Tuesday, December 7, 2010

پہلی سالگرہ-میری پوتی کی آٹھ دسمبر ہوگی

 صبح اٹھا تو پیاری ایمانی کا ہنستا ہوئا چہرا سامنے آرہا تھا۔ گول مٹول سی پیاری سی گڑیا آج ایک سال کی عمر کر لی فجر کی نماز کے بعد جو ہاتھ اٹھائے تو بس اسی کے لئے دعائیں کرتا رہا اللہ  اس کو ایک نیک اور صحیح مسلمہ بنائے ایمان کی پختگی اور اسلام کی محبت عطا فرمائے قران مجید سے اور رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم سے محبت  اور لگن عطا فرمائے والدین کی آںکھوں کی ٹھنڈک اور انھیں ہزار خوشیاں دکھائے اور اس کی اپنی زندگی خوشیوں سے بھری اور دکھ تکلیفوں سے مبرّا ہو اور لمبی عمر عطا ہو- آمین ثم آمین
تم کیا جانو میری گڑیا کہ تم نے صرف جنم لےکر اس بوڑھے کی زندگی میں کتنی مسرّتیں بھر دی ہیں جیتی رہو بٹیا
غلطی سے پہلے ہی لکھ گیا ہوں بڑھاپے میں سب کچھ معاف ہو جاتا ہے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, December 1, 2010

شادی بیاہ میں دف

مگر انگرہزوں کے وقت میں سی پی تھا
 ساگر ایک چھوٹا سا شہر ہے بلکل ہندوستان کے وسظ میں واقع ہے آجکل اسے مدّھ پردیش کہتے ہیں
ہمارے محلّے میں زیادہ تر ہندو بستے تھے ہمارا گھرانہ میرے والد مرحوم کی وجہ سے بہت 'مولویوں کا گھرانہ' تھا مگر اس میں کچھ 'روشن خیالی' بھی شامل تھی مثال کے طور  پر میری بہنیں لڑکیوں کے اسکول مِن داخل ہوئی تھیں اور چار جماعت پاس کیں کیوںکہ وہ پرائمری اسکول تھا اگرچہ پردے کا انتظام تھا مگر فلم دیکھنے کی اجازت تھی امّاں جان سمیت سب بچوں کو گنی چنی چند فلمیں سہی مگر میں نے بچپن میں اپنی فیملی کے ساتھ دیکھیں اس زمانے میں شادی سے پہلے گھر میں ڈھولکی شروع ہو جاتی تھی کمال یہ ہے کہ میری بڑی بہن کو بلایا جاتا تھا وہ ڈھولکی بھی بجاتی اور گاتی بھی تھیں لوک گیت 'دادروں ' کی شکل میں تھے بلکہ ان کے بول بھی اسی قسم کے ہوتے تھے
' ڈالیں گلے میں موہن مالا بلم انگنا میں کھڑے
مجھے تو طرزیں بھی یاد ہیں مگر لکھ نہیں سکتا ایک اور یاد آئ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اب دیکھئے کیسے کٹے

 پھر ہم پنجاب آگئے اور یہاں بھی شادی سے پہلے وہی رواج تھے گائوں مِن بجائے ڈھولکی کے دف رکھا جاتا تھا میری بڑی بہن کی بیٹی اسی طرح بلائ جاتی تھی اسے بھی وہی شوق تھے اور اب گیت پنجابی تھے
"چٹھّی آئ زورآور دی ی ی ہو اللہ جانے گھٹّ کے سینے نال لاواں
سحیب جانے گھٹّ کے سینے نال لاواں کہ
کہ چٹھّی آگئ زورآور دی ی ی ہو
 اور زیادہ اس وقت یاد نہیں آرہے
 آللہ دونوں کو جنّت میں جگہ عطا فرنمائے دونوں اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ 

Saturday, November 27, 2010

کیا مسلمان کو کرسمس منانی چاہیئے

                                                                       سادہ سا جواب یہ ہے کہ نہیں منانی چاہیئے
                                                                  یہ خیال 'تھینکس گیونگ' کی وجہ سے آیا ہے-    وہ جو عیسائ ہیں مناتے ہیں مناتے رہیں
اب سوال یہ ہے کہ جب آپ کے عیسائ دوست یا آپ کے ہمکار وغیرہ آپ کو کرسمس کی مبارکباد دیں "میری کرسمس" کہیں اور آپ ان کو جوب میں اسی طرح کہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ ان کی کرسمس منانے میں شریک ہو گئے ہیں؟
 ہمارے علمآء فرماتے ہیں کہ آپ اس کے کہنے سے ان کے تہوار میں شریک ہوگئے
 میرا دل اس فلسفہ کو قبول نہیں کرتا۔ جب ایک غیر مسلم مجھے عید مبارک کہتا ہے تو کیا وہ میرے عید منانے میں شریک ہو رہا ہے؟
میرے ناقص خیال میں نہ وہ عید منارہا ہے اور نہ میں بطور مسلم کرسمس منا رہا ہوں میں تو صرف اپنے عیسائ دوست کو خوشی پہنچا رہا ہوں دوست کی حیثیت سے اور میں اس اپنے اسلامی اصول کے مطابق غیر مسلم دوست سے اچھا سلوک کر رہا ہوں جس کی اجازت دی گئی ہے کیا اس نیت سے 'میری کرسمس'کہنا گناہ ہوگا؟


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Friday, November 19, 2010

حجّ بیت اللہ کا موسم

آج کے روز حجّ کے تمام مناسک مکمل ہوئے اور اب حاجی لوگ یا اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوںگے یا وہ جو مدینۃ المنوّرہ پہلے نہیں گئے تھے اب  مدینے کی راہ پکڑیں گے-
 جنہاں پھڑی مدینے دی راہ یارو نال انھاں دے اسہاڈیاں دعاواں
مینں وی بیٹھیا ہویا  ہاں ایہوئ سوچنا واں- کدوں میں مدینے ول جاواں
  حر مسلمان کے دل میں یہی خواہش دہتی ہے کہ حج کو جائیں اور دیار مدینہ کی پر سکون فضائوں میں خوشی کے وقت گذاریں
حجّ ایک ایسا فریضہ ہے کہ جب تک آپ خود نہ کریں اس کا احساس نہیں ہو سکتا  ایک عجیب سفر ہے ایسا جیسے آپ کی باقاعدہ ایپوئنٹمنٹ ہے اللہ تبارک و تعالےا سے اور آپ 'اللہ کے گھر' جاتے ہیں
 ایک بچّے کا لطیفہ یاد آ گیا سناتا چلوں
 اپنے ماں باپ کے ساتھ بثے بھی جاتے ہیں ان کے اپنی عمر کے لحاظ سے علیحدہ ہی  تائثرات ہوتے ہیں
 چنانچہ ایک مکالمہ کسی بڑے نے دو بچوں کی باتوں پر کان دھرتے ہوئے سنا وہ آپ تک پہنچا دوں
ایک بچہ دوسرے سے پوچھتا ہے
 تم نے اللہ کا گھر دیکھا؟
ہاں دیکھا
 اچھّا اللہ میاں گھر مین تھے؟
 نہیں تو - ایسا لگتا ہے وہ چھٹی پہ گئے ہوئے تھے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, November 13, 2010

لمبر پنکچر

 یہ ایک قسم کا 'چھوٹا اپریشن' ہے جس میں ڈاکٹر ریڑھ کی ہڈّی میں  ایک لمبی سی سوئ داخل کرتا ہے اور جو مادہ دماغ کے ارد گرد گردش کرتا ہے اس کی تھوڑی سی مقدار نکالتا ہے عموما"  اس کو ٹیسٹ کرنے کے لیئے
 یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں میو ہسپتال کے میڈیکل وارڈ میں ہائوس فزیشن تھا اور خدا جھوٹ نہ بلوائے کوئ چھ یا سات مریض --ٹی ی مننجائٹس--کے میرے وارڈ میں تھے ایک دس گیارہ برس کا لڑکا بھی تھا جو ٹھِک تو ہو گیا تھا مگر اپنی بینائ کھو بیٹھا تھا -ا بھی وارڈ میں دوائیاں لے رہا تھا مگر بہتر ہو چکا تھا۔ نرس کے ساتھ ساتھ وہ بھی آ جاتا تھا جب میں کوئ  لمبر پنکچر کرنے لگتا اور اپنی نئ نئ سیکھی ہوئ میڈیکل ٹرمینالوجی بول کر خوش ہوتا تھا۔ چونکہ میں نرس کو کہا کرتا تھا مریض کی پوزیشن ٹھیک کرو تو وہ نرس کو یہ کہا کرتا سسٹر صاحبہ پوزیشن ٹھیک کریں ڈاکٹر صاحب کو لمبر پنکچر میں گڑ بڑ نہ ہو
 جب کوئ مریض دم توڑنے کے وقت پر ہوتا تو بیرے کو آواز لگاتا آکسیجن سلنڈر لے آئو
 ہم سب اس کی باتوں سے محظوظ ہوتے - بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والا بہت پیارا بچّہ تھا
نہ معلوم ان دنوں کیوں اتنے مریض اس خطرناک مرض والے آ داخل ہوءے تھے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, November 9, 2010

علّامہ اقبال ر ح

مجھے معلوم نہیں تھا کہ آج یوم اقبال ہے بھائ افتخار اجمل بھوپال کے بلاگ سے معلوم ہوا   مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ پاکستان میں ۹ نومبر کو چھٹی بنا دی گئ ہے


 -بھت چھٹیان بن جاتی ہیں مگر ان شخصیات کی یاد بھی بہت ضروری ہے ورنہ انہیں کون جانے گا نئ پود میں سے
علامہ کی شخصیت بہت بھاری ہے قائد اعظم کی شخصیت سے بھی زیادہ میرا خیال ہے کہ پاکستان کے متعلّق جاننے والے لوگوں کو ان دو حضرات کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرنا چاہئیے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, October 26, 2010

