقریبا" تمام انتظامات یعنی رہنے سہنے کے مکمّل ہو گئے بنگلے میں کئ چیزوں کی کمی تھی جس کی 'شکایت' کرنے کے بجائے ہم نے کالج کے بڑے 'افسروں' مع پرنسپل کو ایک دعوے بھیجی اور کھانے و موسیقی کا بندوبست کیا موسیقی کی کئ وجوہات تھین اوّل" یہ کہ ہم اس کے بہت شوقین تھے اور مجھےکچھ معمولی سی گانےبجانے کی مہارت سی بھی حاصل تھی عین اس وقت میرے جاننے والوں میں ایک نہایت اچھے گلوکار اور ان کے ہمراہ طبلے اورہارمونیم والے بھی موجود تھے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے چند سٹوڈنٹ بھِی ہمارے ساتھ آ ملے کہ ان میں ایک موسیقی کا شائق اعلےا درجہ کا بانسری نواز بھی تھا تو ہم نے ان سب کا فائدہ یوں اٹھایا کہ میرے جنم دن یا سالگرہ کا بہانہ لیکر پروگرام بنالیا اور اس ملی جلی محفل میں بڑے افسروں کے سامنے بنگلے کی خستہ حالت بھی ظاہر کر دی گئ اور ان کا تعاون ٹھیک کرنے کے لئے حاصل ہوگیا
بس اس کے بعد پشاور میں کوئ ایسی موسیقی محفل نہیں ہوتی تھی جس میں ہمین دعوت نہ بھیجی گئ ہو پاکستان ائر فورس کی ڈرامیٹک کلب سے جہاں وہ میرے جاننے وال موجود تھے ہمارے مضبوط تعلقات قائم ہو گئے
 اس کے بعد میں مزید ایس ٹونٹی کے پڑوسیوں کے متعلق تحریر کروںگا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Monday, June 2, 2014

پیشاور کی یادیں

میں نے ساگر شہر میں اپنی زندگی کے پہلے دس سال گزارے پھرچار سال گائوں یعنی کوٹلہ ککرالی میں اس کے بعد دس سال لاہور میں۔ پاکستان چھوڑنے سے پہلے تین سال پیشاور میں گزارے
 پاکستان کی یادیں اب پرانی ہوچلی ہیں ہندوستان یعنی ساگر کی یادوں کو کچھ لکھ چکا ہوں اور کچھ کوٹلہ ککرالی کی کچھ لاہور کی جو یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وقت گزرا ان کی داستان تھی
 آج سوچا کہ پشاور کی یادوں کو تازہ کروں بھت دلگداز اور دلفریب واقعات ہیں اورمیرے دل کو تازگی بخشنے کا ایک مستقل ذریعہ ہیں اوّل تو یہ کہ میڈیکل کالج سے نکل کر یہ پہلی نوکری تھی مگر یہ بھی میڈیکل کالج تھا اور استادوں اور طلباء کے گروپوں سے واسطہ رہا اس لئے محسوس ہی نہ ہوا کہ ہم کالج چھوڑ چکے ہیں سٹوڈنٹ طبقہ میں ہماری ایک عزّت تھی اور جب ہمیں 'سر' کہ کر پکارا جاتا تھا تو دل کو ایک گونہ تسکین سی ملتی تھی سب سے پہلے میں 'ایس ٹونٹی' کے متعلّق لکھنا چاہتا ہوں
یہ ایک یونیورسٹی کی نوکری تھی یعنی ہم پشاور یونیورسٹی کے 'نوکر' تھے میڈیکل کالج --خیبر میڈیکل کالج- نیا بنا تھا مجھےفزیالوجی ڈپارٹمنٹ میں بطور ڈیمانسٹریٹر لیا گیا تھا اور گریڈ 'سینئر لیکچرار کا تھا رہائش کے لئے یونیورٹی میں نئ آبادی بنی تھی جس میں 'بنگلے' تھے 'جےٹائپ' جونئر لیکچرر کے  'ایس ٹائپ' سینئر لیکچرر' کے 'آر ٹائپ' ریڈر یعنی اسسٹنٹ پروفیسر کے اور 'پی ٹاءپ' پروفیسروں کے لئے بنائے گئے تھے مجھے مع تین اور ساتھیوں کے 'ایس ٹونٹی' یعنی بیس نمبر بنگلہ الاٹ ہئوا تھا یہ اسی کی داستاں ہے میرے ساتھی دو اناٹومی کے ایک فزیالوجی اور پھر ایک کی شادی ہونے پر ان کی جگہ ایک پتھالوجی کے ڈیمانسٹریٹر تھے جو ہمارے بنگلے مین آگئے چار کمرے تھے یعنی بیڈروم ایک بیٹھک ایک غسلخانہ ایک باورچی خانہ اور ایک 'سروینٹ کوارٹر' بھی تھا ایک باورچی اور ایک کام کرنے والا نوکر تھا میرے ساتھی سب ایک ہی قسم کی طبیعت رکھتے تھےایک دو سالوں کے فرق مین ڈاکٹر بنے تھے ابھی 'کالج کا الّھڑ پنا' سب میں موجود تھا رات گئے تک گپ شپ رہتی تھی زور زور سے قہقہے لگانا عام تھا آس پاس کے بنگلوں والے شکایت نہیں کرتے تھے کیوںکہ ہم نے سب سے دوستی قائم کر لی تھی میرے بنگالی ہم پیشہ کے جانے کے بعد جب مجھے یہ بنگلہ الاٹ ہئوا تو اس میں سب ہی میری طرح غیر شادی شدہ ڈاکٹررہ رہے تھے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Thursday, May 15, 2014

جنگوں کے ہیرو

دنیا کی تاریخ میں اگر آپ غور کریں تو ہمیشہ آپ کو ایسے بڑے لوگوں کے نام ملیں گے جنھوں نے جنگوں میں نمایاں شہرت حاصل کی اس بحث کے قطع نظر کہ آدمیوں کو مارنے میں مہارت حاصل کر کے ہر جرنیل اور سپہ سالار کی خواہش اور ترکیب یہی ہوتی ہے کہ کس طریقے سے دشمن کو زیداہ سے زیادہ نقصان کم سے کم وقت میں پنہچایا جائے اسی میں ان کی ناموری پوشیدہ ہے
 مثالیں تو بہت سی ہیں صرف ایک دو لکھ رہا ہوں جنرل آیزنآور دوسری جنگ عظیم کے فاتحان عظیم میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے اپنے ملک مین یعنی امریکہ میں ان کو نہایت عزت اور  ہردلعزیزی کا مقام حاصل ہے دیکھا جائے تو ان کا امریکہ کے رئیس الاعظم منتخب ہونے میں اسی 'جرنیلی' قوت کا دخل ہے لیکن جب آپ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی اور انسانیت سوز سفّاکی پہ نظر ڈالیں تو آپ کے دل دہل جاتے ہیں تاریخ یہ بھول جاتی ہے کون اشخاص اس ہولناک تباہی کے ذمہ دار ہیں اسی طرح جنرل پیٹن کا قصہ ہے جو بد تمیزی بدکلامی میں لاثانی ہیں انہیں یاد کیا جاتا ہے میں نے سنا تھا کہ جب ان کے نام پر فلم
                                           بنائی گئ اور اس میں جارج
سی سکاٹ کو ایکٹنگ پر سراہا گیا جو اس نے جنرل پیٹن کے رول میں ادا کی تھی تو اس نے آسکر لینے سے انکار کر دیا
    میں اس فلسفے کو نظر انداز کر رہا ہوں جس میں آدمی لڑنے پہ مجبور ہو جاتا ہے لیکن آپ نے دیکھا تھا کہ جب عراقی
افواج شکست سے دو چار ہوِ تھیں تو بھاگتی ہوِ فوج کے تعاقب میں باوجود اس کے کہ شکست تسلیم کی جا چکی تھی
گنرل شوارزکاف نے جان ببوجھ کر اپنے ٹینکوں سے نہتے فوجیوں پر گولے چھوڑے اور ہمیں ٹی وی پر شان سے اکڑ کر بتایا کہ یہ نہایت خونی حملے ہوں گے یہ ایسے جرنیلوں کا طرّہئ امتیاز شمار ہوتا ہے
 ابھی حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی گِ ہے جس میں عراقی لوگوں کی تباہی جنگ کے علاوہ جو انسانی ظلم دوسری طریقوں سے کئے گئے ہیں جنھین پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ جیسے پرانے زامنے میں بادشاہ اور دوسرے حاکم جانی اور مالی طور پر اپنی رعایا اور مفتوحہ علاقوں کے لوگوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا کرتے تھے اب بھی وہی طریقے انسانی تہذیب میں شامل ہیں اگرچہ موجودہ انسانی تہذیب کو اعلےا اخلاقی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی تک وہی اقدار لئے ہوئے ہےجو قابیل نے ہابیل کے قتل سے شروع کی تھیں