طلاق کیسے دینی چاپیئے

 سب سے پہلے تو میں آپ سب سے معذرت خواہ ہوں کہ یہ میں کیا لکھنے جا رہا ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالےا نے اس کی-- غیر پسندیدہ سہی مگر-- اجازت تو دے رکّھی ہے دوسرے یہ کہ طلاق دینے میں مسلمان آدمی کبھی جلدی کرتے ہیں اور عموما" غلط طلاق دیتے ہیں اب اس کا مسئلہ اس لیئے بن جاتا ہے کہ طلاق پھر بھی واقع ہو جاتی ہے کہ اگر آپ کھیل کھیل مین یا مذاقا" بھی اپنی بیگم کو کہیں کہ میں نے طلاق دی تو وہ ایک طلاق واقع ہو جاتی ہے چنانچہ اس سے یہ بخوبی معلوم ہو گیا کہ طلاق کا لفظ کھیل نہیں ہے
 اب فرض کیجے کہ طلاق کی نوبت پہنچ چکی ہے اور طلاق دینی ضروری ہو گئی ہے تو اس کا طریقہ جو شرع سکھاتی ہے میں اس کا اظہار کرنا چاہ رہا ہوں اس لئے نہیں کہ خدا نخواستہ آپ کو کوئی ترغیب دے رہا ہوں میری عمر اب ستتّر برس ہو چکی اور میں نے یہ عمل کئی بار دیکھا ہے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں اور اکثر لڑائی جھگڑا ہوتا دیکھا ہے وغیرہ اور آپ بھی اس سے واقف ہوں گے اگر تو کوئی صاحب کسی عالم سے پوچھ کر دیں تو بات ٹھیک رہتی ہے ورنہ مشکل ہو جاتا ہے
 میں نے تین طلاق کا مسئلہ اپنے انگریزی بلاگ میں لکھا ہے جو آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں
Ibn Umar RA narrated:
Rasool-ul-Allah SAWS said,
"Among the halal things the most despised by God is divorce" Abu Dawood and Ibn Majah, considered it saheeh. I have hesitated about writing for a long time and on the other hand I have wanted to write about it for a long time. Yes, I come across this subject every now and again and always I find that we are always making mistakes because of lack of knowledge about this subject.;Generally the notion exists that a Muslim should say three talaqs when divorcing and this is utterly wrong.
From Mahmood Ibn Labeed RA, who said:Rasool-ul-Allah was informed that someone divorced his wife saying three times Talaq in one sitting. He got furious and stood up to say--Are people playing with the Book of Allah while I am still alive amongst you?--On that one man stood up and said--Shall I not kill him Ya Rasool-ul-Allah ?
Well I will be writing more about this before I write the Hadeeth that advises the proper way of divorcing (one time and three times)
 From the above hadeeth of Ibn Labeed what is apparent is that it is haram (prohibited) to say three times divorce in one sitting. However here it does not indicate whether this was considered ONE talaq or was considered three talaq about which the Qur'an Says
"A divorce is permissible only twice; after that the parties should either hold together on equitable terms or separate with kindness; It is not lawful for you (men) to take back any of your gifts (from your wives) except when both parties fear that they would be unable to keep the limits ordained by Allah..........." (Aya 229
"So, if a husband divorces his wife (Irrevocably; that is third time),He cannot after that remarry her until after she married another husband and he divorced her.   .........." (Aya 230--of sura Baqara)
This is the "three talaq" which is allowed by Allah (though not liked) that is one and remarry her, then second and remarry her and THEN the third time pronouncing the final or irrevocable talaq.
So pronouncing three talaqs in one sitting is prohibited but ACCEPTED as the final irrevocable talaq which makes a husband and wife to get married for the fourth time ONLY IF that wife has been married and divorced by ANOTHER HUSBAND. (Or if he dies) This is called "halala" (if planned for the purpose of remarrying the same wife for the fourth time) and is very much despised, not allowed if that is "arranged" by the man for his 4th timeThis particular question was admirably dealt with in the old Indian Movie called "Nikah"
 There are two positions about the three talaqs pronounced in one sitting, one of which is accepted as correct the other as not correct according to ( my thinking) ALL FOUR IMAMS as well as many well-known Sahaba and their followers and the followers of the followers.(Taba' taabieen)
 Those who call themselves "ahl-hadeeth" or call themselves Ghair muqallad" (Not following ANY IMAM) and also Shia- consider it wrong to accept the three talaqs as final irrevocable talaq necessitating a halala but are of the opinion that such 'three talaqs" pronounced in one sitting equal to only one talaq.
. Let me first state the position of all four Imams which is based on sunnah and Ijama'a. How that Ijam'a came into being requires another note so will write next time insha-Allah. I am hoping that so far what has been written is clearly understandable but would answer any questions
 اس سے پہلے دو اور پوسٹ ہیں مجھے کلک کرنے والا طریقہ ابھی نہیں آتا معذور ہوں لیکن یہ ہے کہ تین طلاق کا زبان سے نکالنا اچّھا نہیں کسی صورت میں بھی اس سے پرہیز ہی کرنا بہتر ہے ہر حال مین
اسے طلاق مغلّظہ کہا گیا ہے۔
سب سے بہتے طریقہ طلاق دینے کا یوں بتایا گیا ہے
 بیوی جس کو ابھی مہینہ آتا ہے اس کے مہینے ختم ہونے پر جب وہ طاھرہ ہو چکی ہو اور اس کے ساتھ مرد نے ہمبستری نہیں کی ہو اس وقت اسے ایک طلاق دی جائے
 "میں نے تمھیں طلاق دی"
 اس کے بعد بیوی جب تین  مہینے گزر کر جائیں اور  جس روزچوتھا  مہینہ شروع کرے گی تو عدت پوری ہونے پر طلاق مکمل ہوگی

 اگر خون نہیں آتا تو تین ماہ مکمل ہونے پر عدت ختم ہوگی

Friday, September 24, 2010

ایک ای میل کسی کی

                                      ساجد صاحب نے- خوب لکھا ہے
دو نوجوان  سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ  کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص  کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں یا عمر  یہ ہے وہ شخص!
سیدنا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ   ان سے پوچھتے ہیں ، کیا کیا ہے اس شخص نے؟
یا امیر المؤمنین، اس نے ہمارے باپ کو قتل  کیا ہے۔
کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟ سیدنا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ پوچھتے ہیں۔
سیدنا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں، کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟
وہ شخص کہتا ہے : ہاں امیر المؤمنین،  مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ۔
کس طرح قتل کیا ہے؟ سیدنا عمر پوچھتے ہیں۔
یا عمر رضی اللہ تعالی عنہ، انکا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے  ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔
پھر تو قصاص دینا  پڑے گا، موت ہے اسکی سزا۔  سیدنا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں۔
 
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں، نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کسقدر  شریف خاندان  سے ہے، نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی  معزز قبیلے سے تو نہیں، معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کو مطلب ہی کیا ہے!! کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر  رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے  پر عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کو  روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ  قاتل کی حیثیت سے آ  کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
 
وہ شخص کہتا ہے ا ے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس  جانے دیجیئے تاکہ میں انکو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا۔
سیدنا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء  میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو  ایسا نہیں ہے جو اسکا  نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے، خیمےیا  گھر  وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔
کون ضمانت دے اسکی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا  زمین کے ٹکڑے  یا کسی اونٹ کے سودے  کی ضمانت کا معاملہ ہے؟  ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔
اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے اعتراض  کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔
محفل میں موجود  صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود عمر  رضی اللہ تعالی عنہ  بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت  نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں؟  یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا  جائے؟  واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!
خود سیدنا   عمر رضی اللہ تعالی عنہ  سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں  ہیں اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، معاف کر دو اس شخص کو۔
نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔
عمر رضی اللہ تعالی عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ، اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے؟
ابو ذر غفاری  رضی اللہ تعالی عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔
چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذر  رضی اللہ تعالی عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔
عمر رضی اللہ تعالی عنہ: جانتے ہو اسے؟
ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ: نہیں جانتا اسے۔
عمر رضی اللہ تعالی عنہ: تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟
ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ: میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔
عمر رضی اللہ تعالی عنہ: ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔
امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کیلئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے،  اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر  واپس آنے کیلئے۔
 
اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر  رضی اللہ تعالی عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت  شہر میں  (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔
ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
کدھر ہے وہ آدمی؟ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سوال کرتے ہیں۔
مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین، ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ مختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا  ہونے جا رہا ہے؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا  مانگیں تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کر دیں، لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں  اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
مغرب سے چند لحظات پہلےوہ شخص آ جاتا ہے، بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔
عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا!
امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو  پرندوں کے چوزوں کی طرح  صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوذر کی طرف رخ کر کے پوچھا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ، تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی؟
ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے عمر رضی اللہ تعالی عنہ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔
سید عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، اے امیر المؤمنین، ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔
 
سیدنا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو انکی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔
اے ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔
اور اے شخص،  اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔
محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے محمد سلیم کو، جس نے ترجمہ کر کے اس ایمیل کو اپنے احباب تک پہنچایا۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دینا انکو بھی، جن کو یہ ایمیل اچھی لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں ۔ آمین یا رب العالمین۔

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, September 12, 2010

عید مبارک

 میں اعتکاف کے بعد واپس آیا ہوں
 اللہ سب مسلمانوں کی تمام عبادتیں قبول کرے آمین
 یہ سخت الفاظ ایک ہندو شاعر کے ہیں لیکن رجوع کے لائق ہیں ملاحظہ کیجئے-- پنڈت شنکر دیال شرما-

                                       قرآن
عمل کی کتاب تھی
دعا کی کتاب بنا دیا
سمجھنے کی کتاب تھی
پڑھنے کی کتاب بنا دیا
 زندوں کا دستور تھا
مردوں کا منشور بنا دیا
جو علم کی کتاب تھی
اسے لاعلموں کے ہاتھ تھما دیا
 تسخیر کائنات کا درس دینے آئ تھی
 صرف مدرسوں کا نصاب بنا دیا
 مردہ قوموں کو زندہ کرنے آئ تھی
 مردوں کو بخشوانے پہ لگا دیا
 اے مسلمانوں یہ ہم نے کیا کیا---ذرا سوچئے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, August 29, 2010

رمضان المبارک کا آخری عشرہ

 اللہ تبارک و تعالےا کی بےشمار نعمتوں مین سے یہ ایک انوکھی نعمت ہے یہ تو درست ہے کہ ہر مسلمان آبادی میں جب مسجد قائم ہو چکی ہو  تو اس آبادی کے لئے اعتکاف ایک فرض کفایہ بن جاتا ہے  لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ اس موقعہ پر "دنیا" سے دس روز کی 'چھٹّی' لے لیتے ہیں- یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ اپنے کاموں سے دو ہفتے کی ہالیڈے بناتے ہیں دوسرے یہ بھی ہے کہ اس عمر میں ان باتون کا زیادہ خیال آتا ہے  اس طرح کا پروگرام اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی ہے ہمارے ایک مالی صاحب، جن کا نام اوسارنیوتھا سل مین ایک ماہ عموما" فروری مین ایک 'ریٹریٹ' لیا کرتے تھے اور بعد میں میرے ایک عیسائ ساتھی کو بھی میں نے ایسا کرتے دیکھا ہے
تو اب آپ سے میں دو ہفتوں کی رخصت لینا چاہوںگا تب تک کے لئے خدا حافظ


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, August 24, 2010

مسلمانوں کے لئے رمضان کی برکتیں

  آںحضور صلّ اللہ علیہ و سلّم کے فرمان کے مطابق اس ماہ کا پہلا عشرہ 'رحمت'، دوسرا 'مغفرت اور تیسرا آگ یعنی جہنّم سے نجات  شمار کیا جاتا ہے
 ہم اب دوسرے عشرہ میں داخل ہو چکے ہیں اس لئے خوب استغفار کی دعاءیں ماںگنی چاھیئں۔ 
 بچپن میں ایک وظیفہ یا ذکر سیکھا تھا وہ حال ہی میں مجھے یاد آیا اور اس پر میں نے عمل شروع کر دیا آپ کو پسند آئے تو آپ کو اختیار ہے
 جو مجھے یاد پڑتا ہے وہ یوں ہے کہ ہمارے ورنیکلر فائنل کے امتحانوں کے دن تھے ہمارے استاد ایک ماسٹر تھے جن کا نام اللہ بخشے مولوی احمد دین تھا ان کا اپنا دعوہ یہ تھا کہ وہ میرے والد کے شاگرد بھی تھے۔ خیر  ہندو اور سکھ بچّوں کو تو اپنے مذہب کے مطابق کرنے کی تلقین تھی مگر ہم مسلمان بچّوں کو انھوں نے یوں ہدایات دی تھیں کہ یہ ذکر یاد کرو اور ہر نماز کے بعد اور ذکر جو ہم سیکھ چکے تھے اس کے ساتھ یہ بھی گیارہ بار پڑھنا ہے

استغفر اللہ ربّی من کلّ ذنب و اتوب الیہ و اسءلہ التّوبہ'
  اب مجھے یہ نہیں معلوم یہ کہاں سے نقل کی گئ ہے
 کیا زمانہ تھا استادوں کا اب کہاں  ایسے ٹیچر میتے ہیں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, August 19, 2010

سندھ کے لٹیرے اور سیلاب پاکستان

 جب شروع میں پاکستانی سیلاب کی خبریں آئیں تو میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ اب لٹیروں کی عیش ہے لوگ لٹے پٹے گھروں کو چھوڑ کر نکلیں گے اور یہ بدمعاش ان گھروں میں گھس کر سامان لوٹیں گے پہلی بار سیلاب کی خبریں ۱۹۴۸ میں سنی تھیں جب لاھور میں  یہی دیکھا تھا اس وقت یہ سن کر میں بہت حیران ہوا تھا کہ لوگ اتنے بے شرم اور شیطان کے چیلے بھی ہو سکتے ہیں اس کے بعد جب بھی سیلاب آئے ہیں یہی خبریں سننے میں آئ ہیں یہ پتھر دل اور شقی القلب لوگ سوائے مال کی حوس کے اور کچھ نہیں جانتے اپنوں سے بات ہوئی تو معلوم ہئوا کہ لوگ کرائے کی کشتیاں لیکر لوٹنے جاتے ہیں اور مال اکٹھا کرتے ہیں لیکن سندھ میں تو حد ہی ہوگئ ہے وہ ان قافلوں پہ باقاعدہ ڈاکہ ڈالتے ہیں اور بندوقوں وغیرہ کے زور پر پیدل لوگوں سے مویشی بھی چھین لیتے ہیں اور جو ٹرکوں یا دوسری گاڑیوں میں جا رہے ہوتے ہیں ان سے بھی زیور اور نقدی لوٹتے ہیں

 یہ کیسے مسلمان ہیں اور کیسے بے درد انسان ہیں ادھر لوگ سیلاب کی آفت سے مجبور ہو کر نکلتے ہیں گھر ویسے برباد ہئوا ہے اور اب سامان بھی گیا نقدی بھی گئ غریبوں کے مویشی بھی گئے ان شیطان کے چیلوں نے اپنا ظلم شروع کر رکھا ہے وہ جو اللہ تعالےا نے سورہ والتّین میں کہا ہے یہ    اسفل سافلین'  لوگ ہیں
 انسان کس حد تک گر جاتا ہے سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, August 11, 2010

رمضان مبارک

اس ماہ مبارک کی آمد پر اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں
عرض کیا ہے    
  آ گئیں ساعتیں برکتوں رحمتوں والیاں آمد ماہ رمضان ہے
یہ فرشتے پکارے اٹھو مومنو-لوٹ لو برکتیں ماہ رمضان ہے
   اسی ماہ کی ساعتوں میں اتارے گئے تھے خدا کی طرف سے صحیفے تمام
  اسی ماہ کی ساعتوں مین اتارا گیا عرش سے پاک قرآن ہے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Monday, July 19, 2010

اولاد کی بہتری

 سب سے پہلے تو یہ کہنا ہے کہ مغرب میں ڈیرہ اختیار کرتے ہوئے یہ سوچا تھا کہ یہیں شادی کر کے رہ جائیں پھر شادی کے بعد دو دماغ اکٹھے ہو گئے--یہاں جو آسانیاں ہیں انھیں چھوڑنا مشکل ہے کئی دوست جو ہمّت کر کے پاکستان گئے بھی ان مِن سے اکثر واپس آگئے--پھر جب بچّے ہوئے تو سوچا ان کی تربیت کہاں بہتر ہوگی بہت کچھ سوچنے پر یہی اندازہ لگایا کہ اب جو ہو سو ہو ان کی تربیت یہیں بہتر ہو گی پاکستان میں اب اتنی ہی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں جن سے ہم ڈرا کرتے تھے
 پھر پڑھا نے لکھانے کے بعد بچّے بڑے ہوئے تو ان کی شادیوں کا وقت آیا ان کے لیئے پاکستان سے لایا جائے یا یہاں ہی ڈھونڈا جائے بچّوں نے اس میں ہماری مدد کر دی کہ یہیں ڈھونڈا جائے تو اب ان کی شادیان یہیں مگر پاکستانیوں میں کر دی گئیں اب ہم سوچتے ہیں کیا ہم نے ان کے لیئے بہتر کیا؟ یہ تو اب وقت ہی بتائے گا ہم نے اپنی سی کوشش کر دی انھیں پاکستانی تہذیب اردو پنجابی وغیرہ سے تعارف کرا دیا اب وہ کہاں تک اپنی اولادوں کو اس تہذیب سے بہرہ ور کریں گے یہ ہمارے بس میں نہیں اتنا ضرور ہے کہ ایمان اور اسلام سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں اس کا اہتمام رکھّا ہے آگے اللہ تعالےا کی مرضی اور منشا ہے ایسے موقعے پر ابراہیم علیہ السلام کی دعا یاد آتی ہے جو انھوں نے اپنی اولاد کے لئے کی تھی کہ ایمان اور اسلام ہاتھ سے نہ جائے  اور تمام اولاد میں اللہ کی پرستش ہی باقی رہے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, July 10, 2010