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Wednesday, April 23, 2014

کسی کا کوچ کسی کا مقام ہوتا ہے

کسی کا کندہ نگینے پہ نام ہوتا ہے
کسی کی عمر کا لبریز جام ہوتا ہے
عجب سرا ہے یہ دنیا کہ جسمیں شام و سحر
 کسی کا کوچ کسی کا مقام ہوتا ہے
 اب یہ تو یاد نہیں کس کی لکھی ہوئ ہے یہ رباعی مگر یاد اکثر آتی ہی سرمایہ ادب اردو کی کتاب تھی ہمارے لئے میٹرک میں جہاں اسے پڑھا تھا
 بڑی مشکل سے پوری رباعی آج مسٹر گوگل نے نکال کے بتائ ہے بہت پر معنی قسم کے الفاظ ہیں اس لئے یہاں نقل کر دئے ہیں اس میں سے صرف دوسرے مصرعے کو بھولا تھا باقی تین مصرعے یاد تھے
 ممکن ہے آپ سبکو پسند آئے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Thursday, April 17, 2014

عربی نام انگریزی میں



- حال ہی میں سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا جی ہان عمرہ کی خاطر
ایسے ہی ایک اخبار کی سرخی پہ نظر پڑی جس میں شکایت تھی کہ عربی نام لوگ انگریزی میں لکھتے ہوئے سپیلنگ کا لحاظ نہیں کرتے جس سے خاصی مشکل پڑتی ہے اور کئی موقعوں پر قانونی کاروائی میں پتہ نہیں چلتا اصل نام کیا تھا اس لئے سعودی حکومت اس مشکل کو حل کرنے کے لئے کوئی خاص ترکیب نکال رہی ہے وہ کیا ہوگی؟ اللہ ہی بہتر جانے
 میرا تجربہ انگریزی کے متعلق سعوی عرب میں یوں ہے  
    ایک مرتبہ ہم جدہ سے مدینہ منورہ والی فلائٹ کے لئے انتظار میں تھے مانیٹر پر غور سے دیکھا تو فلائٹ نمبر مدینہ والی کا لکھا تھا اور وقت بھی درست تھا مگر شہر کا نام مدینہ نہیں تھا کچھ اور تھا- اب ہم سوچ میں پڑ گئے کہ مدینہ والی فلائٹ کیا ہوئی سوچا شاید مدینہ پہنچنے سے پہلے شاید کوئ شہر آتا ہوگا  گو ایسی لمبے فلائٹ نہیں چنانچہ ارادہ کیا کہ کسی سے پوچھ لیں جو انگریزی اور عربی جانتا ہو کہ کیا یہ فلائٹ مدینہ ہی جائے گی؟ سو ایک 'وردی' والے صاحب سے پوچھ ہی لیا انھوں نے بھی غور سے دیکھا کہ فلائٹ نمبر ٹھیک ہے تو ہمیں یقین دلایا کہ یہ فلائٹ مدینہ ہی جائے گی فکر نہ کریں۔ عرض کیا دوسرے شہر کا نام کیوں لکھا گیا ہے  جواب ملا "اس نے غلطی سے لکھ دیا ہے' عموما" ایسی  جگہ سپیلنگ یا ؟ 
دوسری غلطی کو جب پتہ لگ جائے تو درست کردینا چاہئے تھا
ہم ایک بڑے پاش قسم کے ریستورانٹ میں تھے مینو دیکھا اس میں  بہت کچھ لکھا ہوا تھا کہ ایسے ریسٹورانٹ میں آپ بہت کچھ دیکھ اور کر سکتے ہیں مثلا" میٹنگ وغیرہ بھی کر سکتے ہیں اب جو ھور سے دیکھا تو میٹنگ کا سپیلنگ یوں تھا