بشیر کھوکھر کی کہانی

مرحوم میرا تقریبا" ہم عمر تھا
ککرالی اسکول ھمارے گائوں سے کوئ میل بھر ہوگا مختلف گائون سے سیکڑوں بچّے میل میل اور دو یا چار میل تک سے پیدل وقت پر اسکول پہںچتے تھے ان بچّوں کا روزانہ کا یہی معمول تھا صبح صبح ٹولیوں مین ہںستے کھیلتے  بچّے ککرالی گائوں کی طرف جاتے نظر آتے تھے اسی ایک ٹولی میں میں بھی تھا۔ہمارے گھر کے تقریبا" سامنے بثیر کھوکھر کا گھر تھا اور اس سے ذرا آگے جان یعنی رمضان کھوکھر کا چنانچہ ہم تین اور دوسرا میرا قریبی دوست بشیر-جو بعد میں ڈاکٹر بشیر بھٹّی کہلایا-  دوسرے محلّے سے آ ملتا تھا دونوں بشیر اور جان مجھ سے دو سال پیچھے تھے دونوں بشیر ذہین تھے
بشیر کھوکھر کا باپ گجرات پنجاب بس کا ٹکٹ کلکٹر تھا جنھین گجرات یا کہیں بھی جانا ہوتا تھا سب اس پہ ہی بھروسہ رکھتے لوگوں کی بھیڑ میں سے ٹکٹ کٹوانا اتنا آسان نہیں تھا
 بشیر سے چھوٹے دو اور لڑکے تھے صابر اور "فیکا" یعنی رفیق۔ بشیر ذرا لنگڑا کے چلتا تھا  آٹھوین تک پہںچتے پہںچتے مزید کمزوری کی وجہ سے بلکل چلنے سے معذور ہو گیا میں میٹرک پاس کر کے لاہور چلا گیا جب میں نے ایف ایس سی پاس کی اس وقت تک وہ پلنگ پر پڑگیا
 جب تک میں میڈیکل کالج داخل ہئوا وہ اٹھنے بیٹھنے سے بھی رہ گیا ان سب باتوں کے باوجود میں جب اسے ملتا اسے پہلے کی طرح ہی ہںس مکھ پاتا وہ یا سگرٹ یا حقّہ مںہ سے لگاتا اور ہم سب سے اسی طرح باتین کیا کرتا جیسے پہلے کرتا تھا
   اس کا باپ جب چلتا تھا تو اس کی خمیدہ کمر ہوتی اور گردن بھی زیادہ نہیں موڑ سکتا تھا جب میں چوتھے سال میں تھا تب میں نے اس بیماری کا پڑھا انگریزی میں اسے پوکر بیک کہا جاتا ہے
Poker Back-- Ankylosing Spondylitis.
 باپ کے فوت ہونے کے بعد بشیر کی خدمت اس کی مان کیا کرتی مزید کمزور ہوتا گیا مگر جب بھی میں جاتا اس کے چہرے پہ مسکراہٹ ہی دیکھتا سگرٹ بھی اس کی مان دیا کرتی خود نہیں پی سکتا تھا اس وقت تک چھوٹا فیکو میٹرک چھوڑ کے کہیں باہر چلا گیا چھوٹا تھا تو ہمارے گھر میں آتا تھا میری بہنیں اس سے کام وام کرا لیتی تھین تو ان کی گرویدگی حاصل کر لی صابر ہاتھ پائوں کا ٹھیک تھا مگر ذہن کمزور تھا فیکو ذہن کا تیز تھا بشیر کی طرح مگر پڑھائ سے بھاگ گیا۔
کئ سال بعد میں انگلینڈ سے واپس آیا تو معلوم ہئوا بشیر اور اس کی مان بھی فوت ہو چکے تھر صرف صابر گھر میں تھا فیکو کو میری بڑی بہن نے لاہور میں کہیں پکڑا اس کے پاس ٹویوٹا گاڑی تھی  اس نے خاصی آمدنی بنا لی تھی اور غالبا" موٹر سیلز میں تھا
 بشیر کے متعلّق میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ جب وہ اس قابل ہوا کہ اپنی زندگی بنالے تو بیماری نے بستر پہ ڈال دیا سوچتا تھا جیسے میرے اپنے خیالات  احساسات اور تمنّائیں ہوتی تھیں اس کی بھی  ہوتی ہوںگی ان سے کیسے نپٹتا ہوگا اس کے بھی دل میں امنگیں اور ارمان اسی طرح جنم لیتے ہونگے جیسے میرے دل میں اس وقت ہو تے تھے اس کا ٹیڑھا میڑا سا جسم کمزور اور ہڈیوں کا ڈھانچہ سا مگر ذہن صاف تھا اور چہرا اسی طرح ہںستا ہوا
 اللہ اسے جنّت میں بھی اسی طرح ہنستا رکھّے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, June 30, 2010

سرفنگ اور دواڑا یا بھنڈر

 ھمارے گاءوں کے مشرق میں ایک برساتی نالہ ہے نالہ کے اس پار میرے والد مرحوم کا گائوں ہےجسے سہوںترا کہا جاتا ہے میرے گائوں کا نام کوٹلہ ارب علی خاں ہے نالہ تک پہنچنے کے لِئے ایک مختصر جنگل میں سے گزرنا پڑتا ہے اس کو وہاں کی زبان میں 'بیلی" کہتے ہیں نالہ کی چوڑائ تقریبا" سو گز ہوگی گرمیوں کے موسم میں جب بارشیں آتی ھیں اور پہاڑوں پر سے برف پگھلتی ہے تو نالے میں پانی آتا ھے اس کا بہائو خاصا تیز ہوتا ہے اور پانی کا شور الگ ہوتا ہےایسا ہی شور میں نے نیاگرہ میں سنا ہے
 نالے کا نام 'بھنڈر' ہے اور اسے 'دواڑا' بھی کہتے ہیں گدلا پانی اور اس کی تیز لہریں بچّوں کے لیئے کھیل کا سامان پیدا کرتی ہیں ان پہ اسی طرح ٹھیلا جاتا ہے جیسے سمندر میں آپ نےجوان لوگوں کو سرفنگ کرتے دیکھا ہے صرف ہمارے پاس تختے نہیں تھے جب زیادہ تیز لہریں ہوں تو صرف بڑے لڑکے ہی جا سکتے ہیں پہر بہی خطرہ رہتا ہے ڈوب جانے کا
  جب اس نالے مین پانی آتا ہے تو اس "طوفانی" پانی کو پنجابی میں "ھاڑ" آنا کہتے تھے اور "کانگ" بہی کہا جاتا تھا یہ وہی نالے ہے جس کے متعلق میں پہلے لکھ چکا ہوں جب گجرات سے آتے ہوے راستے میں آتا ہے وہ ہمارے گائوں سے دس بارہ میل دور ہے دواڑا پھر گجرات سے بھی آگے جاتا ہے اور پھر ایک اور نالہ "بھمبر" سے ملجاتا ہے اب تو ان پر پل بن چکے ہیں
اتنا پانی ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہمارے گھر مِن اوورفلو ہو کے آ جایے ویسے بھی نالہ کوٹلے کی نسبت نشیب میں ہے


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, June 17, 2010

میرے بلاگ کے استاد-استانیاں

میرے انگریزی بلاگ پر دیکھیے 

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Sunday, May 9, 2010

انگلستان اور زیبرا کراسنگ

ہم نئے نئے انگلستان پہنچے تھے-جی ہاں اپنے لینڈ لیڈی والے گھر سے نکل کرہم نے سوچا لندن کی سیر ہی ہو جاءے تو ٹیوب پکڑی اورکنگز کراس کا ٹکٹ لیکر چل دءے اب ہم کاریں دیکھتے جا رہے تھے یہاں سب کاروں مین باقاعدہ وہ بلنک کرنے والے اشارے لگے تھے یہ یاد رہے کہ لیٹ ففٹیز تک کاروں کے اشارے مختلف ہوا کرتے تھے جیسے سائڈ کھڑکی سے ایک ہاتھ نما ڈنڈا سا نکل آتا تھا اگر دائں طرف والا نکلا تو سمجھو گاڑی دائں طرف مڑنا چاھتی ھے تو یہ بلنکر دیکھ دیکھ کے ہم خوش ہو رہے تھے اب چلتے چلتے سڑک پار کرنے کو کھڑے ہوئے یہاں تو ہر جگہ زیبرا کراسنگ تھی اب جو ٹھرے تو ایک گاڑی ہمارے لیئے رک گئ اندر بیٹھا ہئوا انگریز ہمیں اشارہ کر رھا تھا کہ ہم سڑک پار کریں  اب بھلا یہ کرتسی ہم نے کہاں دیکھی تجی پہلے تو ہماری لکھنوی طبیعت کو یہ گوارا نہ ہئوا  ہم نے اسے اشارہ کیا کہ نھیں پہلے آپ-بھلا پاکستان میں کون ان باتوں کی پرواہ کرتا ہے اور ہم اسی اندازے کو ذہن میں لیئے ہئوے تھے کہ سڑکوں پہ ہر قسم کے جو نشانات بنے ہوتے ہیں وہ بس خوبصورتی کے لئے ہوتے ھیں- خیر۔ تو اس بچارے نے پھر ہمین اشارہ کیا مگر ہم سمجھے کہ یہ تو انگریز ہے اس نے تو تکلّف کرنا ہی ہے مگر ہم بھی نہائت شائستگی کے مالک ہیں آج اسے بتا کے ہی چھوڑیں گے کون زیادہ شائستہ ہے چنانچہ پھر اسے زرا جھک کے مزید اشارہ کیا کہ چلو اب وہ مجبور تھا یہ زیبرا کراسنگ تھی اور وہ ٹھرا ھئوا تھا اب نہ معلوم کے بار یہ پہلے آپ چلتا رہا ہو گا آخر وہ تنگ آکر چل ہی دیا اور ہم خوش - شائستگی میں ہم نے پہلا میدان مار لیا کیا یاد کرے گا انگریز بھی

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, April 29, 2010

موںھ بولی بہنیں

 پیشاور یونیورسٹی ابھی نئ بنی تھی تمام رھائشی بںگلے خوبصورت بنائے گئے تھے اور کشادہ ہوادار قسم کےیعنی بڑی اچھّی پلیننگ کی گئ تھی یہ سارے یونیورسٹی کے سٹاف کے لیئے تھے چنانچہ پی ٹاءپ بنگلے پروفیسروں کے، آر ٹائپ اسسٹنٹ پروفیسروں کے ایس ٹائپ سینیئر لیکچرار اور جے ٹائپ جونئر لیکچرار کے لیئے بنائے گئے تھےچوںکہ
ہمارا درجہ سینئر لیکچرار کا تھا تو ہمارے لیئے نمبر ۲۰ یعنی ایس ٹونٹی بنگلہ الاٹ کیا گیا تھا
ایس ٹونٹی ھمارے کاموں یا کارستانیوں کی وجہ سے اپنا نام پیدا کر گیا۔ اس وقت ھم چار ڈاکٹر منچلے بن بیاہے وھاں رہتے تھے صرف ایک کی شادی ہوئ اور وہ باقاعدہ پشاور صدر میں رھائش کے لیئے چلے گئے ھمارے پڑوس کا بنگلہ نمبر ۲۱ یعنی ایس ٹونٹی ون تھا جہاں اس وقت تین لڑکیاں اور ان کی امّان جان رہتی تھیں آمّاں جان کو دل کی تکلیف تھی اور ان کی دوائوں وغیرہ کا میں نے خیال رکھنا شروع کر دیا تھا۔ بڑی لڑکی کالج میں سینئر لیکچرار تھی اس سے چھوٹی ایم اے انگلش کی طالبہ اور اس سے چھوٹی ہائ سکول میں تھی ان کے ہاں جب کچھ اچھّی چیز پکتی تو ہم سب کو بلایا جاتا اس طرح ہم سب ان لڑکیوں کے موںھ بولے بھائ اور وہ سب ھماری موںھ بولی بہنیں بن کئیں
 ماشا اللہ بڑی طرح دار سمجھدار اور نہائت شائستہ تھین ان کے والد مشرقی پاکستان کی گورنمنٹ میں بڑے عہدے پر فائز تھے ھم سب ان بہنوں کا اسی طرح خیال رکھتے تھے جیسے وہ ہماری اصلی بہنیں ھوں چنانچہ جب بڑی بہن کی شادی ھوئ تو تمام انتظامات ھمارے ہی ہاتھوں میں تھے حتّی ا کہ شادی سے پہلے امّان جان نے ہمیں ہی دولھا میاں کو دیکھنے بھیجا تھا جو ماشا اللہ اس وقت لاء کالج میں وائس پرنسیپل کے عہدے پہ تھے یوں ھم نے ھر طرح کی کوشش رکھی کہ لڑکیاں باپ کی غیر موجودگی نہ محسوس کریں دو سال یا اس سے کچھ اوپر ہم نے اس طرح گزارے تھے اور ان بہنوں کی یاد دل میں رہ گئ ہے
ایک بہن اس وقت امریکہ میں تھی اور اس کے آنے کے بعد ہی شادی مکمّل ہوئ تھی اتنا یاد ہے کہ آنے سے پہلے اس نے امّی کو تار دی تھی کہ اس کے لیئے دال بنا کر تیّار رکّھین ان دنوں دیسی کھانے امریکہ میں بھلا کہاں ملتے ہوںگے ان بہنوں کی دو باتیں  انہیں ممیّز کرتی تھیں ایک یہ کہ سب کی سب لاںبے قدوں کی مالک تھیں اور دوسرے یہ کہ انہیں اچھے رنگوں کے کپڑے پہننے کی تمیز تھی اللہ سے دعا ہے جہاں بھی ھیں انہیں خوش اور آباد رکّھے
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, April 1, 2010

سگرٹ، اشتہار اور آپ کی صحت

سر زمین امریکہ میں حکومت امریکہ کے سرجن جنرل نے جب سگرٹ کے اشتہاروں کو ممنوع قرار دیا تو سگرٹ نوشی پہ خاطر خواہ اثر دیکھا گیا تھا لیکن مشرق وسطی ا اور پاکستان بھارت وغیرہ میں اسی طرح اشتہار بازی چلتی رہی اس کے بعدامریکہ میں وہ خبر بھی دیکھی گئ کہ وہ آدمی جو امریکہ میں سگرٹ کے اشتہار میں دیکھا گیا تھا اس کی موت پھیپھڑوں کے سرطان  سے واقع ہوئ خیر جو ہوا سو ھوا مگر پھر مزید سگرٹون کے استعمال میں کمی دکھائ جانے لگی مثال کے طور پر اب جو فلمیں وغیرہ بنائ جاتی ھیں خصوصا" اس ملک میں ان میں ایکٹر اور ایکٹرسیں سگرٹ پیتے نہیں دکھاتے
 ان تمام باتوں کا مجموعی اثر کہاں تک ہئوا ہے اس کا کوئ مکمل تجزیہ ابھی تک میری نظر سے نہیں گزرا ہماری اسلامک میڈیکل اسوسیاشن میں ایک صاحب نے قریبا" بیس سال پہلے ایک سٹیٹسٹیکل تجزیہ پیش کیا تھا اس مین یہ بات خصوصا' قابل تذکرہ ہے کہ انھوں نے پاکستان اور مشرق وسطی ا کے تمام کھیلوں مین سگرٹ کے اشتہار بہت جلی حروف میں دیکھے جاتے تھے اور امریکہ میں جو کمپنیاں مقامی اشتہار نھین نکال سکتی تھین وہ اپنا سارا سرمایہ  ان ملکوں میں کھیلوں پر اشتہار بازی میں لگا رہی تھیں
 اب جو یہ خبر دیکھی کہ پاکستان میں جناب اعجاز جخرانی صاحب نے مشورہ دیا تھا کہ سگرٹوں کی فروخت پر زیادہ ٹیکس لگایا جائے اور اس آمدنی کو صحت عامّہ  پہ خرچ کیا جائے تو بہت افسوس ہئوا ممکن ہے اس مشورہ کو واپس لیا جائے مگر اس حقیقت سے اغماض نھیں کیا جا سکتا کہ کھیلوں کے تماش بینوں میں سگرٹ کا استعمال واقعی حد سے زیادہ ہے میرے ناقص خیال میں اس طرف توجّہ دینی چاہئے کہ سگرٹ کے بجائے وہ لوگ اور کس چیز کا استعمال کر سکتے ہیں میرے ثہن میں گنڑیریاں آتی ھیں اور مونگ پھلی  وغیرہ بھی۔۔۔۔۔ آپ کا کیا خیال ہوگا؟

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, March 23, 2010

یوم پاکستان

 مجھے ایسے دنوں میں اپنا پرانا پاکستان بہت یادآتا ھے جس کے ماتم میں یہ اشعار جناب مشیر کاظمی مرحوم نے تحریر فرمائے

 پھول لیکر گیا آیا روتا ہوا-- -بات ایسی ھے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا-- یہ چمن مجھکو آدھا گوارا نہیں
چند ہاتھوں میں گلشن کی تصویر تھی-- چند ہاتھوں میں آئنے ٹوٹے ہوے    
 سب کے دل چور تھے سب ہی مجبور تھے--بیکسی وہ کہ تاب نظارا نہیں   
 شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ--- تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
 خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی--روح قائد بھی تھی سر جھکائے ہوئے
کہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہو گیا
یہ تصوّر تو ھرگز ھمارا نہیں
 سرنگوں قبر پر تھا منار وطن--کہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر--کیسے قائم ہئوا یہ حصار وطن
کچھ اسیران گلشن تھے حاضر وہاں-- کچھ سیاسی مھاشے بھی موجود تھے
چاںد تارے کے پرچم میں لپٹے ہوئے-- چاںد تاروں کے لاشے بھی موجود تھے
میرا ہںسنا تو پہلے ہی اک جرم تھا
میرا رونا بھی ان کو گوارا نہیں
 کیا فسانہ کہوں ماضی وحال کا---شیر تھا ایک میں ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی-- ایک شاہیں تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو اڑتا ہوں میں آجکل
دوسرا دشمنوں کو گوارا نہیں
یوں تو ہونے کو گھر ہے سلامت رہے-- کھینچ دی گھر میں دیوار اغیار نے
ایک تھے جو کبھی آج دو ہوگئے--جیسے کوئ بھی رشتہ ہمارا نہیں
کچھ تمھاری نزاکت کی مجبوریاں-- کچھ ھماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبّت کے خود راستے--اس طرح ھم میں ہوتی گئی دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تیری رسواِئیاں بھی گوارا نہیں
اس چمن کے ہیں بلبل ستائے ہوئے--اس چمن کے بھی بلبل ستائے ہوئے
آج شاخ و شجر بوئے صحن چمن--باغبانوں سے ہیں خوف کھائے ہوئے
وہ نہ زندوں میں ہیں اور نہ مردوں میں ہیں-
-ایسی موجیں ہیں جن کا کنارا نہیں
وہ جو تصویر مجھ کو دکھائ گئ--میرے خون جگر سے  نہائ  گئ
قوم کی مائوں بہنوں کی جو آبرو--نقشہ ء ایشیا میں سجائ گئ
موڑ دو آبرو یا وہ تصویر دو
ھم کو حصوں مین بٹنا گوارا نہیں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, March 18, 2010

میرا نام اور اس کی مشکلات

 اس میں کوئ شک نہیں کہ میرا نام ذراغیر معمولی سا ہے بحت کم لوگ ایسا نام رکھتے ھیں چنانچہ  انٹرنیٹ پر مجھے صرف ۶ وھاج ملے ھیں ممکن اور بھی ھون لیکن جب امام سراج وہاج سے ملاقات ہوئ اور نام بتایا گیا تو امام صاحب بہت محظوظ ہوئے وہ ہمارے اسلامک سینٹر آئے تھے اور میرے ذمّے ان کا تعارف کرانا تھا
 میری ساری زندگی میں صرف ایک وہاج ملے ہین جو ماشا اللہ حافظ قرآن ہیں اور پچھلے رمضان المبارک میں میرے ساتھ اعتکاف میں تھے ابھی نوجوانی میں ھین
تو جب میں نے شروع شروع میں اپنے نام کے دستخط کرنے سیکھے تو مشکل آ پڑی وہ میرے بینک نے ڈالی۔ میں جب اپنا چیک لکھوں ان کا دستخط ایکسپرٹ اس کو ردّ کر دے حتی ا کہ ایک دن میں نے اس کے سامنے بیٹھ کر تین دستخط کیئے وہ حیران رہ گیا  کہنے لگا کمال ہے تینوں ایک دوسرے سے نہیں ملتے تو میں نے اس کے سامنے ایک اور دستخط پیش کیئے ان دنوں ایک صاحب ڈبلیو زیڈ احمد لکھاری کا نام مشہور تھا ان کی وجہ سے میں نے اپنا نام ڈبلیو ڈی احمد لکھ کر دستخط کیئے تو ان ایکسپرٹ صاحب نے مجھے پاس کیا
 لیکن انگلینڈ آیا تو ایک مصیبت اور آپڑی۔ میرے سرٹیفکیٹ سارے وہاج الدین  کے نام سے تھے اور پاسپورٹ پر وہاج الدین احمد لکھا تھا میڈیکل کونسل نے مجھے ثبوت مہیّا کرنے کو کہا کہ میں وہی وہاج ہوں بڑی مشکل سے ایک ماہ کی بحث کے بعد وہ مانے اور تب میں کہیں جاب لینے کے قابل ہوا
امریکہ میں بہت کم لوگ مجھے وہاج بلاتے ہیں عموما" احمد ہی بلاتے رہے ہیں میری بڑی آپا اللہ بخشے مجھے پیار سے وہاجوننا بلاتی تھیں اس لئے آپ کو نیچے ایسا لکھا ہوا نظر آ رہا ہے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, March 10, 2010