MEATING
 مکن ہے ریسٹو رانٹ کی وجہ سے ان کا مطلب دہرا ہو ہم یہی سوچ کر کہ ایسی چھوٹی سی بات بھلا کیسے ان کو بتائیں اور ہم غریب کیا جانے بڑے ریسٹورانوں میں کیا کچھ کیسے لکھا جاتا ہے
  ایک کمپنی سے ہم نے دو چیزیں علیحدہ علیحدہ خریدیں ان کے اپنے بیگ تھے جس پر کمپنی کا نام اور کام اور بہت کچھ لکھا ہوا تھا ایک جگہ نیوزپیپرز درج تھا وہ ایک بیگ پر ٹھیک تھا دوسرے پر یوں تھا
NEWS PAOERS
ظاہر ہے کہ ٹاِپ کرنے والے نے غلطی سے 'او' پر انگلی مار دی تھی بجائے 'پی' کے تو اس کو بھی بجائے درست کر کے اور پھر چھاپنے کے اسے یوں ہی  چھپوا ڈالا گیا  -- کیا فرق پڑتا ہے آخر سب جانتے ہی ہین یہ کیا ہے



Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/

Friday, February 14, 2014

ویلنٹائن کیا بلا ہے

  میں نے جب پاکستان سے انگستان ہجرت کی اس وقت اٹھاءیس سال کا ہو چکا تھا اور ایسے "دن" کے متعلق مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ  ہمارے کلچر میں وےلنٹائن  کا کوئ تصور نہیں تھا مگر سن باسٹھ میں  اس تاریخ پر سب معلومات حاصل ہوئیں وہ یوں کہ ایک نرس نے میرے سینئر کے نام ۳۲ خط لکھے تھے محترمہ اس آستریلین سرگن پر بری طرح فریفتہ تھین چوںکہ ہندوستان میں پیدا ہوئ تھیں اس لئے ٹوٹی پھوٹی ناگریزوں والی  اردو بول لیتی تھین اور مجھے کہا کرتی تھین کہ میں اس ڈاکٹر کو ان کے لئے 'رام' کرنے میں کچھ مدد کروں
 خیر بات اس "ڈے" کی چلی تھی اور میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آج کل پاکستان میں یہ "ڈے" اسی طرح منایا جاتا ہے گو مجھے اس کا زیادہ علم نہیں مگر چند 'مسلمان' بچوں کی طرف سے فیس بک پر دیکھتا ہوں کہ وہ اس کی سخت مذمّت کرتے ہیں مجھے سمجھ نہیں آسکتا کیوںکہ میں جس ماحول میں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھا ہوں مغربیت تو تھی مگر  ایسے دن منانے کا کچھ بھی رواج نہیں تھا  اور باوجود اس چیز کے کہ ہم انگریزی اور امریکن فلمیں دیکھا کرتے تھے مگر ان فلموں کا اثر "کہانیوں' جیسا ہی تھا تو امریکن یا انگریزی کلچر کو ہم نے زیادہ "اپنانے" کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ اس کا خیال تک نہیں آیا تھا۔
 کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اسقدر آگے جا چکی ہے کہ یہاں کی 'سلینگ' تک پاکستان میں سمجھی جاتی ہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/