تقسیم وراثت اور عاق کرنا

پہلے تو اللہ تعالی ا نے سیدھا سا حکم دیا کہ اپنا ترکہ وراثت کے حقدار رشتہ داروں  میں باںٹو مگر پھر اللہ نے خود قریبی لوگوں کے حصے بیان کر دئے کہ انسان اپنی مرضی میں حق کا خیال نہیں رکھتا چنانچہ بیوی بچّوں وغیرہ کے حصوں کا الگ حکم رکھ دیا
اس کے باوجود لوگ اپنے بچوّں کو "عاق" کر دیتے ہیں اور سمجھتے ھیں کہ کہ اس طرح بچّے کو اس کی جائداد میں سے کچھ نہیں ملے گا لیکن یہ دنیاوی قانون اللہ کے قانون کو نہیں مٹا سکتا اور اگر اس کا ترکہ ہے تو اس میں "عاق" کیا ہوا بچہ اپنا حق رکھتا ہے اگر اسے اس کا حق نہ دیا گیا تو نہ دینے والے گنہگار ھوں گے اور قیامت کے روز وھ اپنا حق مانگے گا اور اللہ اسے دلوائے گا 

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, March 9, 2010

نا راضگی اور اس کے نتائج

حدیث میں ھے کہ مومن کو مومن سے تین دن سے زائد ناراض نہیں رہنا چاھئے
یہ درست ھے کہ ساتھ رہتے ہوئے دو انسانوں میں کبھی اوںچی نیچی بات ہو ہی جاتی ھے دوستی رفاقت اور ملنا جلنا مسلمانوں میں اتفاق اور یکجہتی کا سبب ہوتا ہے
 یہی چیز خاندان کے اندر اور بھی مظبوط ہونی چاہئے تو اس کے لئے اللہ نے قطع رحمی کو حرام قرار دے دیا۔ مگر عام دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ لوگ دوستوں سے تو پھر بھی کچھ تعلق قائم کر لیتے ہیں بات آئ گئ ہو جاتی ہے معاف کر دیا جاتا ہے لیکن اپنے رشتہ داروں میں جب ایسی بات ہو جائے تو عمر بھر کا طعنہ بن کے رہ جاتی ہے اور کوئ فریق دوسرے فریق کو معاف کرنے پہ آمادہ نہیں ہوتا
اللہ تعالی ا نے اس رشتے کی قوت بڑھانے کے لئے سو بہانے اور طریقے رکھے ہیں مگر اکثر گھرانوں میں {میرے اپنے گھرانے سمیت -ان کا اثر نظر نہیں آتا میرے دیکھنے میں ایک اور بات یہ بھی آئ ھے کہ ناراض شدہ کے بچوں میں یہی ناراضگی بغیر وجہ جانے چلتی رہتی ہے اور خواہ مخواہ دوری کا سبب بن جاتی ہے عام نکاح خواں ایک آیت ضرور پڑھتے ہیں سورہ نساء کی پہلی والی جس میں اللہ نے رحم کے رشتہ جوڑنے کا ذکر کیا ہے اس سے مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم کہنے کو تو کہ لیتے ہیں کہ ھاں میں مسلم ہوں مگر اپنی خواھشات کو اللہ کے حکم پر ترجیح دئے جاتے ھیں تو پھر کیا ہم نے واقعی اپنی خواھشات کو اللہ کے حکم کے تابع کر دیا ہے؟ --


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Saturday, March 6, 2010

میرے سردار دوست

عموما" سرداروں کے لطیفے لکھے جاتے ھیں لیکن یہ ایک بہادر اور وٹی قوم ھیں میرے دوست اپنے میڈیکل کالج کے بیسٹ گرایجوایٹ تھے میرے ساتھ کچھ دن انھوں نے گزارے جو میرے انگلستان کے یادگار دنوں میں سے ھیں ان کے ھمراہ ایک روز میں ان کے ایک سردار دوست کو ملنے گیا، دونوں ماشا اللہ اپنی مخصوص پگڑیوں میں تھے
ان  کے دوست ان سے یوں ھمکلام ہوئے  
                    جی کی پیو گے؟
جو مرضی پلا دے یار متّ ای مارنی اے

  اتنی پنجابی تو سب کو سمجھ آسکتی ھے اس لیئے اردو ترجمہ نھیں کر رہا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, February 23, 2010

امریکی بلّیوں کے خواب


بچپن مِن جب میں ساگر میں تھا تو گھر کے لئے گوشت لینے کو مجھے ہی بھیجا جاتا تھا جامع مسجد کے پیچھے اب تو بڑا بازار اور شاپینگ سینٹر ہے پہلے وہاں قصائیوں کی دکانیں تھیں جو باریک جنگلے کے اندر رکھیں گئ تھین تاکہ مکھیان اندر نہ آسکیں مگر وہ حلا ایسی رکاواتون سے کیا رکیں گی خیر میں گوشت لینے وہاں جاتا تھا اور مجھے یاد ہے کہ چھیچھڑے
الگ ملتے تھے وہ میں اپنے گھر کی بلّی کے لئے لاتا تھا وہ بلّی ایک 'ضرورت؛ کے لئے تھی تاکہ چوہوں کو پکڑا جاسکےوہاں چوہون  کے علاوہ بلّیاں چھیچھڑے ہی پسند کرتی ہیں
اب آپ جانتے ھی ھیں کہ ہندوستان پاکستان وغیرہ میں جو بلّیان رھتی ھیں ان کو تو خواب میں چھیچھڑے نظر آتے ھیں میں
 حیران  ہوں اس بات پہ کہ یہاں یعنی امریکہ میں بلّیاں اپنے
خوابوں میں کیا دیکھتی ھیں؟
سٹوروں مین تو میں نے کہیں چھیچھڑے بکتے دیکھے نہیں مگر اور بھت کچھ ہے بلکہ
اتنی بھرمار ھے قسم قسم کے کھانوں کی ان شہزادیوں کے لیئے کہ اگر میں خود بلّی ہوں تو خود ہی حیران ہوجائوں کیا پسند کروں؟  کیٹ چائو یا ایئمز یا اور اتنی اچھی اچھی مزیدار اور ھر قسم کے گوشت سے بنائ ہوئ چیزیں سمجھ میں نھیں آتا کیا کھانا پسند کروں
تو سوال یہ ہے کہ امریکی بلّی خواب میں کیا دیکھتی ھے؟


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, February 10, 2010

سرزمین امریکہ

ان دنوں پین ایم چلتی تھی نیو یارک اترے تو موسم کی خرابی کی وجہ سے سنسناٹی کی فلائٹ کینسل ہو گئ اور مجھے رات جے ایف کے پر ہوٹل میں گزارنی پڑی
نیا "ھالیڈے ان" تھا اور ۱۸ ڈالر ایک رات کے دئے یہ  جنوری ۶۹ کی بات ھے
آتے ہوئے جہاز پر دل میں ھزاروں خیالات چل رھے تھے اس وقت یہ لکھا تھا
نئے سورج کی آمد ھے افق پر ھے نظر میری
خدایا زندگانی میں مری کچھ روشنی کر دے
 بڑے ارمان اور حسرتین اور نہ معلوم کیا کیا دل میں مکسچر لیکر امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھا تھا آتے ھی مجھے محسوس ہوگیاتھا کہ جلد ھی اپنی محبوب لائن مین جگہ مل جائے گی یعنی نیورالوجی کی امّید بندھ گئ تو اس کے بعد شادی کا مسئلہ کھڑا ہونا ھی تھا اس سلسلے میں اپنی بہنوں سے مدد ماںگی دونوں انگلینڈ میں تھیں اور ان کی مدد سے اپنی ریزیڈنسی ختم ہوتے ہوتے یہ معاملہ بھی طے ہوگیا  اور پھر
                      'سب ھںسی خوشی زندگی گزارنے لگے

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Tuesday, February 2, 2010

انگلستان کا سفر-- ۱۳ اکتوبر کی تحریر کے بعد

وہ تمام مشکلات جو اس وقت پاکستان چھوڑنے پر نوجوان پروفیشنلز خصوصا" ڈاکٹرون کواٹھانی  پڑتی تھیں وہ سب اٹھائِن اور پاکستان چھوڑا اس خیال سے کہ پھر واپس آنا ھے چنانچہ بجائے ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ کی کلاسوں کے ھم نے سرجیکل ھاءوس جاب ڈھونڈنی شروع کی
سعید لندن کے شمال میں سینئر ھاءوس سرجن تھا میں سیدھا اسی کے پاس آیا تھا اور بغیر اسے اطلاع دئے تو وہ ناراض ہوا جیسا کہ اس کی عادت تھی خیر مجھے دو ماہ لگ گئے
  ابھی جاب نہیں ملی تھی کہ ایک روز ٹیوب میں سفر کرتے ہوئے ڈاکٹر بدر عالم صاحب مل گئے یہ ہمارے ساتھ ہی پشاور سے نکلے تھے ان کے ساتھ مل کے بہت خوشی ہوئ تھی وہ بھی ان دنوں جاب کی فکر میں تھے ان کے ھان چاول مچھلی کھائ اور انھین ایک ترکیب بتائ کیسے جاب مل سکتی ھے ان کے علاوہ سلیم حیات اوردوسرے "ایس ٹونٹی" کے حضرات سے وقتا" فوقتا' ملاقات ہوتی رہی اپنی خاندانی مجبوریوں کی وجہ سے امریکہ جانے سے پہلے ایک سال پاکستان میں گزارا تھا
 فروکی امریکہ سے انگلینڈ آیا تو ھم دونوں گلاسگو میں ایک کورس پہ گئے ستمبر 63 کا زمانہ  تھا وھاں مجھے اطلاع ملی کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا یہ بڑا کٹھن وقت تھا جو فروکی کی مدد سے گزارا۔ بھائیجان معراج کے خط نے بھی سہارا دیا تھا اس کے بعد واپس اپنی جاب پہ آیا
     انگلستان میں رہ کر "بیچ" اور ھالیڈے وغیرہ الفاظ کی سمجھ آئ ورنہ پاکستان میں کہاں ان چیزوں کا پتہ چلتا ہےامّاں جان کے انتقال کے بعد جی کچھ بجھ سا گیا تھا اب شادی  اور سیٹل ہونے کے متعلّق سوچنا شروع کیا مگر نیورالوجی کی دھن جو سوار تھی اس کے لیئے امریکہ جانا پڑا وگرنہ خاصا دل لگ گیا تھا اور تقریبا" جی پی کی جاب لے ھی لی تھی پاکستانیوں کے خلاف جو تعصّب انگلستان میں تھا وہ ایناک پاول صاحب کی وجہ سے بڑھ گیا تھا  چوںکہ نیورالوجی کی جاب کے لیئے جونئر جاب کی ضرورت تھی اس لیئے امریکہ میں جونئر جاب لیکر اللہ کا نام لیکر چل پڑا

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, January 28, 2010

لاہور سے پشاور تک

ھاوئس جاب ختم کر کے سعید انگلینڈ چلاگیا فروکی امریکہ مین اور ظہیر پاکستان میں جاب کے لیئے نکلے۔ ظہیر نے آرمی مین ایپلائ کیا تو میں نے بھی کردیا مگر پشاور میڈیکل کالج نیا کھلا تھا اور وہ گورمنٹ جاب نھیں تھی تو میں نے وہاں بھی درخواست بھیج دی۔ اب خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پشاور والوں نے آرمی والوں سے پہلے بلا لیا تو میں فزیالوجی میں سینئر لیکچرار ہو گیا ظہیر آرمی میں چلا گیا وہ زمانہ خط لکھنے کا تھا تو ھم سب ایک دوسرے کو خط لکھا کرتے تھے پشاور یونیورسٹی نئ بنی تھی اور امریکن طریقہ  یا ماڈل پر بنائ گئ تھی تمام کالجوں اور یونیورسٹی ڈپارٹمنٹس وغیرہ کی بلڈنگز نئ نئ تھیں رہائش کا پروگرام ٹیچرز کے لیئے یوں تھا کہ بنگلے بنائے گئے تھے  پی ٹائپ پروفیسروں کے -آر ٹائپ ریڈر یا اسسٹنٹ پروفیسروں کے ایس ٹائپ سینئر لیکچرر اور جے ٹائپ جونئر لیکچرر کے 
تو اس طرح ھم پانچ چھڑے ڈاکٹر "ایس ٹونٹی" مین آ اکٹھّے ہوے میں عبدالرحمان خالد اظہر اختر اور بعد مین سلیم حیات آکے ملےایک نوکر کھانا پکانے اور دوسرا اوپر کے کام کرنے کو رکھا  گیا یہ دوسرے والے کا نام تھا   کالے خان اور بڑے مزے کا آدمی تھا۔ مثال کے طور پہ- ایک روز ھم لوگ واپس آئے تو دیکھا کہ چھوٹا تالا لگا ہوا ہے کالے خان نے بڑا تالا پیچھے لگایا تھا یعنی ہمارے کہنے کے بالکل الٹ تو پوچھا سامنے کے دروازے میں بڑا کیوں نہیں لگایا
جواب   "کوئ لے جا سی نا جی" اسے یہ فکر تھا کہ بڑا تالا چوری ہو جائے گا
ہم لوگ دیر سے گھر آئیں تو وہ بیٹھا انتظار کرتا تھا کھانا کھلا کے پھر سوتا تھا
 اسے صبح صبح مشکل پڑتی تھی کیوںکہ وہ ٹوتھ پیسٹ اور شیونگ کریم کی ٹیوبز میں فرق نہیں پہچان سکتا تھا تو آپ جان سکتے ھیں کہ ہم اسے نکال تو نھیں سکتے تھے
پشاور شہر میں دو  ڈھائ سال بڑے اچھّے گزرے تھے جہاں کہیں کوئ موسیقی کا پروگرام ہوتا ھم وھاں مدعو ہوتے کچھ اتّفاقات ایسے بن گئے تھے کہ ھمارا نام ایسی مگفلوں میں عام ہو گیا تھا ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پشاور ائر فورس یعنی پی اے ایف میں ایک صاحب میرے جاننے والے جو خود بھت اچھّا گاتے تھے اور ان کی وجہ سے بھی مجھے بڑی آسانی تھی پی اے ایف میں ھارمونیم اور طبلے والے صاحبان بھی انہیں کی وجہ سے ہمیں خیبر میڈیکل کالج کے موسیقی کے پروگراموں کے لئے مل جاتے تھے
کالج میں یہ احساس ہوا کہ ٹیچنگ کے لئے مزید ڈگریوں کی ضرورت ہوگی مگر ایک خرابی یہ تھی کہ پولیٹیکل اور سفارشی ایپوئٹمنٹس ہوتی تھیں جو ھمارے بس کا روگ نہیں تو ڈھائ سال بعد بھاگ لینا ھی بہتر سمجھا مجھے دو سال موقعہ ملا تھا نیورالوجی یعنی نیوروفزیالوجی پڑھانے کا اور میرا نیورالوجسٹ بننے کا پکّا ہو گیا ادھر مجھے اپنی قوّت سامعہ میں بھی کمی محسوس ہو گئی تھی تو آخر پاسپورٹ بنوانے کا پروگرام بھی بنا لیا یہ کوئ آسان کام نہیں تھا ایک پورا سال لگا بنواتے ہوے وہ بھی قصّہ لمبا ہے مگر صرف اتنا لکھوںگا کہ اس کے بعد میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ کبھی کسی کلرک کو مونہ  نہیں لگاءوںگا اللہ بچاءے ان دفترون سے اور اور ان کے کلرک طبقہ سے اس دوران میں طریقہ یہ بنایا کہ ڈی ٹی ایم ایچ میں داخلہ لیا اس سے کچھ پاءنڈ ملنے کی درک لگی کیونکہ  باہرجانے کا اور کوئ بہانہ نہیں تھا نو ابجیکشن سرٹیفکیٹ کے لئے کراچی میں کئ دن ٹھرنا پڑا خیر وہ سب اب تو بھول چکا ہوں خدایا کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے تھے
چلیئے اب ھم آپ کو انگلستان لے چلتے ھیں۔

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, January 21, 2010

ہاءوس جاب میو ہسپتال لاہور

ایم بی بی ا یس پاس کر کے ایک سال ہاءوس جاب کا لگایا جاتا ہے میں ظہیر فروکی اور سعید مع اور حضرات کے اکٹّھے تھے سعید کا ایک کزن چلڑرن وارڈ میں داخل  ہوا گیارہ سال کا لڑکا بھلا کیا جانتا ھے مگر اس کی باتیں ابھی یاد ھیں اسے لیوکیمیا تھا اور دن گنے جا چکے تھے میں ظہیر اور سعید اور سعید کے انکل سب اس کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے خون کی بوتلیں چڑھائ جاتیں لیکن کب تک اور آخر وہ دن آ گیا۔ ساںسیں اکھڑنے والی تھین ھم اس کے بستر کے گرد بیٹھے تھے اس نے باپ سے کہا سورہ یاسین پڑھیں وہ آںکھوں میں آنسو لیئے پڑھتے جا رہے تھے اور بچّے کی آںکھیں بند ہوتی جا رہی تھیں ھم سب کی آنکھوں میں آںسو تھے اور اس طرح اس نے داعیء اجل کو لبّیک کہا یہ لمحہ مجھے اسی طرح یاد ھے جیسے اس وقت تھا اور صرف اس لیئے اس کو قلمبند کرنا چاھا اور لاہور کے متعلّق بہت کچھ لکھا جاسکتاہے مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں


Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Monday, January 18, 2010

کے ای ایم سی ۔ نمبر۲

مزید تصویر پہلے جما لوں پھر لکھوںگا

پٹیالہ بلاک کالج کا دفتر ھے جس کی عمارت کو ھم "کالج" کی عمارت کے طور پر سمجھتے ھیں دوسری تصویرایک چھوٹے سے گراونڈa کی ھے جس میں بائیں طرف ایک پگڈنڈی سی ھے جو پٹیالہ بلاک سے باقی کے بلاکس کو جارہی  ھے کچھ منچلے اس کو "لورز لین" کہ کر اپنا جی خوش کر لیتے ھیں ورنہ اس میں کوئ ایسی خوبی نھیں تھی سامنے بلڈنگ فارماکولوجی کا بلاک ھے ۱۹۶۰ میں بہت سے پروگرام اسی گراونڈ میں ھوے تھے دوسری بلیک اینڈ وہاِٹ تصویر اعجاز احسن کی لی ھوئ ھے--جی اعتزاز احسن کے بھائ ھمارے کلاسفیلو اور نمبر دو بیسٹ گراجوءیٹ -- اس تصویر کا کمال یہ ہے کہ ایک کلاس روم کی ھے جہاں سب "لڑکے" کلاس شروع ہونے سے پہلے خوش گپّیوں میں مصروف ھین اور مجھے دم کے دم میں اس کو دیکھکرپچپن سال پہلے کا وقت سامنے آ کھڑا ہوتا ھے اور ایک ایک 'لڑکا' نظر آ رہا ہےچونکہ میجر جنرل ظہیر سے آپ کا تعارف ہو چکا ھے تو صرف اسکا بتاتا ھوں سب سے پچھلی لائن میں دائِن جانب سے پہلا بیٹھا ھوا  ظھیر ھے اور جو کھڑا ھے وہ اب ریٹایرڈ پروفیسر سعید احمد ھیں سڈنی یا ایڈیلیڈ میں کہیں-پیڈئٹرک یورالوجی کے
 سعید ھمارے بہت عزیز دوستوں میں سے ھے  صرف اتنا کہوںگا کہ ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۱ کو جب میں پہلی بار پاکستان سے انگلینڈ پنہچا تھا تو سیدھا سعید کے پاس ھی گیا تھا ظہیر کے ساتھ بیٹھے ھوے منظوریعنی لفٹننٹ جنرل منظور ھین جو آجکل پاکستان کالج آف پتھالوجی کے بانی-و-صدر ھیں اس گرپ میں اب کئ اگلے جہان کو سدھار چکے ھیں جن کے لئیے ھم نے دعائے مغفرت کی تھی جب ھم ۲۰۰۸ میں اکٹّھے ھوے تھے
حال ہی میں معلوم ہوا کہ ظہیر صاحب امریکہ آ رہے ھین تو زلفی کے ھاں دو تین روز ھماری گپ شپ رہے گی ان کا ایک بیٹا ٹیکساس میں کارڈیالوجسٹ ھے پہلے وہ اس کے پاس جائنگے اب ایسا ہے کہ گو میں امریکہ میں عرصہ سے ہوں مگر زلفی ابھی تک "ڈیڈی" کا رول کر رہا ہے اسکے دو بچّے کنٹکی میں ھین تو وہاں آسانی زیادہ ھے ویسے بھی وہ زرا سینٹرل سی جگہ ھے اور نزدیک ہی سنسناٹی ھے جہاں ایک اور کلاس فیلو رھتے ھین اس لئیے بھی زلفی کا گھر بہتر رہتا ہے۔ اسکو ڈیڈی کا یا پتاجی کا نام جو دیا گیا تھا اس کی وجہ تسمیہ اپنے انگریزی والے بلاگ میں لکھ چکا ھون صرف یہی نہیں کہ زلفی عمر میں ھم سب سے ایک سال بڑا تھا بلکہ اس لیئے بھی کہ ھر ماہ اسے وظیفہ-تقریبا' -۷۵ روپے ملتا تھا یہ ہمارے لئیے بڑی رقم ہوتی تھی اور زلفی اس وقت بھی 'دریادل' اسی طرح تھا
Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Wednesday, January 13, 2010

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج {یونیورسٹی] لاہور

      2004                                                                 1956
ہم دوہزار دس میں داخل ہو چکے ھیں آج سے ایک صدی پہلے لاہور میڈیکل کالج کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا نام دیا گیا تھا اس وقت وہ "سکول" تھا اس سے پچاس برس پہلے اس سکول کی بنیاد رکھی گئ تھی اس پس منظر میں دیکھا جاءے تو یہ سال بڑا اھم ھے یعنی اس کالج کی ایک سو پچاسویں سالگرہ منانے کا پروگرام ہونا چاھئے ھم نے ابھی تک سنا نھیں مگر ھم نےسو سالہ برسی ۱۹۶۰ میں مناِئ تھی بڑے جشن ہوئے تھے چنانچہ میں اسی انتظار میں ہوں کب اطلاع ملے گی ھم نے اس میں ۱۹۵۲ میں قدم رکھا تھا اور ۱۹۵۹ میں اس کو اور لاہور کو خیر باد کہاپھر خیبر میڈیکل کالج سے ۱۹۶۰ میں لاہور کا چکّر لگانا پڑا تھا
پانچ سال تو پڑھائ میں گزرتے ھیں پھر ایک سال ھاءوس جاب کا اس کے بعد دوسری جاب وغیرہ ڈھونڈنےمیں لگے مگر لاہور چھوڑتے ہوءے تکلیف ہوئ تھی خیر ھم جب داخل ہوءے تھے تو ۱۱۰ کی کلاس ہوا کرتی تھی اس میں پانچ فیصدی لڑکیاں ہوتی تھیں دو گروپ یا بیچ بناءے جاتے اے اور بی میرا نام چوںکہ و سے شروع ہوتا ہے تو میں آخری لڑکوں مین تھا اس لیئے میرے ساتھی سارے وہ ھیں جن کے نام ایس سے لیکر زیڈ تک والے ھیں { جن کو آپ یہاں دیکھ رہے ھیں }ھم لارنس گارڈن میں تھَے تو میں نے کہا ھم اس کالج میں پانچ سال اکٹھے رہیں گے         یہ ۱۹۵۲ کی بات ھے تو اس وقت ھم نے اپنی مضبوط یاری کا عہد باندھا وہ اللہ کے فضل سے آج تک قائم ھے ہم سب کام اکٹھے کرتے تھے صرف آصف کا نام پہلے گروپ کا ھےیعنی اے بیچ کا تو وہ ہمارے ساتھیوں میں بعد میں آیاتھا یعنی ھم پانچ میں 
اور اس وجہ سےاسکا نام ھمارے ناموں میں شامل نھیں ہوتااسکو ھم اپنے ساتھ                                                                                              کہ کر رکھتے ھیں     "foreigner"                 
 {لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمیں کم پیارا ہےیا اس کا خیال نہیں رکھا جاتامگر
اس تصویر میں ہم پانچ ھیں پہلے میں ھوں پھر فروکی یعنی ڈاکٹر محمد سرور فاروقی پھر شیخ یعنی میجر جنرل ظہیرالدین اسکے بعد زلفی یعنی ڈاکٹر ذوالفقارحیدر اور سب سے بائیں طرف بھٹّہ یعنی ڈاکٹر ظفر اقبال بھٹّہ کھڑے ھیں یہ ۲۰۰۴ کی تصویر ھے اور اس میں آصف شامل نھیں یعنی ڈاکٹر آصف علی چوہدری اس کی وجہ دراصل یہ تھی کہ وہ ہمارے درمیان ۱۹۵۶ والی تصویر میں نھین تھا ورنہ وہ اس وقت ھمارے ساتھ تھا جو دوسری تصویر میں وہی ترتیب آپ دیکھیں گے ھمارے کھڑے  (Starting from myself then Frooki---  from right to left)ہونے کی

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/

Thursday, January 7, 2010

اسلامیہ کالج سے گورنمنٹ کالج تک-لاہور

در اصل ایک اور اسلامیہ کالج تھا جس کی وجہ سے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کہنا ضروری سمجھا جاتا تھایہ کالج انجمن حمایت اسلام لاہور کے زیر اہتمام بنایا گیا تھا
گورنمنٹ کالج میں بی ایس سی میں داخلہ لیا توباٹنی زوآلوجی کے سبجیکٹ تھے اس وقت کا پنجاب یونیورسٹی کا زوالوگی کا میوزیم ایک بڑے سے کمرے میں تھا اور میری رگ تجسّس زوالوجی میں پھڑک اٹھّی چنانچہ اس میوزیم کے سارے سپیسیمن مجھے یاد ہو گئے تھے
خیر دو سال وھان خوب گزرے وقار حسن اور محمودالحسن ابھی وھیں تھے تو اب ان سالوں میں گورنمنٹ کالج نے یونیورسٹی چیمپینشپ جیتی کیونکہ اسلامیہ کالج سے امتیاز اور خان محمد جا چکے تھے کالج کے ڈراموں میں سے ایک یاد ھے
"She stoops to conquer"
مسٹر اسلم اظہر اس وقت ایم اے میں تھے اور ان ڈراموں میں حصہ لیتے تھے بعد مین اسلم اظہر انگلش کے نیوز کاسٹر ہوے اور ماشا اللہ قران مجید کاترجمہ پکتھال صاحب والابھی انھوں نے پڑھا ہے اور اگر آپ کو ملے تو ضرور سنئے بہت خوب پڑھا ہے
اب ایک اردو کی ڈبیٹ کا اور قصہ سن لیں اس کا ٹاپک تو یاد نہیں رہا مگر ایک صاحبہ جو قد میں زیادہ نہیں تھیں اور مائک تک پہنچنے کے لیئے انھیں اپنی ایڑیوں کو اٹھانا پڑ رہا تھا وہ با ر بارصدر کو مخاطب کر کے کہتی جا رہی تھین
صاحب صدر جان کی امان پائوں تو عرض کروں بعد مین ان سے مختصر ملاقات یوں ہوئ کہ انھوں نے کچھ نیںد آور گولیاں زیادہ کھا لی تھیں اور میں اس وقت فائنل ایم بی بی ایس میں تھا --خیر   بی ایس سی کرنے کے بعد ہمیں کنگ ایڈورڈ میڈیکل میں داخلہ ملا اب تو گورنمنٹ کالج اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج بھی دونوں یونیورسٹیاں بن چکے ھیں

Please visit my English blog at http://saugoree.blogspot.com/ and my Hindi blog at http://wahajunana.blogspot.com/